سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) ضاد کو مشابہ ظاء کے پڑھنا

  • 26105
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1182

سوال

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس شخص کے باب میں جو کہ حرف ضاد کو جس جگہ پر کہ قرآن مجید میں آتا ہے مشابہ ظاء کے پڑھتا ہے کہ جس کو ذواد بولتےہیں اور ض مماثل دال کے پڑھنے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ حرف بے اصل وبے ثبات ہے  اور محض مہمل ہے اور اس کے وجود کا کسی جاکتب فقہ وتصریف وتجوید کہ جن کا اسباب میں اعتبار ہے پتہ ونشان نہیں ہے پس جب کہ کتب معتبرہ ومستندہ میں  حرف دواد کا ذکر ونقل نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ معدوم ہےاور اس کے پڑھنے سے نماز میں خلل آتا ہے اس لیے کہ عدم نقل مستلزم نقل عدم ہے چنانچہ نمونہ ازخردارے عبارات کتب نقل کی جاتی ہیں،بنظر صدق وانصاف دورازاعتساف ملاحظہ کرنا چاہیے اول کتاب رعایۃ تصنیف امام محمد مکی میں مذکور ہے:

"والضاد لا تفترق عن الظاء إلاباختلاف المخرج وزيادة الاستطالة في الضاد "

ضاد نہیں الگ ہوتا ہے  ظا سے مگر بسبب جدا ہونے مخرج کے اور زیادہ ہونے درازی کے پیچ ضاد کے اور دوسری جگہ اسی کتاب میں لکھا ہے:

ضاد ایساحرف ہے کہ مشابہ ہے بولنا اس کاساتھ بولنے ظاء کے ادرذال کے پس چاہیے کہ نگاہ رکھی جائے باریکی ذال کی پس اگر داخل ہوگئی اس میں پُری تو پہنچا دے گی وہ پُر پڑھنے کوتو ہوجاوے گا ذال اس وقت ظایا ضاد کیونکہ ضاد بہن ظاء کی ہے۔مخرج میں اور کہا امام رازی نے تفسیر کبیر میں :

"أنه حصل في الضاد انبساط لأجل رخاوتها وبهذا السبب يقرب مخرجه من مخرج الظاء"

تحقیق آگیا ہے ضاد میں پھیلاؤ بسبب نرم ہوتے اس کے کے اور اسی لیے قریب ہے مخرج اس کاساتھ مخرج ظاء کے اور شرح قصیدہ (؟) میں ہے ۔

بے شک ظاشریک ہے ضاد کاتمام صفتوں میں سوادرازی کے پس اسی واسطے سخت مشابہت ہے ظاء کو ساتھ ضاد کے اور مشکل ہے جدائی درمیان ان دونوں کے اور محتاج ہے پڑھنے والا اس باب میں  طرف محنت اور مشقت کے بسبب ملاؤ کے درمیان مخرجوں ان دونوں کے اور کتاب تمہید میں ہے:

"فلولا الاستطالة واختلاف المخرجين لكانت ظا۔۔۔۔۔"

پس اگر نہ ہوتی درازی اور جدائی مخرجوں کی تو ہوجاتی ضاد ظاء پس مثال اس شخص کی کہ کرتا ہے ضاد کو ظاء مثل اس کے ہے کہ کرتا ہے اوربدلتا ہے سین کو صاد کے ساتھ اورتفسیر عزیزی میں مذکور ہے بدانکہ فرق درمیان ضاد وظار بسیار مشکل است ۔

ترجمہ۔فرق کرن ضاد اور ظاء میں بہت مشکل ہے اور اسی طرح ہے جہد المقل محمدمرعشی اورجعیری اور خزانۃ الروایات اور شاطبی اورکتب ورسالجات صرف وقراءت کے باب مخارج میں۔جس کادل چاہے دیکھ لے۔بخوف طوالت انہیں پر اکتفا کیا گیا۔منصف کے واسطے یہی کیا کم ہے۔اب علمائے حقانی وفضلائے ربانی کی خدمت میں التماس ہے کہ اگر یہ شخص غلطی اور ضلالت پر ہے تو اس کی دلیل بیان کریں اوردلائل وبراہین مذکورہ سے جواب شانی دیویں صرف رسم آباؤاجداد پر اکتفا نہ فرمادیں۔اوراگر مائل بصواب ہے تو تسلیم فرمادیں اور اس کی حقیقت تحریر فرماکر مواہیر سے مزین ومشرف فرماویں تاکہ عوام خلجان میں نہ پڑیں۔واللہ الہادی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(جواب ازمولوی عبدالحئی صاحب حنفی)حرف ضاد مشابہ ہے حرف ظاء کے ساتھ اگرمخرج خاص سے اس کا استخراج نہ ہوتو مشابہ ظ یا ذ کے اگر پڑھے گا نماز درست ہوگی اورمشابہ دال کے پڑھنے سے نماز میں خلل ہوگا۔خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"إذا ذكر حرفا مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد ، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم لا تفسد" 

اور بزازیہ میں ہے:

"أو المغضوب بالظاء ، أو الضالين بالذال أو الظاء ، قيل لا تفسد ؛ لعموم البلوى"

(حررہ الراجی عفوربہ القوی ابوالحسنات محمد عبدالحئی تجاوز اللہ عن ذنبہ الجلی والخفی ۔)

اگر پڑھا ایک  حرف کو جگہ دوسرے حرف کے اور بدل گئے معنے پس اگرممکن ہوجدائی جیسا کہ طاء جگہ صاد کے تو فاسد ہوجاوے گی نماز اس کی اور اگر نہیں ہوسکتی جدائی مگر ساتھ محنت کے جیسا ظاء ساتھ ضاد کے اور ساتھ تار کے اور صاد ساتھ سین کے اکثرتو اس بات پر ہیں کہ نماز فاسد نہیں ہوتی اور اگرپڑھے غیر المغضوب ساتھ ذال کے یا ظاء کے تو نہیں فاسد ہوتی ہے نماز اس کی واسطے عام ہونے بلوی کے اور بہت سےمشائخ نے اس پر فتوی دیاہے۔(ابوالحسنات محمد عبدالحئی حنفی لکھنوی)

(جواب از مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب)

الجواب ۔واضح ہو کہ شخص مذکور حق پر ہے اور جو تحریر اس کی اس کی تائید میں لکھی گئی ہے وہ درست ہے اور قابل عمل۔اور تنقیح اس امر کی یہ ہے کہ ظاء معجمہ پڑھنے سے ضاد معجمہ کی جگہ بدون تعمد کے بقصد ادائے ضاد معجمہ کے باوجود تغیر معنے کے اکثر مشائخ کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوتی ہے ۔اور بہت مشائخ نے اس بات پر فتوی دیا ہے کذا فی العتابیہ والبزازیہ والعالمگیریہ والنقشبندیہ وھواعدل الاقاویل وھو المختار کذا فی خزانۃ الاکمل والحلیۃ ووجیز الکردی والعتابیہ والعالمگیریہ۔

اور بعض کے نزدیک در صورت تغیر معنی کے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔قول اول قول متاخرین کا ہے اور قول دوم قول متقدمین کا ہے۔شامی وغیرہ نے اگرچہ قول متقدمین کو احوط کہا ہے اورقول متاخرین کا جو اکثر مشائخ کا قول ہے مفتی بہ ہے اور قول متقدمین پر فتوے نہیں ہے باقی دال مہملہ پڑھنے سے ضاد معجمہ کی جگہ برتقدیر تغیر معنی کے باتفاق متقدمین ومتاخرین نماز فاسد ہونا چاہے کہ درمیان دال مہملہ وضاد معجمہ کے تمیز تعسر نہیں ہے اور درمیان ان کے تشابہ صوت نہیں ہے جیسے طاء مہملہ پڑھنے سے صاد مہملہ کی جگہ درصورت تغیر معنی بالاتفاق نماز فاسد ہوجاتی ہے۔کذا فی النھر وقاضی خان والعالمگیریہ وشرح المنیۃ والدارلمختار اور جیسے پڑھنے ضاد معجمہ سے مخرج طاء مہملہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے چنانچہ سرعشی نے رسالہ ضاد میں لکھا ہے۔من تلفظ من مخرج الطاء المھملۃ تفسد صلوتہ بلاشبھہ اذلا اشتباہ بینھما ولایصح المعنی حینئذ۔اور شاید عموم بلوے اس میں بسبب عدم تشابہ اور عدم تعسرتمیزک معتبر نہ ہو۔مگر ممکن ہے کہ  جہالت اس میں عذر ہولیکن یہ عذر بعد علم کے مرتفع ہے ۔(حررہ السید شریف حسین الدہلوی عفی عنہ)

سیدشریف حسین۔سیدمحمد نزیر حسین۔محمد عبدالحمید ۔سید احمدحسن۔تلطف حسین۔

1۔اگر کوئی آدمی ضاد کو طاء کے مخرج سے  پڑھے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی کیونکہ ان دونوں حرفوں میں کوئی اشتباہ نہیں ہے۔اور معنی بھی اس صورت میں صحیح نہیں رہتے۔

2۔اگر ان میں بغیر کسی مشقت کے امتیاز ہوسکتاہو تو نماز باطل ہوجائے گی جیسے صالحات کی جگہ کوی طالحات پڑھے اوراگر بآسانی امتیاز نہ ہوسکتا ہو۔مثلاً ظاء اورضاد ۔سین اورص ۔تار اور طاء تو اکثر کے نزدیک نماز باطل نہیں ہوگی۔

     ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی نذیریہ

جلد:2،کتاب الاذکار والدعوات والقراءۃ:صفحہ:37

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ