سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) مسجد کی زائد آمدنی کو کسی مدرسہ یا دیگر امور میں خرچ کرنا

  • 2421
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2321

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسجد کی وقف شدہ زمین کی آمدنی کو جو مسجد کی حوائج ضروریہ سے فاضل ہو مدرسہ یا دیگر امور شرعیہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے، یا نہیں۔ خصوصاً تبلیغی اسلامی (تحریری یا تقریری) میں خرچ کرنا ازرائے شرع کیا حکم ہے؟

_____________________________________________________________

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں اس آمد نی کا استعمال دینی مدارس اور اسلامی تبلیغ اور دیگر امور شرعیہ میں کر سکتے ہیں، کیوں کہ یہ سب فی سبیل اللہ کام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ شریف کے خزانے کو جو بیت اللہ شریف کو جو بیت اللہ شریف کی ضرورت سے زائد تھا، غربأ اور مساکین و یتامیٰ و دیگر مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا۔ بخاری شریف کتاب الحج باب کسوۃ الکعبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ
لَقَدْ ھَمّتْ اَنْ لَّا اَدَعَ فِیْھَا صَفْرَاء وَلَا بَیْضَائَا اِلَّا قَسَّمْتُه قُلْتُ اِنَّ صَاحِبَیْك لَمْ یَفْعَلَا قَالَ ھُمَا الْمَرْآن اَقْتَدِی بِھِمَا
’’یعنی انہوں نے کہا کہ میرا قصد ہے کہ کعبہ میں جتنا سونا چاندی ہے اس میں سے کچھ نہ رکھوں، سب بانٹ دوں ، میں نے کہا کہ آپ کے (پیش رو) دونوں ساتھیوں نے تو ایسا نہیں کیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں دونوں صاحبوں کی تو میں پیروی کر رہا ہوں۔‘‘
ان دونوں صاحبوں سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، کہا جاتا ہے کہ کعبہ کے تلے ایک بہت بڑا خزانہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے کھودنے کا ارادہ کیا تھا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کے خزانہ سے مراد وہ آمدنی ہے جو بطور نذر و نیاز کے حاجی اور زائرین چڑھاتے تھے اور وہ آمدنی کی صندوق میں جمع رہتی تھی، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ جب وہاں کی آمدنی کی تقسیم جائز ہے تو کعبہ کا غلاب بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کعبہ کے غلاف کو ہر سال نکال کر حاجیوں پر تقسیم کر دیا کرتے تھے، تو جب کعبہ شریف کا غلاف جو اس کی ضرورت سے زیادہ ہو، غریبوں، مسکینوں اور حاجیوں پر تقسیم کرنا جائز ہوا تو دیگر مساجد کی آمدنی جو ان کی ضرورت سے زائد ہو اسلامی کاموں پر خرچ کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہو گا، جس طرح کعبہ کا غلاف کا کعبہ شریف کے لیے وقف ہوتا ہے، اور یہ وقف ضرورت سے زیادہ ہونے کی وجہ سے غریبوں، مسکینوں او رضرورت مندو ں پر خرچ کر دیا گیا اور خرچ کیا جا سکتا ہے تو دیگر مساجد کی آمدنی ان مصارف میں بدرجۂ اولیٰ خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس کی دلیل مفصل فتح الباری میں موجود ہے، جو مضمون بالا کی تائید کرتی ہے۔  (مولانا) عبد السلام بستوی، اہل حدیث دہلی جلد نمبر ۴ ش نمبر ۱)

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ