سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(276) ظہر اور عصر کی نماز کا وقت

  • 2556
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2405

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان متین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ بعد  دلوک شمس سوائے فئے زوال کے ایک مثل مشرق کی جانب یعنی پورب کی طرف ناپنا چاہیے یعنی مثلث مثلاً ایک لکڑی سیدھی کھڑی کی جاوے مثلاً     یہ لکڑی ہے اس کا سایہ دوپہر کے وقت آج کل شمال کو ہوتا ہے اس سایہ کو کچھ شمار نہ کرنا چاہیے بکہ اب جو سایہ مابین پورب و شمال کی طرف بڑھتاجائے اس کو اس لکڑی کی جڑ سے لکڑی کے برابر ہونا چاہیے تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہو جاوے گا۔ یعنی جو سایہ بڑھتا جاوے گا اس کے سرے سے سیدھی لکیر جنوب کی طرف کھینچتے رہیں گے جب سایہ اس لکڑی کی جڑ سے سرے تک برابر اس کے مقدار کے پورب کی طرف ہو جاوے گا تو ایک مثل ہو گا یہ مطلب حدیث  ظلّ الرّجِل کطولہ کا ہے اور جو سایہ مابین مشرق و شمال کی طرف بڑھتا جاوے گا اس کا شمار نہ ہو گا۔
اور عمرو کہتا ہے کہ لکڑی کا سایہ جدھر جاوے یعنی شرق و شمال کے مابین ہی کو جتنا سایہ دوپہر کے وقت لکڑی کا ہو اس کو ناپ کر کے اس کے بعد جہاں ناُ ختم ہو اس کے آگے سے ایک مثل لینا چاہیے جدھر سایہ جائے تو عمرو کہتا ہے کہ بارہ بجے کے بعد آج کل آدھ بجے تک زوال نہیں ہوتا یعنی ظہر کوا وقت نہیں ہوتا آدھ بجے کے بعد طہر کا وقت شروع وہ گا کیونکہ سورج اب ڈھلا ہے اور جو آدھ بجے سے پہلے نماز ظہر شروع کرے گا اس کی نماز نہیں ہو گی اسی طرح پر ایک مثل ختم ہو گی یعنی پونے چار بجے تک عصر شروع ہو گی پونے چار بجے سے جو پہلے پڑھے گا اس کی نماز عصر کی نہ ہو گی۔ کیونکہ اس نے بے وقت عصر کی نماز پڑھی ہے۔  عمر وظل الرجل کطولہ کا مطلب یہ کہتا ہے اور زید وہ کہتا ہے۔ اب علماء اہل حدیث سے دریافت ہے کہ محض حدیث اوقات نبوی کے مطابق اور لگ بھگ ناپ زید ہے یا ناپ عمرو۔ بینوا توجروا


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 زید کا قول صحیح نہیں عمرو کا قول مطابق حدیث و علماء مذاہب اربعہ و مشاہدہ کے ہے۔ ابو داؤد میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
قدر صلوة رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم فی الصف ثلاثة أقدام إلی خمسة أقدام وفی الشتاء خمسة اقدام الی سبعة اقدام
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اندازہ موسم گرما میں تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک تھا اور جاڑوں کے موسم میں پانچ قدم سے لے کر سات قدم تک تھا۔‘‘
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ فئی زوال کو اعتبار ہے والا یہ فرق کیوں ہوتا۔ اس حدیث میں اگرچہ قدرے ضعف ہے مگر تعامل اہل علم کا اس حدیث کا ضعف رفع کرتا ہے جیسا کہ اصول حدیث میں ہے کہ تعامل اہل علم سے حدیث کا ضعف رفع ہوتا ہے امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں۔
متی خرج وقت الظہر عصیر ظل الشئی مثله غیر الظل الذی یکون عند الزوال دخل وقت العصر
’’یعنی جب ہر چیزکا سایہ چھوڑ کر اس کے برابر ہو جاوے تو ظہر کا وقت چلا جاتا ہے اور عصر کا وقت داخل ہوتا ہے۔ ۱۲‘‘
زرقانی علی المؤطا ٔ میں ہے۔
صل الظہر إذا کان ظللك مثلك ای مثل ظللك بغیر ظل ازوال
’’ظہر کی نماز اس وقت پڑھ جب تیرا سایہ اصلی سایہ چھوڑ کر تیرے برابر ہو جاوے۔‘‘
شرح مختصر مقنع حنابلہ میں ہے۔
وقت العصر المختار من غیر فصل بینھما ویستموالی مصیر الفیئی مثلیہ بعد فیئی الزوال ای بعد الظل الذی زالت علیہ الشمس
’’مطلب یہ ہے کہ وقت ظہر کے پورا ہونے کے بعد متصل ہی عصر کا مختار وقت شروع ہو جاتا ہے اور سایہ اصلی نکال کر سایہ کے دو مثل ہونے تک رہتا ہے۔ پھر سورج کے ڈوبنے تک عصر کا مکروہ وقت ہے۔‘‘
امام نووی منہاج میں جو فقہ شافعیہ میں نہایت معتبر کتاب ہے لکھتے ہیں
واخرہ ای وقت الظہر مصیر ظل الشیئی مثله سوی ظل استواء الشمس
’’اور آخر وقت ظہرکا ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ چھوڑ کر اس کے برابر ہونے پر ہے۔‘‘
ابن ابی زید مالکی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے رسالہ میں جو فقہ مالکی میں معتبر کتاب ہے لکھتے ہیں۔
واخر وقت الظہر ان یصیر ظل کل شئی مثله بعد ظله نصف النھار
’’اور آخر وقت ظہر کا اس وقت ہے جب ہر چیز کا سایہ اصلی چھوڑ کر اس کے برابر ہو جاوے۔‘‘
فقہاء حنفیہ کی کتابوں میں تو یہ بات مشہور او رمعروف ہے ہدایہ میں ہے۔
وقال إذا صار الظل مثله سوی فیئی الزوال وھو روایة عن أبی حنیفة وفیئی الزوال ھو الفیئی الذی یکون للاشیاء وقت الزوال
’’اور اس وقت کے بارے میں صاحبین نے کہا ہے کہ اس وقت ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے سوا اس کے برابر ہو جاوے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی روایت ہے اور سایہ اصلی وہ سایہ ہے جو چیزوں کا عین سورج کے ڈھلتے وقت ہوتا ہے۔ ‘‘
اسی طرح شوکانی نیل الاوطار میں اور در ربہیہ میں فرماتے ہیں۔
واخرہ مصیر ظل الشیئی مثله سوی فیئی الزوال
’’اور آخر وقت ظہر کا اس وقت ہے جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے سوا اس کے برابر ہو جاوے۔۱۲‘‘
اور شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی مصفی اور حجۃ اللہ میں اور نواب صاحب نے اپنی تصانیف میں اسی کے ساتھ تصریح کی ہے۔ غرضیکہ فئی الزوال کے سوا ایک مثل یا مثلین تک ظہر کا وقت رہنا اور من بعد عصر کا وقت ہونا مسئلہ متفق علیہا ہے اور یہی امر بدیہی ہے کہ اس ملک میں پوہ ماگھ کے مہینوں میں سارے دن میں کوئی وقت ایسا نہیں آتا ہے کہ سایہ ہر شے کا اس سے زاید نہ ہو تو وقت ظہر کا کون سا ہوا لامحالہ یہ ماننا پڑے گا کہ سوا فئی الزوال کے جب ایک مثل ہو جاوے تو وقت عصر داخل ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ فئی الزوال کس طرح نکالنا چاہیے علماء نے اس کا یہ طریق لکھا ہے کہ زمین ہموار میں ایک لکڑی کو سیدھی کھڑی کرے پھر دیکھے کہ عین استواء شمس میں سایہ اس لکڑی کا کس قدر ہے لکڑی کے مثل ہے یا کم و بیش جس قدر سایہ ہو اسی قدر سایہ چھوڑ کر اس پر زائد جو ایک مثل ہو جاوے عصر کا وقت داخل ہوتا ہے لکڑی کی جڑ سے ایک مثل پورا کرنے سے وقت عصر کا داخل نہیں ہوتا امام ابو الحسن مالکی شرح رسالہ ابن ابی زید میں لکھتے ہیں۔
ویعرف الزوال بان یقام عود مستقیم فإذا تنا ھی الظل فی النقصان واخذ فی الزیادة فھو وت الزوال و إلا اعتداد بالظل الذی زالت علی الشمس فی القامة بل یعتبر ظله مفردا عن الزیادة
’’اور سایہ اصلی اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک سیدھی لکڑی کھڑی کی جاوے پس جب سایہ گھٹتے گھٹے اتنہیٰ کو پہنچے یعنی اس کے بعد نہ گھٹے بلکہ بڑھنے میں شروع ہو تو یہ سایہ اصلی ہے اور جس سایہ پر سورج ڈھلا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ صرف وہی سایہ معتبر ہے جو زیادتی کے سوا ہے۔۱۲‘‘
اور طحطاوی میں ہے۔
و استثنیٰ فیئی الزوال لانه قد یکون مثلا فی بعض المواضع فی الشتاء وقد یکون مثلین فلو اعتبر المثل من عند ذی الظل لما وجد الظہر عند ھما ولا عندہ
’’اور سایہ اصلی اس لیے منہا کیا جاتا ہے کہ بعض جگہ جاڑوں میں بھی کبھی ایک مثل ہوتا ہے اور کبھی دو مثل تو اگر ایک مثل ہونا سایہ کا سایہ والی چیز کی جڑ سے معتبر ہو اور سایہ اصلی کا شمار نہ کیا جاوے تو ظہر کا وقت نہ صاحبین کے نزدیک ہو گا نہ امام صاحب کے نزدیک۔‘‘
اور شامی میں ہے۔
ان وجد خشبة یغرزھا فی الأرض قبل الزوال وینتظر الظل مادام متراجعا الی الخشبة فإذا أخذ الظل فی الزیادة حفظ الظل الذی قبلھا فھو ظل الزوال فإذا بلغ الظل طول القامة مرتین او مرة سوی ظل الزوال فقد خرج وقت الظہر ودخل وقت العصر
’’اگر کوئی لکڑی لے کرزمین میں زوال سے پہلے گاڑ دے اور سایہ کا انتظام کرے جب تک کہ وہ لکڑی کی طرف گھٹتا رہے جب انتہاء تک پہنچ کر پھر بڑھنا شروع ہو تو اس سایہ کو جو بڑھنے سے پہلے ہے یاد رکھے یہی سایہ اصلی ہے اور جب سایہ سوا سایہ اصلی کے دو مثل یا ایک مثل ہو جاوے تو ظہر کا وقت جاتا ہے اور عصر کا وقت ہو جاتا ہے۔‘‘
اور شرح دقایہ میں ہے مثلا
إذا کان فئی الزوال مقدار ربع المقیاس فاٰخر وقت الظھران یصیر ظله مثلی المقیاس وربعه ھذا فی روایة عن أبی حنیفة وفی روایة أخری عنه وھو قول أبو یوسف ومحمد والشافعی إذا صار ظل کل شئی مژله سوی فئی الزوال
’’مثلاً جب سایہ اصلی مقیاس کا چوتھا حصہ ہو تو آخر وقت ظہر کا یہ ہے کہ سایہ اس مقیاس کے دو مثل سوا اس سایہ اصلی کے وہ جاوے یہ امام صاحب کی ایک روایت میں ہے اور امام صاحب کی دوسری روایت میں جو کہ صاحبین اور امام شافعی کا بھی وہی قول ہے یہ ہے کہ سایہ ہر چیز کا اصلی سایہ کے سوا اس کے برابر ہو جاوے۔۱۲‘‘
(حررہ عبد الجبار بن الشیخ العارف باللہ الغزنوی وعفی اللہ عنہا، فتاویٰ غزنویہ ص ۴)

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ