سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(895) مروّجہ ہڑتال اور احتجاج کا شرعی حکم

  • 26010
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1681

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گزارش ہے کہ مُروّجہ ہڑتال، احتجاجاً کاروبار اور تجارتی مراکز بند رکھنا، جلوس نکالنا، سڑکوں پر پتلے اورٹائر جلانے کی کتاب و سنت کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟

بعض علماء اس مذکورہ احتجاج کو صحیح اور جائز کہتے ہیں۔ دلیل کے طور پر بیعتِ رضوان کو اللہ کے رسولﷺ کا احتجاج قرار دیتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ (سائل: محمد حسین۔ بیگم کوٹ) (۹ جون ۱۹۹۵ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مروّجہ نظامِ حکومت چونکہ استعماری قوتوں کی پیدوار ہے۔ اس کے کارہائے نمایاں میں سے یہ ہے کہ مطالبات تسلیم کرانے کے لیے درج بالا چیزیں ضروری اجزاء کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے بغیر ان کے زعم کے مطابق نعرۂ جمہوریت نامکمل اور ناتمام ہے۔ اس کے برعکس اسلام ایسی لاقانونیت کا قطعاً حامی نہیں۔اس کی سنہری تعلیمات میں سے ہے:

﴿ لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورة البقرة

’’یعنی تم کسی کو نقصان نہ دو۔ اور نہ دوسرا کوئی تم کو نقصان پہنچائے۔‘‘

مقصد یہ ہے کہ پیمانۂ عدل و انصاف تھامے رکھو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿اعدِلوا هُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوىٰ ...﴿٨﴾... سورة المائدة

’’انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے۔‘‘

ظاہر ہے جہاں عدل کا ترازو قائم ہوگا وہاں ایسے احتجاجات اور واویلے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ حکمران یتیموں ،بیواؤں اور بے بس مظلوموں کے پہلو میں کھڑے اور ان کے دروازوں پر دستک دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یقین نہ آئے تو عمرین (عمرین بن خطاب رضی اللہ عنہ  اور عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ) کے مثالی نظامِ حکومت کا مطالعہ کیجیے۔ یہ جھلک آپ کو بڑی واضح نظر آئے گی۔

قصہ بیعت الرضوان سے مروّجہ طریق احتجاج پر استدلال کرنا جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے۔ نعوذ باللہ کیا رسول اللہﷺ نے اس بیعت کے انعقاد سے کافروں سے احتجاج کیا تھا؟ جو عقلاً نقلا ً غیر معقول اور آپ کی شان سے بہت فروتر ہے۔ یہ بیعت تو اس عہد ِ وفاداری کی تجدید تھی جو بندوں نے اپنے اللہ سے کر رکھا تھا۔ اس کا مخلوق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں؟ مقامِ غوروفکر ہے کہ اس سے مروّجہ طریق احتجاج کا جواز کیسے نکل آیا؟ اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے امور کا ارتکاب دراصل خواہشات کے پجاریوں کی سنن کا احیاء ہے اور یہ وہاں ہوگا جہاں عدل و انصاف کی بجائے ظلم و ستم کا دَور دورہ ہو گا۔ اللہ رب العزت ہم سب کو صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:608

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ