سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(18) مرتد کی توبہ عند الشرع مقبول ہے یا نہیں؟

  • 26111
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1701

سوال

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتےہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص مسلمان دین اسلام کو  چھوڑ کر اور پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تسبیب وتکذیب کرکے مرتد یعنی عیسائی ہوپھر اسی طرح عرصہ مدیدہ تک قرآن وپیغمبر  علیہ السلام  کی تسبیب وتکذیب کررتا رہا ہو اور امہات المومنین وصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے حق میں کلمات بے ادبانہ اور نعوذ باللہ منہما واسطے ترویج دینے اس دین کے قصص ماضیہ کا ذ بہ مثل قصہ قذف صدیقہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہا   خلط مع خلط صد کز بہائے دیگربیان کرتا رہا ہو اور بعد اس مدت مدیدہ کے مطابق رواج توبہ کرکے دائرہ اسلام میں داخل اور زمرہ مسلمین میں شامل ہونا چاہیے تو اس کی توبہ عندالشرع مقبول ہے یا نہیں۔بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان الحکم الااللہ صورت مرقومہ میں ایسے شخص پر تین وجہوں سے کفر عائد ہوتا ہے اول بسبب گالی دینے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو۔

"وقال محمد بن سحنون: أجمع العلماء على أن شاتم النبي صلى الله عليه وسلم المتنقص له كافر، والوعيد جار عليه بعذاب الله له، وحكمه عند الأمة القتل. ومن شك في كفره وعذابه كفر"[1]

وودیم بسبب تبدیل دین کے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴿٨٥﴾... سورة آل عمران[2]

سویم بسبب معبود ماننے کے عیسیٰ  علیہ السلام  کو اور قائل ہونے تثلیث کے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿لَقَد كَفَرَ الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ المَسيحُ ابنُ مَريَمَ...﴿٧٢﴾... سورة المائدة[3]
﴿لَقَد كَفَرَ الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ ثالِثُ ثَلـٰثَةٍ وَما مِن إِلـٰهٍ إِلّا إِلـٰهٌ و‌ٰحِدٌ ...﴿٧٣﴾... سورة المائدة

ان تین وجہوں میں ایسا شخص واجب القتل ہے اول بسبب گالی دینے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو :

"عن أبي برزة قال: "كنت عند أبي بكر رضي الله عنه فتغيظ على رجل فاشتد عليه فقلت: تأذن لي يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم أضرب عنقه قال: فأذهبت كلمتي غضبه فقام فدخل فأرسل إلي فقال: ما الذي قلت آنفا؟ قلت: ائذن لي أضرب عنقه قال: أكنت فاعلا لو أمرتك؟ قلت: نعم قال: لا والله ما كانت لبشر بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم".(رواہ ابوداؤد)[4]
"قال ابن المنذر رحمه الله : "أجمع عامة أهل العلم على أنَّ مَن سبَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم عليهالقتل" انتهى

 سوئم بسبب ترک وتبدیل دین کے:

عن ابن عباس رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من بدل دينه فاقتلوه " 
"عنْ ابنِ مسعودٍ -رَضِي اللهُ عَنْهُ- قالَ: قالَ رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَن لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وأَنِّي رسُولُ اللهِ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: الثَّيِّبِ الزَّانِي، وَالنَّفْسِ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكِ لِدِينِهِ الْمُفَارِقِ لِلْجَمَاعَةِ"). رواه البخاريُّ ومسلمٌ)[5]

ابن رجب  نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے:

"وأما ترك الدين ومفارقة الجماعة فمعناه الارتداد عن دين الإسلام"[6]
"واتفقوا على أن المرتد عن الإسلام يجب عليه القتل"[7]

چہارم بسبب شرک کے۔

﴿فَاقتُلُوا المُشرِكينَ حَيثُ وَجَدتُموهُم...﴿٥﴾... سورة التوبة

جس شخص میں یہ مذکورہ بالا وصف ہوں بحکم قرآن وحدیث وباتفاق صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  وتابعین رحمۃ اللہ علیہ  وائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ  (یعنی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  وامام مالک رحمۃ اللہ علیہ  وامام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  وامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  ) جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا کافر واجب القتل ہے۔اب رہی یہ بات کہ یہ شخص مذکور توبہ کر کے ا پنی باقی زندگی کو دائرہ اسلام میں بآرام گزارنا چاہے تو اس کی توبہ قبول کرکے اسلام اس کو پناہ دیتا ہے یا نہیں فاقول وبااللہ التوفیق جو شخص موصوف باین اوصاف ثلثہ کہ جن میں ایک سب نبی بھی ہے  ہو اس کو اسلام ہرگز پناہ نہیں دے گا بلکہ حداً اس کے قتل کے درپے ہوگا۔

"قال أبو بكر بن المنذر: أجمع عوام أهل العلم على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم : «يقتل»، وممن قال ذلك: مالك بن أنس، والليث، وأحمد، وإسحق، وهو مذهب الشافعي. قال القاضي عياض:وبمثله قال أبوحنيفةوأصحابه،والثوري وأهل الكوفة والأوزاعي. وقال محمد بن سحنون....."[8]

فتاویٰ بزازیہ میں ہے:

اگر کوئی آدمی کسی نبی کوگالی دے کر مرتد ہواہوتو اس کو حد کے طور پر قتل کیا جائے اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔اشباہ میں ہے کہ مست آدمی اگر اسلام کا انکار کرے تو اسے مرتد نہیں کہا جائے گا اوراگرمست آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دے کر مرتد ہواہو تو اس کوقتل کردیا جائے گا اور اس کو معاف  نہیں کیا جائے گا۔

اور صاحب فتح القدیر شارح ہدایہ نے لکھا ہے:

جوآدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق دل میں بغض رکھے وہ مرتد ہے اورگالی دینے والاتو بطرح اولی مرتد ہوگا ہمارے نزدیک اس کو حد کے طور پر قتل کیا جائے اگرتوبہ کرے تو بھی اس کوقتل کیا جائے مبسوط میں ہے اس کو قتل کیاجائے یازندہ رکھ کرسزادی جائے لیکن اس کی توبہ قبول نہ کی جائے امام کواختیار ہے کہ خواہ اسے سولی دے یاقتل کرے امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دے یا عیب لگائے یا ان کی شان گھٹائے اسے قتل کردیا جائے خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے"صارم المسلول" میں حنابلہ کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے۔ابوخطاب نے کہا اگرکوئی آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کی والدہ پر تہمت لگائے تو اس کی توبہ بھی قبول نہ کی جائے۔

شرح درمختار میں ہے:

حنابلہ کا مذہب بھی مالکیہ کے قریب قریب ہے امام احمد کہتے ہیں کہ اس کی توبہ قبول نہ کی جائے اور آپ کی والدہ پر اگر تہمت لگائے تو بھی توبہ قبول نہ کی جائے۔

تو معلوم ہوا کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دے کر مرتد ہوجائے تو اس کی توبہ قبول نہیں بلکہ اس کی حد قتل ہے یہی مذہب ہے ابوبکرصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا اور اسی طرف گئے ہیں مالکیہ وشافعیہ وحنابلہ مع اپنے ماموں کے اور یہی مسلک ہے امام لیث بن سعد واسحاق بن راہویہ کا اور اسی کو اختیار کیا ہے۔امام ابن ہمام وصاحب بزازیہ نے حنفیہ میں سے فقط۔

جواب الجواب۔شخص مذکور کے جمیع افعال سے اگرچہ ایک فعل سب نبی ہے تو بھی اس کی توبہ عند الشرع مقبول ہے اور یہ بات بیسیوں آیات واحادیث سے ثابت ہے ونیز فقہ میں اس کے لیے متعدد شہادتیں موجود ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿فَمَن تابَ مِن بَعدِ ظُلمِهِ وَأَصلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتوبُ عَلَيهِ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٣٩﴾... سورة المائدة

یعنی پھرجوکوئی توبہ کرنے کے بعد ظلم اپنے کے اور نیکی کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے"

صحیح مسلم میں ہے:

 "وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا ، تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ )" (مشکوٰة شریف باب الاستغفار والتوبة)

"یعنی ابوہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو شخص توبہ کرے قبل اس کے کہ آفتاب پچھم سے طلوع ہوتو اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے ان دونوں آیت وحدیث میں کسی خاص گناہ کرنے والے کا ذکر نہیں ہے بلکہ دونوں میں من کا لفظ واقع ہے جو ہرگناہ کرنے والے کو شامل ہے۔لہذا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص توبہ کرے خواہ سب نبی کرنے والا ہو یاکوئی اور گناہ کرنے والا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے  پس ان دونوں دلیلوں سے سب نبی کرنے والے کی توبہ کا قبول ہونا ثابت ہوا۔یہ دودلیلیں قرآن وحدیث سے نمونہ کے طور پر بیان کی گئی ہیں اب چند شہادتیں فقہ سے بیان کی جاتی ہیں۔

شہادت اول۔رد المختار صفحہ 449 جلد 3حاشیہ درمختار میں ہے:

[9]"قال الإمام خاتمة المجتهدين الشيخ تقي الدين السبكي في كتابه (السيف المسلول على من سب الرسول) : حاصل المنقول عند الشافعية أنه متى لم يسلم قتل قطعا ومتى أسلم ، فإن كان السب قذفا فالأوجه الثلاثة هل يقتل أو يجلد أو لا شيء ، وإن كان غير قذف فلا أعرف فيه نقلا للشافعية غير قبول توبته  وللحنفية في قبول توبته قريب من الشافعية ، ولا يوجد للحنيفة غير قبول التوبة .وأما الحنابلة فكلامهم قريب من كلام المالكية والمشهور عن أحمد عدم قبول توبته وعنه رواية بقبولها فمذهبه كمذهب مالك سواء ، هذا تحرير المنقول في ذلك ا هـ ملخصا ، فهذا أيضا صريح في أن مذهب الحنفية القبول وأنه لا قول لهم بخلافه "

اس روایت سے ثابت ہواکہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب یہی ہے کہ شخص مذکور کی توبہ قبول ہوگی۔

شہادت دوم۔نیزرد المختار صفحہ 449 جلد 3 میں ہے:

"وقد سبقه إلى نقل ذلك أيضا شيخ الإسلام تقي الدين أحمد بن تيمية الحنبلي في كتابه [ الصارم المسلول على شاتم الرسول صلى الله عليه وسلم ] كما رأيته في نسخة منه قديمة عليها خطه حيث قال : وكذلك ذكر جماعة آخرون من أصحابنا أي الحنابلة أنه يقتل ساب الرسول صلى الله عليه وسلم ولا تقبل توبته سواء كان مسلما أو كافرا ، وعامة هؤلاء لما ذكروا المسألة قالوا خلافا لأبي حنيفة والشافعي وقولهما أي أبي حنيفة والشافعي وإن كان مسلما يستتاب ، فإن تاب وإلا قتل كالمرتد وإن كان ذميا ، فقال أبو حنيفة لا ينقض عهده ثم قال بعد ورقة قال أبو الخطاب : إذا قذف أم النبي صلى الله عليه وسلم لا تقبل توبته ، وفي الكافر إذا سبها ثم أسلم روايتان وقال أبو حنيفة والشافعي : تقبل توبته في الحالين ا هـ ثم قال في محل آخر قد ذكرنا أن المشهور عن مالك وأحمد أنه لا يستتاب ولا يسقط القتل عنه ، وهو قول الليث بن سعد .وذكر القاضي عياض أنه المشهور من قول السلف وجمهور العلماء ، وهو أحد الوجهين لأصحاب الشافعي وحكي عن مالك وأحمد أنه تقبل توبته ، وهو قول أبي حنيفة وأصحابه ، وهو المشهور من مذهب الشافعي بناء على قبول توبة المرتد .
فهذا صريح كلام القاضي عياض في الشفاء والسبكي وابن تيمية وأئمة مذهبه على أن مذهب الحنفية قبول التوبة بلا حكاية قول آخر عنهم ، وإنما حكوا الخلاف في بقية المذاهب ، وكفى بهؤلاء حجة لو لم يوجد النقل كذلك في كتب مذهبنا التي قبل البزازي ومن تبعه مع أنه موجود أيضا كما يأتي في كلام الشارح قريبا "[10] 

اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ توبہ کا قبول ہونا۔یہی مذہب ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی یہی منقول ہے۔

شہادت سوم۔دنیز شامی صفحہ 450 جلد3 میں ہے:

"[11]وكذلك كتب شيخ مشايخنا الرحمتي هنا على نسخته أن مقتضى كلام الشفاء وابن أبي جمرة في شرح مختصر البخاري في حديث «إن فريضة الحج أدركت أبي» إلخ " أن مذهب أبي حنيفة والشافعي حكمه حكم المرتد، وقد علم أن المرتد تقبل توبته كما نقله هنا عن النتف وغيره ...........المذهب كمذهب الشافعي قبول توبته كما هو رواية ضعيفة عن مالك وأن تحتم قتله مذهب مالك، وما عداه فإنه إما نقل غير أهل المذهب. 
أو طرة مجهول لم يعلم كاتبها. فكن على بصيرة في الأحكام، ولا تغتر بكل أمر مستغرب وتغفل عن الصواب، والله تعالى أعلم"

اس روایت سے بھی ثابت ہوا کہ توبہ کا قبول ہونایہی مذہب ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا۔

شہادت چہارم۔ونیز شامی صفحہ 454 جلد3 میں ہے:

"حاصل کلام یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والا کافر ہے اس کا قتل جائز ہے ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے اختلاف ہے تو اس بات میں کہ اس کی توبہ قبول ہے یانہیں؟احناف اورشوافع کے نزدیک اس کی توبہ قبول ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک توبہ قبول نہیں اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے گا۔"

اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب یہی ہے کہ توبہ مقبول ہوگی ان چاروں روایتوں سے صاف ثابت ہوا کہ اما م شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اورامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب یہی ہے کہ توبہ مقبول ہو گی اور دوسری روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی یہ مذہب منقول ہے لہذاثابت ہوا کہ ائمہ اربعہ کا یہ مذہب ہے اب پوری تقریر سے معلوم ہواکہ قرآن اور حدیث کا متقضی بھی یہی ہے کہ توبہ مقبول ہوگی اور یہی ائمہ اربعہ کا مذہب ہے باقی رہا جواب اول سو اس کے اخیر میں جو یہ بات مذکور ہے کہ جو شخص موصوف ہو باین اوصاف ثلاثہ کہ جن میں سب نبی بھی ہے اس کواسلام ہرگز پناہ نہیں دے گا بلکہ اس کےقتل کے درپے ہوگا سو یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے جواب مذکور میں اس دعوے کے ثبوت میں کوئی شرعی دلیل مذکور نہیں ہے اور نہ اس کے لیےکوئی شرعی دلیل ملتی ہے اورجواب مذکور کی پہلی روایت میں جو اجماع مذکور ہے وہ سب نبی کرنے والے کے قتل کرنے کے بارے میں ہے اس کی توبہ مقبول نہ ہونے کے بارے میں نہیں ہے چنانچہ روایت مذکورہ کی عبارت سے ظاہر ہے اس کے علاوہ جواب مذکورمیں جوروایات فقہیہ منقول ہیں وہ سب مخدوش ہیں۔

پہلی روایت اول تو اس وجہ سے مخدوش ہے کہ اس میں کسی کتاب کا حوالہ نہیں ہے اور یہ بات علت سے خالی نہیں ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت شامی صفحہ 448 جلد3 میں بحوالہ شفاء قاضی یوں مذکور ہے :

"قال أبو بكر بن المنذر: أجمع عوام أهل العلم على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم : «يقتل»، وممن قال ذلك: مالك بن أنس، والليث، وأحمد، وإسحق، وهو مذهب الشافعي. قال القاضي عياض: وبمثله قال أبو حنيفة وأصحابه والثوري وأهل الكوفة والأوزاعي في المسلم، لكنهم قالوا: هي ردة. وروى مثله الوليد بن مسلم عن مالك: وروى الطبراني مثله عن أبي حنيفة وأصحابه فيمن ينقصه يَةِ أو برىء منه أو كذبه اها"[12]

اس عبارت میں ولید ابن مسلم کی جو روایت ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک روایت  یہ ہے کہ شخص مذکور کی توبہ قبول ہوگی چنانچہ شامی میں جو اس روایت کا حاصل لکھا ہے اس میں یوں مرقوم ہے:

"ولید نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے قول کی طرح نقل کیا ہے تو گویا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے دوروائتیں ہوئیں توبہ کاقبول ہونااور نہ ہونا اورآخری قول زیادہ مشہور ہے"

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں عدم قبول توبہ جوامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب قراردیا گیا ہے یہ غیر مشہور مذہب ہے  اور آپ کا مشہور مذہب یہی ہے کہ توبہ قبول ہوگی چنانچہ شامی میں روایت مذکورہ کی تحت میں یوں مرقوم ہے:

 "ثم إن ما نقله عن الشافعي خلاف المشهور عنه والمشهور قبول التوبة على تفصيل فيه"[13]

اور دوسری عبارت جو بحوالہ فتاوی بزازیہ منقول ہے وہ اس وجہ سے مخدوش ہے کہ اس کو علامہ شامی نے رد کردیا۔ہے اور یہ کہا ہے کہ اس بارے میں بزازی سے بڑاتساہل ہوا ہے اور اسی وجہ سے عامہ متاخرین سے اس بارے میں خطاہوئی ہے چنانچہ شامی صفحہ 450جلد 3 میں ہے:

"والبزازي تبع صاحب السيف المسلول) الذي قاله البزازي: إنه يقتل حدا، ولا توبة له أصلا، سواء بعد القدرة عليه والشهادة، أو جاء تائبا من قبل نفسه كالزنديق لأنه حد وجب، فلا يسقط بالتوبة ولا يتصور فيه خلاف لاحد، لأنه تعلق به حق العبد إلى أن قال: ودلائل المسألة تعرف في كتاب الصارم المسلول على شاتم الرسول اه‍. وهذا كلام يقتضي منه غاية العجب، كيف يقول لا يتصور فيه خلاف لأحد بعد ما وقع فيه الأئمة المجتهدين مع صدق الناقلين عنهم كما أسمعناك وعزوه المسألة إلى كتاب الصارم المسلول وهو ابن تيمية الحنبلي يدل على أنه لم يتصفح ما نقلناه عنه من التصريح بأن مذهب الحنفية والشافعية قبول التوبة في مواضع متعددة، وكذلك صرح به السبكي في السيف المسلول والقاضي عياض في الشفاء كما سمعته، مع أن عبارة البزازي بطولها أكثرها مأخوذ من الشفاء فقد علم أن البزازي قد تساهل غاية التساهل في نقل هذه المسألة، وليته حيث لم ينقلها عن أحد من أهل مذهبنا بل استند إلى ما في الشفاء والصارم، أمعن النظر في المراجعة حتى يرى ما هو صريح في خلاف ما فهمه ممن نقل المسألة عنهم، ولا حول ولا قوة إلا بالله العليم العظيم. فلقد صار هذا التساهل سببا لوقوع المتأخرين عنه في الخطأ حيث اعتمدوا على نقله وقلدوه في ذلك، ولم ينقل أحد منهم المسألة عن كتاب من كتب الحنفية، بل المنقول قبل حدوث هذا القول من البزازي في كتبنا وكتب غيرنا خلافه"[14]

ونیز روایت مذکورہ کو علامہ چلپی نے بھی رد کیا ہے چنانچہ علامہ مذکور نے خاص بزازی کے رد میں ایک رسالہ لکھا ہے چنانچہ شامی صفحہ 451۔جلد3 میں ہے:

"حسام جلبي ورسالته في الرد على البزازي، وما فيها من تتبع كتب الحنفية، وبيان الغلط ومنشئه: ألف العلامة النحرير الشهير بحسام جلبي رسالة في الرد على البزازي وقال في آخرها: (وبالجملة قد تتبعنا كتب الحنفية فلم نجد القول بعدم قبول توبة الساب عندهم سوى ما في البزازية، وقد علمت بطلانه ومنشأ غلطه أول الرسالة"[15]

اور چوتھی روایت جو بحوالہ اشباہ منقول ہے اس وجہ سے مخدوش ہے کہ اس کو علامہ حموی نےحاشیہ اشباہ میں رد کردیا ہے چنانچہ شامی صفحہ 451 جلد 3 میں ہے:

"قال الحموي في حاشية الأشباه نقلا عن بعض العلماء: (إن ما ذكره صاحب الأشباه من عدم قبول التوبة قد أنكره عليه أهل عصره وأن ذلك إنما يحفظ لبعض أصحاب مالك كما نقله القاضي عياض وغيره. أما على طريقتنا فلا"[16]

اورچوتھی روایت جو بحوالہ فتح القدیر مذکور ہے اس وجہ سے مخدوش ہے کہ اس کو علامہ شامی نے رد کردیا ہے چنانچہ شامی صفحہ 52۔ جلد3 میں ہے:

"تو جانتاہے کہ یہ قاضی عیاض کے قول پر مبنی ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ   کا مذہب یہ ہے کہ اس کی  توبہ قبول نہیں ہے اور بزازی نے بھی اس کی اتباع کی ہے  اور یہ تو تواچھی طرح جانتا ہے کہ ہمارا مذہب اس کے خلاف ہے اور قاضی عیاض نے بھی اس کی تصریح کی ہے"

اور پانچویں روایت جو بحوالہ مبسوط منقول ہے اس وجہ سے مخدوش ہے کہ اس میں دوہی روایتیں مذکور ہیں ایک تو عثمان بن کنانہ کی اور دوسری ابن مصعب کی اوردونوں ہی مخدوش میں پہلی روایت تو اس وجہ سے مخدوش ہے ہ اس میں عدم قبول توبہ کا ذکر ہی نہیں ہے کیونکہ اس میں صرف لم یستتب کا لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ توبہ طلب نہیں کی جاوے گی اور اس کے بعد جوتفیر کے طور پر(اولم تقبل توبة) لکھا ہے یہ کسی طرح معتبر نہیں ہوسکتا کیونکہ اصل لفظ کے بالکل خلاف ہے اور دوسری اس وجہ سے مخدوش ہے کہ ظاہر میں یہ وہی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت ہے کہ جن سے قبول توبہ بھی منقول ہے جیسا کہ روایت اول کے جواب میں مذکور ہوچکا ہے۔اورچھٹی روایت جو بحوالہ صارم مسللول منقول ہے اس وجہ سے مخدوش ہے کہ اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حنبلیوں کا مذہب یہ ہے کہ توبہ مقبول نہ ہوگی چنانچہ سب نبی کرنے والے کی  توبہ مقبول نہیں لیکن اس کے نیچے متصل ہی یہ بھی لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ۔اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا  مذہب یہ ہے کہ توبہ مقبول ہوگی چنانچہ جواب میں جو  فقہی شہادتیں لکھی گئی ہیں ان میں شہادت دوم میں پوری عبارت موجود ہے جبکہ دواماموں کا مذہب یہ  ہواکہ توبہ مقبول ہوگی تو صرف حنبلیوں کےمذہب کو کوئی ترجیح نہیں کہ حجت کے طور  پر نقل کیا جاوے۔

اورساتویں روایت جو بحوالہ شامی منقول ہے اس وجہ سے مخدوش ہے کہ اس میں جو بیچ کا جملہ ہے۔یعنی:

"والمشهور عن أحمد عدم قبول توبته"[17]

اس کے بعد یہ جملہ بھی ہے وعنہ روایہ بقبولھا جو نقل کرنے میں چھوڑدیاگیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  سے قبول توبہ کی روایت منقول ہے اور اس روایت میں جو اخیر کاجملہ ہے۔یعنی(وقال ابوالخطاب) اس کے بعد یہ جملہ بھی ہے:

"و قال أبو حنيفة و الشافعي: تُقبل توبته في الحالين"

جو نقل کرنے میں چھوڑدیاگیا ہے۔جس سے ثاب ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کامذہب یہ ہے کہ توبہ مقبول ہوگی اور جب ان دونوں اماموں کا یہ مذہب ٹھیراتوصرف ابوالخطاب کے قول کو کوئی  ترجیح نہیں کہ دلیل کے طور پر نقل کیا جاوے اس چھٹی روایت کی نقل میں نہایت قطع وبرید ہوئی ہے کیونکہ اس روایت کے پہلے جملے(واما الحنابلہ) اور اخیر جملہ(وقال ابوالخطاب) کے درمیان اصل کتاب شامی میں کوئی چھ سطریں حائل ہیں اوردونوں جملے ماقبل اور ما بعد سے کاٹ کاٹ کر نقل کیے گئے ہیں۔اس روایت کی نسبت جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی تصدیق فقہی شہادتوں میں پہلی اور دوسری شہادت میں موجود ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم حررہ ابو محمد عبدالحق اعظم  گڑھی  عفی عنہ۔(سیدمحمد نذیر حسین )


[1]۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوگالی دینے والا یا ان کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے اس کے لیے اللہ کے عذاب کی وعیدہے اور اُمت کے نزدیک اس کے لیے حکم قتل ہےاور جو اس کے کفر یا عذاب میں شک کرے وہ خود کافر ہے۔

[2]۔اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی دین اختیار کرے گا تو وہ اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھائے گا۔

[3]۔ وہ لوگ کافرہیں کہ جو کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام  ہی خدا ہے (آیت) اور وہ لوگ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا تین میں سے تیسرا ہے حالانکہ خدا صرف ایک ہی ہے۔

[4]۔ ابوبرزہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں میں ابوبکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس تھا آپ ایک آدمی پر سخت ناراض ہوئے میں نے کہا مجھے اجازت دیں میں اسے قتل کردوں ۔میرے اس کہنے سے آپ کا غصہ فرو ہوگیا،مجھے اندر بلایا اور کہا تو نے کیاکلمہ کہا تھا۔میں نے اپنی بات دہرائی کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو ناراض کرنے والے کے سوا کسی اور کوقتل نہیں کیا جاسکتا۔قاضی ابوبکر بن منذر کہتے ہیں کہ تمام اہل علم کااتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والے کوقتل کیا جائے مالک بن انس۔لیث بن سعد۔اما احمد اسحاق بن راہویہ۔امام شافعی حضرت ابوبکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا یہی مذہب تھا۔اوران کے نزدیک اس کی توبہ قبول نہیں ہے ابوبکر فارسی شافعی کا قول ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر کوئی تہمت لگائے وہ بالاتفاق علماء کافر ہے اگر توبہ کرجائے تو پھر بھی اس کوقتل کیا جائے کیونکہ اس کی تہمت کی سزا قتل ہے۔اورقذف کی حد توبہ سےساقط نہیں ہوتی ہارون رشید نے امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والے کے متعلق عراقیوں کافتوی ہے کہ اس کو کوڑے لگائے جائیں کیا یہ صحیح ہے؟تو امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  غصے میں بپھر گئے اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  تو درکنار صحابہ کوگالی دینےوالے کو بھی قتل کیا جائے۔

[5]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو اپنا دین بدل دے اس کو قتل کردو اور فرمایا مسلمان آدمی کاخون صرف تین چیزوں سے ۔

1۔شادی شدہ ایسا کرے تو اس کو سنگسار کردیا جائے۔

2۔قاتل کو مقتول کے بدلے کیا جائے۔

3۔یا دین چھوڑ کر جماعت سے الگ ہوجائے۔

[6]۔ ترک دین اور جماعت سے الگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام سے مرتد ہوجائے۔

[7]۔مرتد ہونا اسلام سے تعلق منقطع کرنے کانام ہے۔خواہ قول سے ہو یا فعل اور نیت سے ۔تمام ائمۃ کا اتفاق ہے جو اسلام سے مرتد ہوجانے اس کے لیے قتل واجب ہے۔

[8]۔قاضی ابو بکر نے کہا تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والا قتل کیا جائے امام مالک لیث بن سعد۔احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ۔اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ ۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  ۔اور ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا یہی مذہب ہے اور ان کے نزدیک اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔

[9]۔شیخ تقی الدین سبکی نے اپنی کتاب"السیف للسلول"  میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والا اگر دوبارہ مسلمان نہ ہوتو اسے قتل کردیا جائے اور اگر اسلام لے آئے تو اگر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر تہمت لگائی ہوتوتین طرح کے اقوال ہیں "

1۔اسے قتل کیا جائے گا۔

2۔اسے کوڑے لگائے جائیں۔

3۔اسے معاف کردیا جائے۔

اوراگرتہمت نہ ہوتو احناف اور شوافع کے نزدیک اس کی توبہ قبول ہے ۔حنابلہ اور مالکیہ کا ایک قول یہ ہے کہ اس کی توبہ قبول نہ کی جائے اور دوسرا یہ کہ اس کی توبہ قبول ہے۔

[10]۔امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے صارم المسلول میں لکھا ہے کہ حنابلہ کی ایک جماعت کامذہب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کو گالی دینے والے کو قتل کردیاجائے اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے خواہ وہ مسلمان ہویا کافر ۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک اگر مسلمان ہے تو اس سے توبہ کرائی جائے اگرتوبہ کرے تو فبہا ورنہ اسے مرتد کی طرح قتل کردیا جائے۔اگر ذمی ہوتواس کا عہد نہیں ٹوٹے گا ابوالخاب نے کہا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی والدہ پر تہمت لگائے تو اس کی توبہ قبول نہ کی  جائے اگر کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دے اور پھر مسلمان ہوجائے تو اس کے متعلق دوروایتیں ہیں ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  اس کی توبہ قبول کرتے ہیں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک اس کی توبہ قبول نہیں اور قتل کیا جائے گا۔لیث بن سعد کا بھی یہی مذہب ہے قاضی عیاض  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا سلف میں جمہور علماء کایہی مذہب تھا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک قول یہی ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کامشہور قول یہی ہے یہ روایت صریحاً دلالت کررہی ہے کہ احناف کے نزدیک متفقہ طور پر اس کی توبہ قبول ہے۔

[11]۔قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن ابی جمرہ کے قول کا خلاصہ شرح بخاری میں تحت حدیث: «إن فريضة الحج أدركت أبي»یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والے کے لیے مرتد کا حکم تجویز کرتے ہیں اور یہ تو معلوم ہے کہ مرتد کی توبہ قبول ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  کا مذہب بھی شافعی رحمۃ اللہ علیہ    کا طرح ہے۔

[12]۔ابوبکر بن منذر نے کہا کہ علماء کااتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔مالک بن انس۔لیث ۔احمد۔اسحاق۔امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا یہی قول ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ان کے شاگردثوری اور اہل کوفہ واوزاعی کا بھی یہ قول ہے لیکن وہ اسے مرتد کہتے ہیں اور مرتد کی توبہ قبول کرتے ہیں ۔

[13]۔امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  سے جو عدم قبول توبہ نقل کیا گیا ہے یہ ان کے مشہور قول کے خلاف ہے ان کا مشہور قول یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول ہے۔

 [14]۔بزازی نے کہا ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والے کی توبہ قبول نہیں ہے اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے گا خواہ وہ  توبہ ازخود کرے یاڈر کر کرے اور اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے کیونکہ اس میں بندے کا حق ہے۔بزازی کا یہ کلام بڑا عجیب ہے معلوم نہیں اس نے کس طرح کہہ دیا ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے حالانکہ مجتہدین کا اس میں اختلاف موجود ہے بزازی نے اس  قول کو امام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  حنبلی کی طرف منسوب کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری نقل کردہ تصریحات کی طرف انہوں نےتوجہ نہیں کی کہ احناف و شوافع اس کی توبہ کے قائل ہیں۔قاضی عیاض نے اور سبکی نے اس کی تصریح کی ہے اور بڑے تعجب کی بات یہ ہے کہ بزازی نے قاضی عیاض ہی سے زیادہ تر اس کونقل کیا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بزازی نے اس مسئلہ میں انتہائی تعامل سے کام لیا ہے کاش کہ وہ صارم اور سبکی کی طرف رجوع کرنے کی بجائے اصل دلائل کی طرف توجہ کرتا تو اس پر اصل حقیقت منکشف ہوجاتی ۔بزازی کا یہی تساہل بعد میں آنے والے فقہاء کے لیے مغالطہ کا سبب بن گیا کہ انہوں نےاس پر اعتماد کرکے تقلید کی۔اور کسی نے بھی اصل کتب کی طرف رجوع کرنے کی زحمت نہ اٹھائی اگر وہ توجہ کرتے تو احناف اوردوسرے مذاہب کی کتب میں اس کےخلاف دلائل معلوم کرلیتے۔

[15]۔کتاب نورالعین جوکہ چلپی نے بزازی کے رد میں رسالہ لکھا ہے تحریر ہے کہ ہم نے حنفیہ کی کتابیں کھنگال ڈالیں ہمیں تو کوئی ایسا قول نہیں ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالی دینے والے کی توبہ قبول نہیں ہے صرف بزازی نے لکھا ہے  اور اس کو جہاں سے غلطی لگی ہے وہ بھی ہم نے شروع رسالہ میں بیان کردیا ہے۔

[16] ۔حمودی نے حاشیہ اشباہ میں لکھا ہے کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ صاحب الاشباہ نے جو عدم قبول توبہ بیان کیا ہے اس کے زمانہ کے علماء نے اسکی تردید کی تھی اما مالک رحمۃ اللہ علیہ  کے بعض پیرو اس کے ضرور قائل ہیں۔(ہمارے) احناف کے علماء میں سے تو کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔

[17]۔امام احمد سے مشہور قول یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں اوردوسرا قول یہ ہے کہ اس کی توبہ قبول ہے۔

     ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی نذیریہ

جلد:2،کتاب التوبہ:صفحہ:54

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ