سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) زیر ناف بالوں کی صفائی کے لیے حد اور مدت نیز معذور اور مریض شخص کیا کرے؟

  • 24067
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2763

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شرعاً حکم ہے کہ زیرِ ناف بال ایک ماہ کے اندر اندر ہر ماہ صاف کیے جائیں ۔ اس میں تشریح طلب درج ذیل مسائل ہیں مہربانی فرما کر ازروئے شریعت وضاحت فرما دیں۔

۱۔         زیرِ ناف سے مراد ہے کہ بال ٹھیک ناف سے لے کر خادوں سے نیچے تک کاحصہ صاف کیا جائے۔ کیا خادوں کے بال بھی صاف ہوں۔ زیرِ ناف کی عملاً حد کیا ہو گی؟

۲۔        ایک بوڑھا آدمی جس کے ہاتھ کانپتے ہوں۔ خطرہ ہے کہ وہ صفائی کرتے وقت زخم لگا بیٹھے گا۔ اس کی بابت کیا حکم ہے؟

۳۔        شوگر کا مریض ہے۔خدانخواستہ صفائی سے زخم لگا بیٹھتا ہے اس کی بابت شرعاً کیا حکم ہو گا؟

۴۔        کتنے عرصہ کے اندر بالوں کی صفائی ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح احادیث میں زیرِ ناف بالوں کی صفائی کو پیدائشی سُنتوں میں سے شمار کیا گیا ہے۔ روایات میں اس کے لیے لفظ ’’الإستحداد‘‘ (لوہے کو استعمال کرنا یعنی استرا یا سیفٹی وغیرہ) اور ’’العانۃ‘‘وارد ہوا ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ’’العانۃ‘‘ سے مراد وہ بال ہیں جو آدمی کے آلۂ تناسل کے اُوپر اور اس کے گرد ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح وہ بال جو عورت کی شرمگاہ پر ہوتے ہیں۔ ابن سریج نے کہا ہے کہ یہ وہ بال ہیں جو انسانی حلقہ دُبر پر اُگتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: اس کا ماحصل یہ ہے کہ قُبل اور دُبُر اور ان کے گرد بالوں کو مونڈنا مستحب ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ   کا کہنا ہے کہ اگر استحداد بمعنی ’’العانہ‘‘ ہو جس طرح کہ نووی نے کہا ہے تو بایں صورت دُبر پر اُگنے والے بالوں کو مونڈنے کی سنیت ثابت نہیں ہوتی۔ اگرچہ لوہا سے مونڈنا ’’حلق العانہ‘‘ سے عام ہے جس طرح ’’قاموس‘‘ میں ہے، لیکن صحیح مسلم وغیرہ میں ’’الإستحداد‘‘ کے بجائے حدیث’’دس چیزیں فطرت سے ہیں۔‘‘ میں ’’حَلقُ العَانۃ‘‘ کو شمار کیا گیا ہے۔ اس سے إستحداد کے اس اطلاق کی وضاحت ہوتی ہے جو حدیث’’پانچ چیزیں فطرت سے ہیں‘‘ میں وارد ہے۔ اس سے اس دعویٰ کی صداقت ظاہر نہیں ہوتی کہ دُبر کے بال مونڈنے سنت ہیں یا مستحب ہیں، الا یہ کہ وہاں کوئی دلیل ہو۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ نبیﷺ یا صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  میںسے کسی نے دُبر کے بال مونڈے ہوں۔ نیل الأوطار (۱/۱۲۳۔۱۲۴) اس تشریح سے واضح ہو گیا کہ خادوں اور خصیتین وغیرہ پر موجود بالوں کو بھی صاف کرناچاہیے۔ البتہ ناف کے نیچے کی متصل حد شاید اس میں شامل نہ ہو۔

۲۔        بوڑھا یا کمزور آدمی جس کے ہاتھ کانپتے ہوں ان کے لیے یہ ہے کہ وہ پوڈر وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ   نے اس کے جواز کی تصریح کی ہے۔

۳۔        شوگر کا مریض بھی پوڈر کو استعمال میں لائے۔ امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: اسی طرح بال کترے یا اکھاڑے بھی جا سکتے ہیں اگرچہ افضل مونڈنا ہے۔

۴۔        زیرِ ناف بالوں کی صفائی کا وقفہ چالیس دن سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے حسبِ ضرورت صفائی ہو سکتی ہے۔ حدیث میں ہے:

’ أَن لَّا نَترُکَ أَکثَرَ مِن أَربَعِینَ لَیلَةً ‘ صحیح مسلم،بَابُ خِصَالِ الْفِطْرَةِ، رقم:۲۵۸،سنن ابن ماجه،بَابُ الْفِطْرَةِ،رقم:۲۹۵

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

كتاب الطہارۃ:صفحہ:116

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ