سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(296) سترہ کی اہمیت اور مقامِ ابراہیم پر سترہ کا حکم

  • 24306
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 525

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل الاعتصام میں سُترہ کی اہمیت کے متعلق بحث ہو رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم   کے ارشادِ گرامی کے سامنے ’’السمع والطاعۃ‘‘ کے سوا چارہ نہیں اور یہی صراط مستقیم ہے ایک عملی مشکل ہے جس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔

۱۔         سُترہ ہر حالت میں ضروری ہے۔ ایک جامع مسجد میں ہزاروں نمازی ہیں۔ اول صف والوں کو مسجد کی دیوارِ بطورِ سُترہ مہیا ہو گئی ، باقی لوگ سُترہ کہاں سے مہیا کریں اور کیسے کریں؟

۲۔        ﴿وَاتَّخَذُوا مِن مَقَامِ اِبرٰهِیمَ مُصَلّٰی﴾ قرآن مجید کا فرمان ہے۔ ہر طواف کرنے والے نے اس مقام پر دو رکعت نماز ادا کرنا ہے۔ اس مقام پر زبردست بھیڑ ہوتی ہے ۔ اس جگہ سُترہ کا کیا انداز ہو گا۔ اس جگہ سُترہ رکھنا بھی ایک مسئلہ ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱) حالت ِ جماعت میں امام کا سُترہ ہی سب کے لیے کافی ہوتا ہے۔ علیحدہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اس حالت میں بعض صفوں کے آگے سے کوئی گزر جائے تو نماز میں کوئی فرق نہیں آتا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  کا منیٰ والا قصہ‘‘ اس امر کی واضح دلیل ہے۔ صحیح بخاری میں اس پر باب قائم کیا ہے:

’ سُترَةُ الاِمَامِ سُترَةُ مَن خَلفَهٗ۔‘

۲۔        مقامِ ابراہیم پر اگر رَش ہو تو دوسری جگہ پیچھے ہٹ کر بھی یہ دو رکعتیں ادا ہو سکتی ہیں۔ جہاں سامنے سُترہ ممکن ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:

’ مَن صَلَّی رَکعَتَیِ الطَّوَافِ خَارِجًا مِنَ المَسجِدِ، وَ صَلَّی عُمَرُ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ  خَارِجًا مِنَ الحَرَمِ ۔‘

پھر حدیث اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا   نقل کی ہے۔ اس میں ہے فَلم تُصَلِّ حَتّٰی خَرَجَت ‘ صحیح البخاری، بَابُ مَنْ صَلَّی رَکْعَتَیِ الطَّوَافِ خَارِجًا مِنَ المَسْجِدِ،رقم:۱۶۲۶

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ   رقمطراز ہیں:

’أی مِنَ المَسجِدِ، اَو مِن مَکَّةَ۔ فَدَلَّ عَلٰی جَوَازِ صَلَاةِ الطَّوَافِ خَارِجًا مِنَ المَسجِدِ۔ اِذ لَو کَانَ شَرطًا لَازِمًا : لَمَا اَقَرَّهَا النَّبِیُّ ﷺ عَلٰی ذٰلِكَ  ‘فتح الباری:۴۸۷/۳

اگرچہ افضل یہ ہے ،کہ خلف المقام ان دو رکعتوں کو ادا کیا جائے۔ اسی بناء پر اس کے بعد باب قائم کیا ہے:’ بَابُ مَن صَلَّی رَکعَتَیِ الطَّوَافِ خَلفَ المَقَامِ ‘

مزید آنکہ بعض اہلِ علم ویسے بھی حدودِ حرم میں سُترہ کے قائل نہیں۔ا گرچہ جانب راجح اس کے خلاف ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:290

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ