سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(267) جمعہ کی دو اذانوں کا حکم

  • 24277
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 603

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے بعض اہلِ حدیث کی مساجد میں جمعہ کی ایک اذان اور جب کہ اہلحدیث کی بعض مساجد میں جمعہ کی دو اذانیں دی جاتی ہیں۔ ایک اذان دینے والے اہلحدیث کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صرف ایک اذان عندالخطبہ دی جاتی تھی لہٰذا دوسری اذان دینا جائز نہیں۔ مگر دو اذان دینے والے اہلحدیث کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کی کثرت دیکھی تو انھوں نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اذان عندالخطبہ کے علاوہ ایک اور وقتی اذان جیسی نماز ظہر کے لئے ہوتی ہے، جاری کردی جس کا کسی صحابی نے انکار نہ کیا۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «عَلَیکُم بِسُنَّتِی وَسُنَّةِ الخُلَفَاءَ الرَّاشِدِینَ المَهدِیِّینَ‘(سنن ابن ماجه،بَابُ اتِّبَاعِ سُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ المَهدِیِّینَ،رقم:۴۲)کے تحت اذان عندالخطبہ دینے سے سُنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اذان وقتی سے سُنتِ خلفاء ،دونوں سُنتوں پر عمل ہو جائے گا۔ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ سنّت،سنّت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف نہیں لہٰذا یہ حضرات کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک جمعہ کی دو اذانیں مسنون ہیں ۔

براہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل ارسال کر کے ممنون فرمائیں کہ کیا جمعہ کی دو اذانیں دینا جائز اور مسنو ن ہیں یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصلاً جمعہ کی صرف ایک اذان ہے، جو خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت دی جاتی ہے ۔اذانِ عثما نی کا محض جواز ہے ۔کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  خلیفہ مطاع تھے ۔ صحا بہ کرام  رضی اللہ عنہ کی کثیر تعداد نے ان کے اس فعل پرموافقت کی ہے ۔ اس وقت حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ کے سامنے عہدِنبوی کی بطورِ مثال بلالی اذان موجود تھی، جو نماز فجر کی تیاری کے لئے قبل ازوقت دی جاتی تھی۔ اسی طرح اذانِ عثمانی کا اضافہ بھی قبل ازوقتِ جمعہ کی تیاری کے لئے ہوا۔ لہٰذا اگر کوئی ایک اذان دے یا کوئی دو کا قائل ہو تو کسی پر نکیر نہیں ہونی چاہیے۔

 اگرچہ اولیٰ ایک ہے۔ موضوع ہذا پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ بعنوان ’’عثمانی اذان کی شرعی حیثیت‘‘ چند سال قبل فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ (جلد:۱) اور جملہ جماعتی جرائد و مجلات میں شائع ہو چکا ہے۔ اس میں جانبین کے دلائل کا محاکمہ علمی انداز میں کیا گیا تھا۔ جو کافی مفید ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:272

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ