سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) جادو سیکھنے کا حکم

  • 23997
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1672

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سحر (سحر کا معنی: جس کا ماخذ لطیف اور دقیق ہو یعنی ایسا دھوکہ جس میں پتہ نہ چلے کہ دھوکہ کس طرح دیا گیا ہے۔ تاج العروس 3/357 و لغات الحدیث 3/56،12 احمد 4/399/نیل 7/190 فقہ اکبر 180) کے اقسام میں سے کس قسم کا سیکھنا یا اس پر عمل کرنا جائز ہے؟ اور شیخ الاسلام (امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ) ابن عربی اور منصور کی تکفیر کرتے ہیں اور لکھا ہے کہ: منصور جادوگر تھا نیز جادو میں ایک کتاب لکھی جو عجائبات اس سے نقل کرتے ہیں وہ اس کے جادو کے آثار سے تھے یہ بات صحیح ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح احادیث جادوگر، جادوگر کی مذمت اور جادوگر کی سزا میں عموما و مطلقا وارد ہوئی ہیں، جن میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں اور ان احادیث کا مضمون یہ ہے کہ: سب جادوؤں کا حکم اس کی اقسام کے مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی ہے لیکن علماء کے نزدیک اس مسئلہ میں کئی طرح سے تفصیل ہے، اس مقام پر مدلل، مضبوط اور مختصر کلام امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے جو کہ شرح صحیح مسلم میں ہے کہ:

جادو کرنا حرام ہے اور وہ بالاتفاق کبیرہ گناہوں سے ہے اور کبھی کفر ہوتا ہے اور کبھی کفر نہیں ہوتا بلکہ کبیرہ گناہ ہوتا ہے۔ پس اگر اس میں کوئی ایسا قول و فعل ہو جو کفر کا تقاضا کرے تو وہ کفر ہو گا ورنہ کفر نہ ہو گا لیکن اس کا سیکھنا سکھانا حرام ہے، انتہی۔ اور ایسا ہی ابو منصور ماتریدی نے کہا چنانچہ ان سے ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں ایسا ہی نقل کیا ہے۔ ([1])

اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جسے امام احمد نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیشہ شراب پینے والا، قطع رحمی کرنے والا، اور جادو کی تصدیق کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔ (مسند احمد 4/399، حاکم 4/146، ابن حبان 12/165) اور امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ اور جب یہ وعید جادو کے ماننے والے کے حق میں وارد ہوئی تو جادو کرنے کا کیا حال ہو گا اور جادو کی متعدد اقسام پر دلالت کرنے والی یہ آیات ہیں:

٭ ﴿وَمِن شَرِّ النَّفّـٰثـٰتِ فِى العُقَدِ ﴿٤﴾... سورةالفلق

اور گرہ (لگا کر ان) سب پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی رب کی پناہ میں آتا ہوں)۔

٭ ﴿يُخَيَّلُ إِلَيهِ مِن سِحرِهِم أَنَّها تَسعىٰ ﴿٦٦﴾... سورة طه

موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ وہ (رسیاں اور لاٹھیاں) ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں۔

جادوگر کی سزا:

اور جمہور علماء کا یہ مذہب ہے کہ جادوگر کا قتل کرنا واجب ہے اور اسی طرح صریح روایت میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ گئے ہیں اور اس پر احادیث دلالت کرتی ہیں، اور صحابہ کرام جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ اور اس سے توبہ کروانے اور کافر کہنے میں اختلاف ہے۔ ابن عربی اور منصور کے بارے میں علماء کا قدیم سے اختلاف مشہور ہے، ایک جماعت نے ان کے مخالف شریعت اقوال و احوال دیکھ کر کافر کہنے پر جراءت کی ہے۔ اور ایک قوم نے ان کی بلند شان، رفعت مکان، علوم و کمالات ظاہر و باطن کی وجہ سے ان کے احوال و اقوال کی تاویل کی ہے اور سکر اور مستی کی حالت میں محمول کر کے توقف کیا ہے، اور ایک جماعت نے ان کلمات کا ان کی طرف سے انکار کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ان کے مخالفین اور دشمنوں نے ان کی کتابوں میں ان کلمات کو درج کیا ہے اور اس پر جزم کا اظہار کیا ہے اور ہم نے صدیوں بعد پیدا ہونے والوں کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال پانے کے بعد بجز سکوت اختیار کرنے کے کوئی چارہ نہیں اور ان آیات:

﴿ تِلكَ أُمَّةٌ قَد خَلَت لَها ما كَسَبَت وَلَكُم ما كَسَبتُم ...﴿١٤١﴾... سورة البقرة

یہ امت ہے جو گزر چکی، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہی اور جو تم نے کیا تمہارے لئے ۔۔۔۔

﴿وَالَّذينَ جاءو مِن بَعدِهِم يَقولونَ رَبَّنَا اغفِر لَنا وَلِإِخو‌ٰنِنَا الَّذينَ سَبَقونا بِالإيمـٰنِ...﴿١٠﴾... سورة الحشر

اور جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں۔

اور اس حدیث: لا تسبوا الاموات۔ (جو مر چکے ہیں ان کو برا مت کہو) کے مضمون پر عمل کرنے کے بغیر کوئی حیلہ نہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ ان کی باتوں اور حالات سے جو قرآن و حدیث کے موافق ہو اس کو قبول کریں اور جو ایسا نہ ہو اس کو چھوڑ دیں کیونکہ اکثر کے اقوال سے بعض قول، قبول اور بعض ترک کے لائق ہوتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ ان کے سب فرمان قبول کرنے واجب ہیں اور اس پر علماء متقدمین اور متاخرین کا اتفاق ہے اور یہی حق ہے۔


[1]  احمد،4/399/نیل 7/190، فقہ اکبر180

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:340

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ