سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(523) آیاتِ عذاب یا آیاتِ انعام سن کر جواب دینا

  • 24533
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 487

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسی طرح جب قاری صاحب آیاتِ عذاب یا آیاتِ انعام تلاوت کرتا ہے توکیا سامعین اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ اگر دے سکتے ہیں تو سراً ہونا چاہئے یا جہراً۔ نیز حالت ِنماز میں اس کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سامع یا مقتدی کا قاری کی تلاوت سے بعض آیات کا جواب دینا احادیث ِصحیحہ سے ثابت نہیں،البتہ قاری یا امام کے لئے ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ  رسول اکرمﷺ سے رات کی نماز کی کیفیت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو تسبیح کرتے اور جب سوال (والی آیت) سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب تعوذ (والی آیت) سے گزرتے تو پناہ پکڑتے۔" صحیح مسلم،بَابُ اسْتِحْبَابِ تَطْوِیلِ الْقِرَاء َۃِ فِی صَلَاۃِ اللَّیْلِ ،رقم:۷۷۲،سنن النسائی،بَابُ تَسْوِیَۃِ الْقِیَامِ وَالرُّکُوعِ، وَالْقِیَامِ بَعْدَ …الخ ،رقم:۱۶۶۴"

عمیر بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جمعہ میں سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الاَعلَی (الاعلی:۱) ‘‘ پڑھنے پر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہا۔ بیہقی (۲؍۳۱۱) مصنف عبدالرزاق (۲؍۴۵۱)"مصنف عبدالرزاق،بَابُ الرَّجُلِ یَدْعُو وَیُسَمِّی فِی دُعَائِہِ ،رقم:۴۰۵۰، السنن الکبرٰی للبیہقی،بَابُ الْوُقُوفِ عِنْدَ آیَۃِ الرَّحْمَۃِ وَآیَۃِ الْعَذَابِ وَآیَۃِ التَّسْبِیحِ ،رقم:۳۶۹۴" اس اثر کی سند صحیح ہے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے بھی اس موقع پر یہی کلمات کہنا بسند ِحسن ثابت ہے۔ (ایضاً) تفصیل کیلئے ملاحظہ ہوالقول المقبول فی تخریج وتعلیق صلوٰۃ الرسولﷺ

اس موضوع پر عرصہ قبل ماہنامہ ’’محدث‘‘میں ایک تفصیلی فتویٰ جواب در جواب شائع شدہ ہے جو اربابِ ذوق کیلئے کافی مفید ہے۔ اس فتوی میں حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری، سید نذیر حسین دہلوی کی آراء پر تعلیقات کے علاوہ مولانا عطاء اللہ حنیف کا تبصرہ بھی بڑی تفصیل سے موجود ہے۔ دیکھئے محدث:ج۹؍عدد ۱، صفحات۳ تا۲۳ بابت دسمبر ء۱۹۷۸

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:461

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ