سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(852) قرآنی آیت﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصَارٰی﴾ کی تشریح و تفسیر چند اشکالات کا ازالہ

  • 25967
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1242

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم جناب حافظ ثناء اللہ صاحب۔

قرآن ِ حکیم عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث ’’عقیدۂ ابن اللہ کی وجہ سے ان کو کافر قرار دیتا ہے۔ اور ان سے دوستی سے منع کرتا ہے لیکن ’’سورۃ المائدۃ‘‘( آیت : ۶۹) کو یہودی، عیسائی جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کیے تو وہ غمگین نہ ہوں گے۔ اسی طرح ’’سورۃ البقرۃ‘‘ کی آیت نمبر:۶۲ میں ہے کہ وہ اللہ کے ہاں اجر پائیں گے۔

اس ضمن میں چند سوال پوچھوں گا۔

۱۔         کیا حضرت محمدﷺ پر ایمان لائے بغیر ان کو اجر ملے گا؟

۲۔        آج کل عیسائی رفاہِ عامہ کے یا دوسرے اچھے کام کرتے ہیں تو کیا انھیں اجر ملے گا یا نہیں۔ اگر قرآن میں اس وقت کے یہودی ، عیسائی مراد ہیں تو وہ پہلے ہی سے اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں۔ (محمد عبدالباسط فاروقی) (۱۲ اگست ۱۹۹۹ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے چار قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلے وہ لوگ جو ایمان لائے۔ اس سے مراد شریعت محمدیہ کے ماننے والے ہیں۔ دوسری قسم یہودی ہیں۔ یہ لوگ موسیٰ علیہ السلام  کی امت ہیں۔ تیسری قسم عیسائی۔ یہ عیسیٰ علیہ السلام کی امت ہیں۔ چوتھی قسم بے دین لوگ ہیں۔ ان سے مراد معبودانِ باطلہ کے پجاری ہیں۔ خواہ فرشتوں کو پوجیں یا بتوں کو یا آگ وغیرہ کو، ان کے متعلق سلف کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ بعض ان میں سے زبور بھی پڑھتے ہیں۔ ان چاروں کا نام لے کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور انھوں نے اعمالِ صالحہ کیے۔ صرف ان کے لیے خوشخبری ہے ۔

﴿فَلَهُم أَجرُهُم عِندَ رَبِّهِم وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿٦٢﴾... سورة البقرة

ان لوگوں کا اپنے اپنے زمانہ میں ایمان اور عمل معتبر تھا۔ مثلاً جب تک عیسیٰ علیہ السلام نہیں آئے، اس وقت تک موسیٰ علیہ السلام  کی شریعت پر پوری طرح عامل رہے۔ ان کے لیے یہ خوشخبری ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد پہلی شریعت منسوخ ہو گئی۔ اب عیسیٰ علیہ السلام  کی شریعت پر جو پوری طرح عامل رہا وہ اس خوشخبری کا حق دار ہے۔اس کے بعد حضرت محمد مصطفیﷺ تشریف لائے ۔ اب پہلی تمام شریعتیں منسوخ ہو گئیں۔ اب نجات کا دارومدار شریعتِ محمدیہ پر ہے۔

ایک اشکال:یہاں ایک شبہ ہوتا ہے کہ پہلی شریعتیں جو منسوخ ہو چکی ہیں۔ صرف ان تینوں کا ذکر کافی تھا۔ یہودی، عیسائی اور بے دین۔ چوتھا فرقہ جو اس شریعت پر ایمان لایا اس کا ذکر یہاں بے محل ہے کیوں کہ اس شریعت پر جو ایمان لا چکے ان کے پھر ایمان لانے کا کوئی مطلب نہیں۔

جواب:اس کے دو جواب ہیں

۱۔         ایک یہ کہ ان کے ایمان لانے کا مطلب ایمان پر ہمیشگی اور ثابت قدمی ہے کیوں کہ دارومدار خاتمہ پر ہے۔ خاتمہ سے پہلے ایمان لایا ہوا کافی نہیں جب تک خاتمہ ایمان پر نہ ہو۔

۲۔        دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں ایمان لانے والے سے مراد وہ ہے جو مدعی ایمان ہے۔ جیسے منافق یا کمزور ایمان والے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوا کہ اس امت میں سے جن کا دعویٰ ایمان کا ہے وہ اس خوشخبری کے اس صورت میں مستحق ہوں گے کہ وہ حقیقی معنی میں ایمان لائیں اور عمل نیک کریں۔

تنبیہ: ایک لفظ کا معنی حقیقی اور مجازی دونوں کا ایک وقت میں مراد ہونا۔ یہ امام شافعی کے نزدیک جائز ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  منع کے قائل ہیں۔ اس آیت سے امام شافعی  رحمہ اللہ  کے مذہب کو تائید ملتی ہے کیوں کہ ﴿مَنْ آمَن﴾ کے دو معنی ہوں گے۔ پہلے فرقے کے حق میںاس کے معنی ہوں گے جو ایمان پر ثابت قدم رہے۔ یہ آمَنَ کے مجازی معنی ہیں اور باقی فرقوں کے حق میں ہوں گے جو ایمان لائے اور یہ آمَنَ کے حقیقی معنی ہیں تو گویا اس میں حقیقی اور مجازی دونوں مراد ہوئے۔

شانِ نزول:سلمان فارسی اوران کے ساتھیوں کی عمر مجوسی مذہب پر گزری۔ کچھ عسائیت پر ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایمان نصیب کردیا،ایک دن رسول اللہﷺ کے پاس اپنے ساتھیوں کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، اور آپﷺپر ایمان پر ایمان بھی لاتے تھے۔ اور اس بات کی شہادت دیتے تھے کہ آپﷺ آخری نبی ہوں گے۔ ان کا کیا حکم ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا وہ جہنمی ہیں( کیونکہ وہ یہ کام کسی شریعت کے تحت نہیں کرتے تھے۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ  سخت غمگین ہوئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ جس سے اس طرف اشارہ کیا۔ جس نبی کا زمانہ ہو اس نبی کی شریعت کے تحت رہ کر جو ایمان لائے اور عمل نیک کرے اس کے لیے یہ خوشخبری ہے نہ کہ اپنے طور پر کسی کام کو اچھا سمجھ کر کرنے لگ جائے۔  اس بناء پر نبی کریمﷺ کے آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ﴿٨٥﴾... سورة آل عمران

’’جو شخص اسلام کے سوا کوئی دین ڈھونڈے پس ہر گز نہیں قبول کیا جائے گا اس سے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔‘‘

الفاظ کی تشریح: چونکہ یہاں ایمان کا معاملہ اعمال سے ہے۔ اس لیے ایمان سے مراد اعتقاد ہے۔ لیکن صرف اعتقاد نجات کے لیے کافی نہیں اس لیے ساتھ اعمال کا بھی ذکر کیا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایمان سے مراد عام ہو۔ جس میں اعمال بھی داخل ہوں۔ اور اعمال کا الگ ذکر یہ ان کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے ہو۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

﴿مَن كانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلـٰئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبريلَ وَميكىٰلَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلكـٰفِرينَ ﴿٩٨﴾... سورة البقرة

’’یعنی جو شخص اللہ کا فرشتوں کا اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو پس بے شک اللہ تعالیٰ دشمن ہے واسطے کافروں کے۔‘‘

اس آیت میں فرشتوں کا ذکر کرنے کے بعد جبرئیل اور میکائیل کا الگ الگ ذکر کیا ہے۔ یہ صرف ان کی بزرگی اور بڑائی کے لیے ہے۔ اسی طرح اعمال کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، اعتقاد کو ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔

عملِ صالح کی تین شرطیں ہیں۔ ایک اعتقاد کا صحیح ہونا۔دوسرے شریعت کے موافق ہونا۔ تیسرے ، اصلاحِ نیت۔ اعتقاد کے صحیح ہونے کا مطلب ہے کہ توحید کا قائل ہو اور شریعت کے موافق ہونے کا مطلب بدعت نہ ہو۔ شریعت میںاس عمل کا ثبوت ہو۔ اخلاصِ نیت کا یہ مطلب ہے کہ محض اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ کسی کے دباؤ یا لحاظ یا دکھاوے کے لیے نہ ہو۔

حزن ، خوف اور غم میں فرق یہ ہے کہ حزن اس چیز پر ہوتا ہے جو چھن گئی ہو۔ خوف آئندہ چیز کا ہوتاہے جیسے تجارت میں کہیں نقصان نہ ہو جائے اور غم عام ہے۔ گزشتہ چیز پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے کسی کا کوئی مر جائے اور آئندہ کا بھی جیسے امتحان میں کہیں ناکام نہ ہو جاؤں۔

’یَحْزنُوْن‘ کا باب دو طرح سے آتا ہے۔ ایک حَزَنَ یَحْزُنُ بروزن نَصَرَ یَنْصُرُ اس کے مصدر حزن کے معنی ہیں ۔ دوسرے کو غمگین کرنا چنانچہ قرآن میں ہے: ﴿لَا یَحْزُنكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی ْالکُفْرِ﴾ یعنی نہ غمگیں کریں تجھے وہ لوگ جو کفر میں جلدی کرتے ہیں۔‘‘ دوسرا باب حَزِنَ یَحْزَنُ بروزن سَمِعَ یَسْمَعُ یہ لازم ہے۔ اس کے معنی غمگین ہونے کے ہیں۔ اس آیت میں یہی مراد ہے ۔ اس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرمﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کیے بغیر کوئی عمل قابلِ قبول نہیں اور عیسائیوں کے اعمال بھی قابلِ قبول نہیں۔ جب تک آپ کی نبوت کا اقرار نہیں کرتے۔

 کتاب و سنت کے نصوص اس امر پر واضح شواہد ہیں۔ قرآن میں ہے: ﴿وَّوَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰهُ حِسَابَهٗ﴾(النور:۳۹) ’’صحیح مسلم‘‘  میں ہے۔ کافر کے لیے اعمالِ خیر کی صرف دنیا میں جزا ہے۔ آخرت میں نہیں

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:578

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ