سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(773) متبرک اوراق کو جلانے کا حکم

  • 25888
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2794

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض ہے کہ ہمارے گاؤں ’’سوکن ونڈ‘‘ کے گورنمنٹ رضائے مصطفی ہائی سکول کے ایک اُستاد نے چھٹی جماعت کے ٹیسٹ پیپرز گائیڈ یعنی امدادی کتب ( جو سکول میں لانا منع ہیں۔ جن میں دینیات و عربی میں قرآنی آیات موجود ہیں) بچوں سے اکٹھی کرکے (جن کی تعداد تقریباً ۵۰ ہے) مٹی کا تیل ڈال کر جلا دیں۔ اس کے متعلق شرعی احکام کیا ہیں؟ کیا استاد کو قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی سزا دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ مسئلہ کی وضاحت فرمادیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآنی آیات والے بوسیدہ اوراق کو ضائع کرنا جائز ہے۔ پانی میں بہادیے جائیں یا پاکیزہ زمین میں دفن کردیے جائیں۔ اوراق کو جلانے کا عمل بھی درست ہے۔’’صحیح بخاری‘‘میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  سے منقول ہے:

’ وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ القُرْآنِ فِی کُلِّ صَحِیفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ، أَنْ یُحْرَقَ۔‘(صحیح البخاری،بَابُ جَمْعِ القُرْآنِ،رقم: ۴۹۸۷)

’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے حضرت حفصہ کے صحف سے منقول قرآن کے علاوہ ہر صحیفے یا مصحف میں جو قرآن ہے اُسے جلانے کا حکم صادر فرمایا۔‘‘

شارح بخاری امام ابوالحسن ابن بطال فرماتے ہیں:

’فِی هَذَا الْحَدِیثِ جَوَازُ تَحْرِیقِ الْکُتُبِ الَّتِی فِیهَا اسْمُ اللَّهِ بِالنَّارِ وَأَنَّ ذَلِكَ إِکْرَامٌ لَهَا وَصَوْنٌ عَنْ وَطْئِهَا بِالْأَقْدَامِ وَقَدْ أَخْرَجَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ طَرِیقِ طَاوُسٍ أَنَّهُ کَانَ یُحَرِّقُ الرَّسَائِلَ الَّتِی فِیهَا الْبَسْمَلَةُ إِذَا اجْتَمَعَتْ وَکَذَا فَعَلَ عُرْوَةُ ۔‘ (فتح الباری:۲۱/۹)

’’اس حدیث میں یہ مسئلہ ہے کہ ان کتابوں کو جلانا جائز ہے ، جن میں اللہ عزوجل کا اسم گرامی ہو۔ اس میں ان کی عزت و اکرام ہے ، بجائے اس کے کہ قدموں کے نیچے روندے جائیں اور ان کی بے ادبی ہو۔ طاؤس کے پاس جب اللہ کے نام والے کتب و رسائل جمع ہو جاتے تو انھیں جلا ڈالتے۔ عروہ کا فعل بھی اسی طرح مروی ہے۔‘‘

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،تلاوةِ قرآن:صفحہ:540

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ