سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(922) جانوروں کی مصنوعی نسل کشی اور جانوروں کو انجکشن کے ذریعہ حاملہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

  • 26037
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1810

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جانوروں کی مصنوعی نسل کشی جائز ہے یا ناجائز؟ جانوروں کو انجکشن کے ذریعے حاملہ کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ (محمد ناصر منجاکوٹی دربند) (۱۰ نومبر۱۹۹۵ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جانوروں کی نسل کشی کا بظاہر جواز ہے۔ بشرطیکہ دوسری جنس کے سلسلہ نسل کو کلی طور پر نیست و نابود یا صریح نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خچر کا تذکرہ بطورِ امتنان و احسان فرمایا ہے:

﴿وَالخَيلَ وَالبِغالَ وَالحَميرَ لِتَركَبوها وَزينَةً...﴿٨﴾... سورة النحل

’’یعنی گھوڑے، خچر، گدھے، سواری کے لیے اور تمہاری زینت کے لیے ہیں۔‘‘

یعنی گھوڑوں، خچروں، اور گدھوں کی پیدائش کا مقصد ہی زینت اور سواری ہے۔

پھر یہ بات معروف ہے کہ خچر کی اپنی کوئی نسل نہیں وہ محض گدھے اور گھوڑی کے ملاپ سے معرض وجود میں آتا ہے۔

امام طحاوی رحمہ اللہ  وغیرہ نے آٹھ احادیث بیان فرمائیں ہیں جن میں رسول اللہﷺ کی خچر پر سواری کرنے کی تصریح موجود ہے۔

مندرجہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ گدھے اور گھوڑے کے درمیان اختلاط ممنوع نہیں کیوں کہ اگر ممنوع ہوتا تو خچر پر سواری بھی جائز نہ ہوتی۔ جب سواری جائز ہے تو یہ فعل ممنوع نہیں۔

باقی رہیں وہ حدیثیں جن سے اس کی ممانت ظاہر ہوتی ہے جیسے ابوداؤد کی وہ روایت جس میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو خچر ہدیہ میں ملا۔ آپ نے اس پر سواری کی پھر علی رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ اگر ہم نے گدھے اور گھوڑی کی جفتی کرائی ہوتی تو اسی طرح ہمارے پاس بھی خچر ہوتے۔ آپﷺنے فرمایا کہ نادان لوگ ایسا کرتے ہیں۔ (سنن أبی داؤد، بَابٌ فِی کَرَاہِیَۃِ الْحُمُرِ تُنْزَی عَلَی الْخَیْلِ، رقم:۲۵۶۵)

نیز شرح ’’معانی الآثار‘‘ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں(اہل بیت کو) دوسروں سے تین باتوں میں ممتاز بتایا۔ اسباغ الوضوئ( اچھی طرح سے وضوء کرنا) صدقہ کا مال نہ کھانا اور گھوڑی اور گدھے کے درمیان جفتی نہ کرانا۔ علامہ عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کا جواب تین طریقے سے دیا گیا ہے۔

اولاً: یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ممانعت نہیں آئی ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ کرتے ہیں جوبے خبر ہیں۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو بے علم اور جاہل ہیں اوریہ کہ یہ کام اہل علم اور سادات کا نہیں کہ وہ اس کام میں وقت صرف کریں۔ اس معنی میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کی روایت بیان ہوئی ہے۔ یعنی یہ ممانعت کا حکم صرف ہاشمیوں کے ساتھ خاص ہے۔ دوسرے تمام لوگ اس حکم میں شامل نہیں یعنی انھیں رخصت ہے۔ اہل بیت کو صرف تین چیزوں میں دوسروں سے ممتاز کیا گیا ہے۔ ایک اسباغ الوضوئ، یعنی ہر عضو کو تین بار ضرور دھوئیں جب کہ دوسرے (غیر ہاشمی) اگر ایک ایک دو دو بار بھی دھولیں تو مضائقہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ صدقہ نہیں کھاتے اورگھوڑے گدھے میں جفتی نہیں کراتے۔ یہ حکم ہاشمیوں کے لیے ان کے شرفِ شان کی وجہ سے ہے کسی معصیت کی وجہ سے یہ تخصیص نہیں۔ اگر اس میں معصیت کو دخل ہوتا تو ہاشمیوں کی تخصیص نہ ہوتی کہ اوامر و نواہی میں امت محمدیہ برابر ہے۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرانا اور اسباغ الوضوء نہ کرنا ہاشمیوں کی علوِ شان کے خلاف ہے۔ غیر ہاشمی اس حکم سے الگ ہیں۔ ہاشمیوں کے لیے ان تینوں باتوں کا حکم ان کی شان کی وجہ سے باقی ہے اور یہی ہمارا مدعا ہے۔

ثانیاً : یہ کہ رسول اللہﷺ کے قول ’’ یہ کام وہ کرتے ہیں جو بے علم ہیں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو یہ کام کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ گھوڑوں کے استعمال میں کتنا اجر ہے۔ جو خچروں وغیرہ کے استعمال میں نہیں اگر انھیں اس کے صحیح اجر کا پتہ ہوتا تو کبھی بھی خچروں کی طرف راغب نہ ہوتے۔ گھوڑوں سے لگاؤ اور اس سے رغبت سے متعلق بہ کثرت حدیثیں آئی ہیں۔ ان میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  اور ابن عمر رضی اللہ عنہما  کی یہ دو حدیثیں بڑی مشہورمیں جو صحاح ستہ میں موجود ہیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے گھوڑوں سے متعلق پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں کسی کے لیے باعث اجر ہیں اور کسی کے لیے باعث ِزینت اور کسی کے لیے وبالِ جان اور ہلاکت خیز۔ پھر لوگوں نے گدھے سے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا گدھے کے فائدے سے متعلق۔ اس آیت کے علاوہ مجھ پر اور کچھ نازل نہیں ہوا:

﴿فَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّةٍ خَيرًا يَرَهُ ﴿٧ وَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾... سورة الزلزال

(جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی وہ اس کا اجر پائے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی اسے بھی دیکھے گا۔)

یہ حدیث صحاح ستہ میں مذکورہ ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے کے ساتھ شغف میں قیامت تک بھلائی ہی بھلائی ہے۔ یہ حدیث بھی صحاح و سنن میں موجود ہے۔

امام طحاوی’’شرح معانی الآثار‘‘ میں لکھتے ہیں اگر کوئی کہے کہ رسول اللہﷺ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ ’’نادان ایسا کرتے ہیں۔‘‘ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ علماء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑے کے حصول اور اس کے استعمال میں جو اجر اور فائدہ ہے وہ خچر میں نہیں۔ اسی وجہ سے نبیﷺ نے فرمایا کہ گھوڑے کے فوائد بہت ہیں۔ بہ نسبت خچر کے جو گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے نادان لوگ حاصل کرتے ہیں۔ گویا وہ ایسی چیز پر توجہ نہیں کرتے جس میں اجر ہے بلکہ ایسی چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جس میں اجر نہیں۔

ثالثاً: یہ کہ نبیﷺ کے زمانے میں بنی ہاشم کے پاس گھوڑے بہت کم تھے۔ اس لیے آپﷺ نے یہ فرمایا تاکہ خچر کے مقابلے میں گھوڑے کی نسل پر توجہ دی جائے اور اس طرح ان کی افزائش ہو۔

امام طحاوی رحمہ اللہ نے ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں عبید اللہ بن عبد اللہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہمارے لیے(اہل بیت کے لیے) تین باتیں خاص کردی ہیں۔ اوّل یہ کہ ہم صدقہ نہ کھائیں۔ اچھی طرح وضوء کریں اور گھوڑے اور گدھے میںجفتی نہ کرائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میری عبد اللہ بن حسن سے ملاقات ہوئی۔ آپ بیت اللہ کا طواف فرما رہے تھے۔ میں نے ان سے باتیں کیں۔ انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا بنی ہاشم چاہتے تھے کہ گھوڑے کی نسل بڑھے۔ عبداللہ بن حسن کی توجیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرانے کو حرام نہیں قرار دیا تھا۔ بلکہ گھوڑی کی قلت کی وجہ سے یہ بات کہی تھی پھر جب یہ علت دور ہو گئی تو اس سے کوئی چیز مانع نہ رہی۔ نیز یہ کہ اس عمل سے صرف بنی ہاشم کو روکا گیا ہے یعنی دوسروں کے لیے یہ عمل مباح ہے۔ ( فتاویٰ عظیم آبادی، ص:۳۲۶ تا۳۳۰)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:630

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ