سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(645) کیا دو سجدوں کے درمیان جلسے والی دعا ضعیف ہے؟

  • 24655
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1249

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے الاعتصام (۵۳؍۳۰) میں آپ کے جوابات کا مطالعہ کیا ،دو سجدوں کے درمیان جلسے کی دعا کے بارے میں پڑھا کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ سنن ابی دائود (رقم الحدیث ۸۵۰) میں حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

’ اَللّٰهُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَ عَافِنِی وَاهدِنِی وَارزُقنِی۔‘

اور یہ حدیث جیسے کہ آپ نے بتایا کہ حبیب بن ابی ثابت کے مدلس ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس کی سند میں کامل بن العلاء ابو العلاء راوی بھی صدوق یخطئی ہے۔ لیکن الکلم الطیب میں البانی رحمہ اللہ نے جس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اس کی الفاظ یوں ہیں:

’ اَللَّهُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاهِدنِی وَاجبُرنِی وَعَافَانِی وَارزُقنِی۔ ‘ (الرقم :۹۷)

صاحب القول المقبول کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن بھی نہیں ہے اور نہ جید ہے اب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ:

۱۔         یہ دونوں حدیثیں ایک ہی سند سے ہیں یا مؤخرالذکر دوسری سند سے ہے؟

۲۔        اگر دوسری سند سے مروی ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟

۳۔        کیا یہ دونوں حدیثیں ایک ہی ہیں اور الفاظ کی تبدیلی راویوں کی طرف سے ہے؟

۴۔        اگر حدیث ضعیف ہے تو حاکم، ذہبی، نووی، عبدالقادر الارناؤوط اور البانی رحمہم اللہ  نے اسے صحیح اور مبارکپوری رحمہ اللہ  نے حسن کیوں کہا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الاعتصام کے ایک شمارہ میں ’’جلسہ بین السجدتین‘‘ میں پڑھی جانے والی معروف روایت کو میں نے ضعیف قرار دیا۔جن پر آپ کے استفسارات کی تفصیل اور جوابات درج ذیل ہیں۔

آپ نے سنن ابی دائود سے الفاظ ِحدیث نقل کرنے کے بعد الکلم الطیب سے حدیث کے الفاظ نقل کیے جو قدرے مختلف ہیں۔

اول الذکر تین سوالوں کا جواب یہ ہے کہ مختلف کتب میں وارد یہ حدیث ایک ہی طریق سے مروی ہے۔ تفصیلی تخریج کے لیے القول المقبول (۴۴۰۔۴۴۱) کی طرف رجوع فرمائیں! یاد رہے کہ ’’الکلم الطیب‘‘ حدیث کی مستقل کتاب نہیں، کہ اس میں مندرجہ روایات اپنی سند سے مروی ہوں، بلکہ حدیث کی دوسری مستقل کتب سے روایات نقل کی گئی ہیں۔ اس حدیث میں الفاظ کا قدرے اختلاف راویوں کی طرف سے ہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حدیث کا ’’مَخرَج ‘‘ایک ہی ہے۔

آخری سوال کا جواب یہ ہے، کہ ائمہ مذکورین نے حبیب بن ابی ثابت کی تدلیس کی طرف توجہ نہیں کی، حبیب بن ابی ثابت چونکہ ’’صحیحین‘‘ کا راوی ہے۔ بظاہر اسی لیے اس کی تدلیس کی طرف التفات نہ ہوسکا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تقریب‘‘ میں اس کی توثیق ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے :

’ وَ کَانَ کَثِیرَ الاِرسَالِ، وَالتَّدلِیسِ۔‘

ابن عجمی نے بھی اسے ’’التبیین لاسماء المدلسین‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے ’’تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس‘‘ میں اسے طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے، اور اس طبقہ کے مدلّسین کے متعلق محققین کی راجح رائے یہ ہے، کہ جب یہ تحدیث کی صراحت کریں (یعنی حَدَّثَنَا کہیں)تو قابلِ حجت ہیں۔ وگرنہ نہیں۔ زیربحث روایت کے جمیع طرق میں حبیب بن ابی ثابت عنعنہ (عَن عَن کے الفاظ) سے روایت کرتے ہیں۔ لہٰذا بموجب اصول محدثین یہ روایت ضعیف ہے ۔ اگرچہ بعض اہلِ علم نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ ہذا ماعندی واللہ اعلم۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:556

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ