سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) عورتوں کے لئے سونا چاندی پہننا

  • 23988
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 3433

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین اس مسئلہ کے متعلق ارشاد فرمائیں کہ سونے کا زیور عورتوں کو پہننا درست ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں اس کے پہننے کی ممانعت آئی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورتوں کے لئے سونا و چاندی پہننے کے جواز میں کتاب و سنت سے دلائل:

(ماہرین) فطانت پر مخفی نہیں کہ سونے اور چاندی کا زیور عورتوں کے حق میں قرآن مجید کی چند آیات سے دلالۃ واضح ہوتا ہے، چنانچہ سورہ زخرف میں فرمانِ ربانی ہے:

﴿أَوَمَن يُنَشَّؤُا۟ فِى الحِليَةِ وَهُوَ فِى الخِصامِ غَيرُ مُبينٍ ﴿١٨﴾... سورة الزخرف

"آیا آں را کہ پروردہ می شود زیور واو در صفت خصومت ظاھر نمیگردد" ([1])

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اور ایسا شخص کہ گہنے (زیور) میں پلتا رہے اور جھگڑے میں بات نہ کہہ سکے۔ تفسیر ابن عباس میں مذکور ہے۔

او من ينشؤ يغذي و يربي في الحلية حلية الذهب والفضة وهو في الخصام في الكلام غير مبين غير ثابت الحجة، وهن اللنساء. انتهي، قال الكيا، فيه دليل علي اباحة الحلي للنساء ([2])

"کیا جو سونے، چاندی کے زیور میں پلتا اور پرورش کیا جاتا ہے، وہ کلام میں حجت کو ثابت نہیں کر سکتا۔ وہ عورتیں ہیں۔ کِیاَ کہتے ہیں: اس میں عورتوں کے لئے زیور کے مباح ہونے کی دلیل ہے۔"

واخرج ابن ابي حاتم عن ابي العالية انه سئل عن الذهب للنساء فلم يربه باسا و تلا هذه الآية ([3])

"ابو العالیہ سے عورتوں کے زیور پہننے سے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں"، اور قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت تلاوت کی۔

المسئلة الثالثه: دلت الآية علي ان الحلي مباح للنساء ([4])

"تیسرا مسئلہ: آیت عورتوں کے زیور پہننے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔"

پس لفظ " ينشؤ في الحلية " سے حاصل ہوا کہ زیور کی زینت سے آراستگی پر حرص عورت کی جبلت اور خلقت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حرص میں ان کو معذور قرار دیا اور اس کی نہی نہیں فرمائی، بلکہ اس میں دلالۃ اباحت پائی جاتی ہے۔ كما لا يخفي علي المتامل المتفطن۔ اور اس زینت کا بیان سورہ نور میں بخوبی مذکور ہے:

﴿ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها...﴿٣١﴾... سورة النور

فسره ابن عباس بالوجه والكفين. اخرجه بن ابي حاتم، فاستدل به من اباح النظر اليٰ وجه المراة وكفيها حيث لا فتنة، وفسوه ابن مسعود، بالثياب و فسر الزينة بالخاتم والسوار والقرط والقلادة والخلخال، اخرجه بن ابي حاتم ايضا. ([5])

"اور عورتیں اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو ظاہر ہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر چہرہ اور دونوں ہاتھوں سے کی ہے (ابن ابی حاتم) سو اس سے اس نے استدلال کیا ہے جس نے عورت کے چہرہ اور ہاتھوں کی طرف دیکھنے کو جائز قرار دیا ہے، جبکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ اور اس کی تفسیر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے لباس سے کی ہے۔ اور زینت کی تفسیر: انگوٹھی، کنگن، بالیاں، ہار اور پازیب سے کی ہے۔"

اور فرمانِ الٰہی ہے:

﴿ وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ ... ﴿٣١﴾... سورة النور

فيه، نهي ان تضرب برجلها ليسمع صوت الخلخال (الاكليل للسيوطي 6/186)

"اور زور زور سے اپنے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے۔ اس میں اس بات کی ممانعت ہے کہ اپنی پازیب کو یوں عمدا حرکت دے کر چلیں کہ اس کی آواز سنی جا سکے۔"

اور تفسیر ابن عباس ص 219 میں مذکور ہے کہ:

وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ، الدملوج والوشاح وغير ذلك وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ احداهما بالاخري ليقرع الخلخال بالخلخال، انتهي، قال اكثر المفسرين الزينة ههنا اريديها امور ثلاثة:

اَحَدُهَا: الاصباغ. كالكحل والخضاب بالوسمة في حاجيها والغمرة في خديها والحناء في كفيها وقدميها

وثانيها: الحلي كالخاتم والسوار والخلخال والدملج والقلادة والاكليل والوشاح والقرط

وثالثها: الثياب (انتهي في تفسير النيسا فوري والكبير)

"“وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ “" سے مراد بازو بند اور حمیل (گلے میں پہنا جانے والا ہار) وغیرہ ہے اور اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پر نہ ماریں، تاکہ ایک پازیب دوسرے سے مل کر نہ چھنچھنائے۔ اور اکثر مفسرین نے کہا ہے: کہ یہاں زینت سے مراد تین چیزیں ہیں:

ایک: "رنگ ہے، جیسے سُرمہ لگانا، ابروں میں رنگ بھرنا، رُخساروں پر زعفران لگانا، ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی کا لگانا ہے۔"

دوسری: "زیور ہے، جیسے انگوٹھی، کنگن، پازیب، بازو بند، ہار، تاج، حمیل اور بالیاں ہیں۔"

تیسری: "لباس ہے۔" (تفسیر نیساپوری، کبیر)

اور سورہ رعد میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمِمّا يوقِدونَ عَلَيهِ فِى النّارِ ابتِغاءَ حِليَةٍ أَو مَتـٰعٍ ...﴿١٧﴾... سورة الرعد

"و از انچہ میگداز ندش در آتش بطلب پیرایہ یا بطلب رخت خانہ۔" (فتح الرحمٰن)

"اور جن چیزوں کو زیور یا دوسرے سامان بنانے کے لئے آگ میں تپاتے ہیں"

اور تفسیر ابن عباس میں ہے:

ابتغاء حلية، طلب حلية تلبسونها، يقول: مثل الحق مثل الذهب والفضة ينتفع بها، كذلك الحق ينتفع به صاحبه

" ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ ، سے مراد، زیور کی خاطر جنہیں تم پہنتے ہو، کہتے ہیں: حق کی مثال اس سونے چاندی کی سی مثال ہے جس سے استفادہ کیا جائے ایسا ہی حق ہے جس سے صاحبِ حق فائدہ اٹھاتا ہے۔"

اور تفسیر کبیر میں ہے:

“ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ” اي بطلب اتخاذ حلية وهي ما يتزين به ويتجمل به كالحلي المتخذة من الذهب والفضة، قوله: ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ قال اهل المعاني: الذي يوقد عليه لابتغاء حلية الذهب والفضة والذي يوقد عليه لابتغاء الامتعة، الحديد والنحاس والرصاس والاسرب (5-289)

"زیور یا اسباب کی خاطر۔ یعنی ایسا زیور بنانا جس سے زینت و خوبصورتی حاصل کی جاتی ہو اور وہ سونے و چاندی کے زیورات ہیں، ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ: اہل معانی کہتے ہیں کہ، جو زیور کی خاطر تپایا جاتا ہے وہ سونا اور چاندی ہے اور جو اسباب کی خاطر تپایا جاتا ہے وہ لوہا، تانبا، قلعی اور سیسہ ہے۔ (تفسیر کبیر)

وقال البيضاوي: والمقصود من ذلك بيان منافعها (1/517)

"اس سے مقصود ان کے فوائد کا بیان کرنا ہے۔ (بیضاوی)

(قال النواب صديق حسن):

والحلي: بضم الحاء وكسر اللام والياء المشددة اصله حلوي فعلل جمع حلي بالفتح اسم الحلي لكل ما يتزين به من مصاغ الذهب والفضة. كذا في النهايه الجزري 1/435

" حلي ، اس کی اصل حلوي ، جو کہ فعلل فتح کے ساتھ، حلي کی جمع ہے۔ ہر اس سونے چاندی کے زیور کو کہا جاتا ہے جس سے زینت حاصل کی جاتی ہو"۔ (نھایہ جزری)

اور چاندی کو خاص کرنا تخصیص بلا مخصص اور قرآنی آیات کی سلامت کے مخالف ہے۔ كما لا يخفي علي المتامل الماهر ۔ اور صحیح بخاری و مسلم سے عورتوں کو سونے کے زیور کی اباحتِ عمومی ثابت ہوتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:

باب العرض في الزكوة .... وقال النبي صلي الله عليه وسلم: تصدقن ولو من حليكن، فجعلت المراة تلقي خرصها وسخابها (فتح الباری 3/312)

"زکاۃ میں اسباب لینے کا باب۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عورتوں سے) فرمایا: صدقہ دو، اگرچہ تمہارے زیور ہی کیوں نہ ہوں، چنانچہ عورتیں اپنی اپنی بالیاں اور اپنے اپنے ہار ڈالتی تھیں۔

حلي یعنی زیور، خواہ وہ سونے کا ہو یا چاندی کا عموم پایا جاتا ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿مِن حُلِيِّهِم عِجلًا جَسَدًا....﴿١٤٨﴾... سورة الاعراف

اپنے زیور سے بچھڑا بنایا۔

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو فرمایا: صدقہ یعنی زکاۃ ادا کرو خواہ اپنے زیوروں سے دو۔ اور زیور دونوں اقسام سے ہوتا ہے۔ قاموس میں ہے:

الخرص بالضم و بكسر، حلقة الذهب والفضه او حلقة القرط والحلقة الصغيرة

"خِرص ضمہ و کسرہ کے ساتھ، سونے اور چاندی کا کڑا (کنگن اور چوڑی) یا بالی کے کڑے اور چھوٹے کڑے (چھلے) کو کہتے ہیں۔"

الصراح میں یوں ہے: خرص: بضم و کسر، حلقہ زر و نقرہ۔

سخاب: بکسر سین مہملہ و خاء معجمہ، قلادہ، فارسی میں: گردن بند یعنی ہر عرف میں جو زیور گلے میں پہنا جاتا ہے۔ پس سخاب بھی عام ہے خواہ سونے کا ہو یا چاندی کا، جو کہ ہر شخص حسب مقدر و بغرض زینت بنواتا ہے۔

قرط: مضہ کے ساتھ، گوشوارہ، (کان کی بالی) بھی عام ہے خواہ چاندی کا ہو یا سونے کا، مُرصع جڑاؤ ہو یا نہ ہو۔

اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب اللباس میں ذکر کیا ہے:

باب، لخاتم للنساء وكان علي عائشة خواتيم ذهب: حدثنا ابو عاصم اخبرنا ابن جريج اخبرنا الحسن بن مسلم عن طاؤس عن ابن عباس رضي الله عنهما شهدت العيد مع النبي صلي الله عليه وسلم فصلي قبل الخطبة، قال ابو عبدالله، وزاد ابن وهب عن ابن جريج فاتي النساء فجعلن يلقين الفتخ والخواتيم في ثوب بلال (فتح الباری 10/330)

"عورتوں کے انگوٹھی پہننے کا بیان اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔"

ابو عاصم، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ عید میں موجود تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھی: اور ابن وھب نے بواسطہ ابن جریج اتنا زیادہ کیا ہے: کہ عورتوں کے پاس تشریف لائے تو عورتیں بلال کے کپڑے میں انگوٹھیاں اور چھلے ڈالتی تھیں۔"

صحیح مسلم میں ایسے ہے:

قال ابن دريد كل ما علق من شحمة الاذن فهو قرط سواء كان من ذهب او خرز (نووی شرح مسلم، البانی 438)

"ابن درید کہتے ہیں کہ: ہر وہ چیز جو کان کی لو میں لٹکائی جائے وہ بالی ہے، خواہ وہ سونے کی ہو یا موتی کی۔"

زیور کے معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تئیں ابو زرع سے تشبیہ دینا:

اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے: باب حسن المعاشرة مع الاهل (بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت کا باب) قائم کیا ہے۔ پھر گیارہ عورتوں کے واقعہ میں گیارہویں عورت نے کہا:

زوجي ابو زرع فما ابو زرع؟ اناس من حلي اذني

"میرا شوہر ابو زرع ہے اور ابو زرع کیا خوب شخص ہے، اس نے زیورات سے میرے دونوں کانوں کو بھاری کر دیا اور ہلا کے رکھ دیا ہے۔" (فتح الباری 9/317)

پھر اختتام حدیث پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم كنت لك كابي زرع لام زرع. انتهي ما في فتح الباري (انتھی ما فی فتح الباری 9/317 و صحیح مسلم 4/1901)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیرے لئے ایسے ہوں جیسے ابو زرع ام زرع کے لئے تھا۔"

سو ابو زرع کے قصہ سے صاف ظاہر ہوا کہ اس مرد مخیر، صاحب ثروت اور صاحب دولت نے ام زرع کے دونوں کانوں میں سونے و چاندی کی بالیاں بنوا کر دی تھیں، بلکہ یہ مقام مدح و زینت، سونے کے زیور کے اہتمام کا مقتضی ہے۔ اور ہر صاحب ثروت چاندی کے زیور کو معیوب سمجھتا ہے خصوصا جبکہ زیور کان کا ہو۔ اسی بنا پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس سونے کی انگوٹھیاں تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات مبارک کو ابو زرع کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔

اور امام نووی جملہ اناس من حلي اذني کے تحت رقمطراز ہیں:

معناه حلابي قرطة وشنوفا فهي تنوس اي تتحرك لكثرتها، انتهي كلام الشارح، وفي رواية ابن السكت: “اذني و فرعي” وفرعا الانسان يداها، والحلي حينئذ يعم القرط والشنف والسوار والمعضد، وتنكير حلي و شحم للتكثير كله من الفائق. (مسلم 2/288 طبع کراچی)

"اس کا یہ معنی ہے کہ اس نے مجھے بالیاں اور کانوں کا زیور اس قدر پہنایا ہے کہ وہ اس کے بوجھ سے جھولتے رہتے ہیں۔ اور ابن السکیت کی روایت میں " اذني و فرعي " ہے اور انسان کے فروع اس کے دونوں ہاتھ ہوتے ہیں۔ سو زیور بالی، کانوں میں پہنا جانے والا کنگن اور بازو بند کے لئے عام ہوا۔"

قرط، شنف اور بالی کی وضاحت:

نفائس اللغات میں ہے:

بالی نوعی از زیور کہ ازسیم وزر سازند و درگوش آویز ندپس اگر درنرمد گوش آویزند بعربی آنرا "قرط" بضم قاف و سکون راء مہملہ و طاء مہملہ گویند و اگر در اعلائے گوش آویزند بعربی آنرا "شنف" بفتح شین معجمہ و سکون نون و فادر آخر گویند و فارسی ہمہ را گوشوارہ و آویزہ گوش گریند۔ (کذا فی النفائس)

"بالی زیور کی ایک قسم ہے جو کہ سونے و چاندی سے بناتے ہیں اور کان میں لٹکاتے ہیں، پس اگر اس زیور کو کان کی لو میں لٹکایا جائے تو عربی میں اسے "قرط" کہتے ہیں، جو کہ قاف کے ضمہ اور را و طا کے سکون سے ہے، اور اگر اس کو کان کے اوپر والے حصہ میں لٹکایا جائے تو عربی میں اس کو "شنف" شین کی فتح اور نون کی جزم سے کہتے ہیں اور فارسی میں تمام کو بالی یا کان میں لٹکائے جانے والے کو زیور کو کہتے ہیں۔"

حلي: سونے چاندی کے لئے عام ہے:

صحیح بخاری و مسلم کی حدیث سے "حُلي" عموم کو ظاہر کرتا ہے، خواہ وہ سونے کی قسم ہو یا چاندی کی۔ اور چاندی کی تخصیص، بلامخصص اور بلا مرجح باطل تصور ہو گی، بلکہ سونے کی تائید میں تو مندرجہ ذیل دلائل ہیں:

جیسا کہ ابوداؤد میں باب الکنز میں ہے:

ماهو زكاة الحلي:

حدثنا ابو كامل و حميد بن مسعدة المعني ان خالد بن الحارث حدثهم قال حدثنا حسين بن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان امرءة اتت رسول الله صلي الله عليه وسلم ومعها ابنة لها وفي يد ابنتها مسكتان غليظتان من ذهب، فقال لها اتعطين زكاة هذا؟ قالت لا، قال: ايسرك ان يسورك الله بهما يوم القيامة سوارين من نار؟ قال، فخلعتهما فالقتهما الي النبي صلي الله عليه وسلم قالت هما لله ولرسوله. انتهي وهكذا (رواہ النسائی 2/280، ابو داؤد 1/212، سلفیه)

زیور کی زکاۃ کیا ہے!

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی، جس کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا، کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو؟ اس نے جواب عرض کیا: "نہیں" اس پر آپ نے فرمایا: کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنائے؟ اس عورت نے وہ دونوں کنگن پھینک دئیے، اور بولی کہ یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے ہیں۔" (النسائی)

قال الحافظ عبدالعظيم المنذري: لعل الترمذي قصد الطريقين الذين ذكرهما والافطريق ابي داؤد لا مقال فيها ثم بينها رجلا، رجلا، كذا في المحلي شرح مؤطا مالك، رواه ابوداؤد

"امام منذری کہتے ہیں کہ: امام ترمذی نے دو سندوں کا ذکر کیا ہے وگرنہ امام ابو داؤد کی ذکر کردہ سند بھی ایسی ہے جس میں کوئی جرح نہیں ہے، پھر انہوں نے ایک ایک راوی کی وضاحت کری ہے۔" (ابوداؤد)

قال في فتح القدير: قال ابو الحسن بن قطان اسناده صحيح، وقال المنذري في مختصره اسناده لا مقال فيه، و انهما اخرج ابو داؤد عن ام سلمة رضي الله عنها قالت: كُنْتُ أَلْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ! أَكَنْزٌ هُوَ؟ فَقَالَ: مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ فَزُكِّيَ، فَلَيْسَ بِكَنْزٍ. واسناده جيد، كذا في المحلي (کذا فی المحلی 6/97، منذری 2/175)

"فتح القدیر میں ہے کہ: ابو الحسن بن قطان نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ امام منذری نے اپنی مختصر میں کہا ہے کہ: اس کی سند میں کوئی مقال نہیں ہے اور ان دونوں کو ابوداؤد نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہتی ہیں کہ: میں سونے کی پازیب پہنا کرتی تھی، میں نے کہا! اے اللہ کے رسول کیا یہ کنز (خزانہ) ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ نصاب کو پہنچ جائے اور ان کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے تو کنز نہیں ہے، اور اس کی سند جید ہے۔"

اسی طرح سنن ابی داؤد میں ہے:

(1) باب في الحرير للنساء: عن عبدالله بن زرير انه سمع علي رضي الله عنه بن ابي طالب ان نبي الله صلي الله عليه وسلم اخذ حريرا فجعله في يمينه و اخذ ذهبا فجعله في شماله ثم قال: ان هذين حرام علي ذكور امتي ([6])

"عورتوں کے لئے ریشم کا باب: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا پکڑا، پھر فرمایا: یہ دونوں میری امت کے مردوں کے لئے حرام ہیں۔"

(2) اور نسائی کے باب تحريم لبس الذهب (سونا پہننے کی حرمت) میں ہے:

عن ابي موسيٰ الاشعري رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال ان الله عزوجل احل لاناث امتي الحرير والذهب وحرمه علي ذكورها. انتهي (نسائی 8/139، ابن ماجه)

"حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ عزوجل نے ریشم اور سونے کو میری امت کی عورتوں کے لئے حلال قرار دیا ہے اور مردوں کے لئے حرام۔"

(3) تحريم الذهب علي الرجال

"مردوں کے لئے سونے کی حرمت"

عن عبدالله بن زرير انه سمع علي رضي الله عنه بن ابي طالب يقول ان رسول الله صلي الله عليه وسلم اخذ حريرا فجعله في يمينه و اخذ ذهبا فجعله في شماله ثم قال: ان هذين حرام علي ذكور امتي. انتهي ما في النسائي (انتھی ما فی النسائی 8/139 ابن ماجه حدیث 3595)

"حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم پکڑا اور بائیں ہاتھ میں سونا، پھر فرمایا: یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔"

اس حدیث کو امام نسائی نے چار طرق سے روایت کیا ہے ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اور دوسرا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اور ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں: کہ

(4) قالت اهدي النجاشي الي رسول الله صلي الله عليه وسلم حلقه فيها خاتم ذهب فيه فص حبشي فاخذه رسول الله صلي الله عليه وسلم بعود وانه لمعرض عنه او ببعض اصابعه ثم دعا بابنة ابنته امامة بنت العاص فقال: تحلي هذا يا بنية  (ابن ماجه 2/1202، ابوداؤد 4/535)

"نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چھلا بھیجا اس میں سونے کی انگوٹھی تھی اور اس میں ایک سیاہ نگینہ جڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک لکڑی سے چھوا اور آپ اس سے نفرت کر رہے تھے یا کسی انگلی سے لیا، پھر اپنی نواسی امامہ بنت العاص (حضرت زینت رضی اللہ عنہا کی بیٹی) کو بلایا اور فرمایا: بیٹی! اسے پہن لو۔" (ابن ماجہ)

(5) ترمذی میں باب ماجاء في الحرير والذهب للرجال ...

حدثنا اسحاق بن منصور ثنا عبدالله بن نمير ثنا عبدالله حدثنا عبدالله بن عمر عن نافع عن سعيد بن ابي هند عن ابي موسيٰ الاشعري رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: حرم لباس الحرير والذهب علي ذكور امتي و احل علي اناثهم. وفي الباب عن عمر و علي و عقبة بن عامر و ام هاني و انس و حذيفة و عبدالله بن عمرو و عمران بن حصين و عبدالله بن الزبير و جابر و ابي ريحانة و ابن عمر والبراء رضي الله عنهم. هذا حديث حسن صحيح. مافي الترمذي 4/217، وفي المشكوة فتح الرباني 17/270 و ابو داؤد والنسائي 8/139) ۔۔۔

"(مردوں کے لئے سونا اور ریشم پہننے کے بیان) میں ہے: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سونا اور ریشمی لباس میری امت کے مردوں کے لئے حرام اور ان کی عورتوں کے لئے حلال کیا گیا ہے۔ اور اس باب میں حضرت عمر، علی، عقبہ بن عامر، ام ھانی، انس، حذیفہ، عبداللہ بن عمرو، عمران بن حصین، عبداللہ بن الزبیر، جابر، ابو ریحانہ، ابن عمر اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی روایات مروی ہیں۔ اور یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔ (مشکوٰۃ 2/1244 البانی)

(6) اور بلوغ المرام میں ہے:

عن ابي موسيٰ رضي الله عنه عن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: احل الذهب والحرير لاناث امتي و حرم علي ذكورها. رواه احمد و النسائي و الترمذي و صححة. انتهي (النسائی 8/139، ترمذی 4/217، مصنف عبدالرزاق حدیث 19930، بلوغ المرام 148)

"حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور ان کے مردوں کے لئے حرام کیا گیا ہے۔ احمد، نسائی اور ترمذی نے اسے صحیح کہا۔"

سونے اور ریشم عورتوں کے لئے حلال اور ان دونوں کا مردوں کے لئے حرام ہونا سولہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، جو کہ واقفان حدیث پر مخفی نہیں ہے، اور اسی باب میں مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور ابن حبان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کلمات مروی ہیں:

(7) اخذ النبي صلي الله عليه وسلم حريرا فجعله في يمينه و اخذ ذهبا فجعله فجعله في شماله ثم قال: ان هذين حرام علي ذكور امتي، زاد ابن ماجة: حل لاناثهم .... و بين النسائي والاختلاف فيه علي يزيد بن ابي حبيب. قال الحافظ وهو اختلاف لا يضر و نقل عبدالحق عن ابن المديني انه قال حديث حسن و رجاله معروفون. انتهي ما في نيل الاوطار للشوكاني ([7])

"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں میں سونا پکڑا، پھر فرمایا: یہ دونوں میری امت کے مردوں کے لئے حرام ہیں۔ ابن ماجہ میں اضافہ ہے: ان کی عورتوں کے لئے حلال ہے۔ امام نسائی نے یزید بن ابو حبیب کے متعلق اختلاف ظاہر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ: یہ اختلاف بے ضرر ہے۔ عبدالحق نے ابن المدینی سے نقل کیا ہے کہ: انہوں نے کہا، کہ حدیث حسن ہے اور اس کے راوی معروف ہیں۔"

ہر گاہ علی بن المدینی نے اس حدیث کی تحسین کی ہے اور اس کے رواۃ کو معروف بالعدالۃ کہا ہے تو پھر اس کی تضعیف کون کر سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تقریب میں فرماتے ہیں:

علي بن عبدالله المديني البصري ثقة ثبت امام اعلم اهل عصره بالحديث و علله حتي قال البخاري: ما استصغرت نفسي الا عنده. (تقریب 373 فاروقی ملتان)

"حضرت علی بن المدینی البصری ثقہ، حجۃ، اپنے زمانہ کے حدیث اور علل الحدیث کے سب سے بڑے امام ہیں۔ حتیٰ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: میں نے خود کو ماسوا ابن المدینی کے کسی کے سامنے چھوٹا محسوس نہیں کیا۔"

وقال شيخه ابن عيينة: اتعلم منه اكثر مما يتعلم مني

"ان کے شیخ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ: میں ابن المدینی سے اس سے کہیں بڑھ کر سیکھتا ہوں جو وہ سے سیکھتے ہیں۔"

وقال النسائي: كان الله خلقه للحديث. (كذا في التقريب 373)

"امام نسائی فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے ان کو حدیث کے لئے پیدا فرمایا ہے۔"

سونے کا زیور عورت کے لئے بوجوہ یقینا جائز ہے:

مندرجہ بالا تحریر سے سونے کا زیور عورت کے حق میں بلا ریب ثابت ہوتا ہے اور وعیدِ نار والی حدیث عورتوں کے حق میں سونے کے زیور کا استعمال چند وجوہ کے سبب مذکورہ بالا دلائل کا مقابلہ میں معارض نہیں ہو سکتی۔

وجہ اول:

کہ جواز کے دلائل کثرت وقوت کی بنا پر ارجح و اکثر ہیں، اور حدیث وعیدِ نار مرجوح اور کمتر ہے، کیونکہ جواز کی دلیل کے لئے قرآنی آیات اور بخاری و مسلم کی حدیث وعیدِ نار والی حدیث کے خلاف واضح حجت ہے۔ كما لا يخفي علي المتتبع الماهر۔

وجہ دوئم:

کہ عورت کے حق میں حرمت کی روایت جو نیچے آ رہی ہے قرآنی آیات، حدیث شیخین اور سولہ، سترہ صحابہ کرام کی روایات کی رو سے منسوخ ہے۔ شرح السنۃ میں ہے:

قال البغوي هذا الحديث منسوخ بحديث ابي موسيٰ الاشعري انه صلي الله عليه وسلم قال: احل الذهب والحرير للاناث من امتي. كذا في المرقاة وغيرها ([8])

"امام بغوی کہتے ہیں کہ: یہ حدیث حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے منسوخ ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لئے حلال ہے۔"

شیخ جلال الدین السیوطی شرح نسائی میں رقمطراز ہیں:

يا معشر النساء اما لكن في الفضه ما تحلين اما انه ليس منكن امراة تحلت ذهبا تظهره الا عذبت به. هذا منسوخ بحديث: ان هذين حرام علي ذكور امتي حل لاناثها ([9])

"اے عورتوں کی جماعت کیا تم چاندی کا زیور نہیں بنا سکتیں، دیکھو! جو عورت تم میں سے سونے کا زیور پہن کر (اجنبی مردوں کو یا فخر سے) نمود و نمائش کرے تو اس کو عذاب ہو گا۔ یہ حدیث اس حدیث سے منسوخ ہے: بےشک یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں اور عورتوں کے لئے حلال۔"

قال ابن شاهين في ناسخه: كان في اول الامر يلبس الرجال خواتيم الذهب وغير ذلك وكان الخطر قد وقع علي الناس كلهم ثم اباحه رسول الله صلي الله عليه وسلم للنساء دون الرجال، فصار ما كان علي النساء من الخطر مباحا لهن، فنسخت الاباحة بالحظر، و حكي النووي في شرح مسلم اجماع المسلمين علي ذلك.انتهي ما في زهر الربي علي المجتبي الحافظ جلال الدين السيوطي 8/135 حاشيه

"ابن شاہین اپنی ناسخ میں لکھتے ہیں کہ: ابتدائے امر میں مرد سونے وغیرہ کی انگوٹھیاں پہنا کرتے تھے اور لوگ ان سے خطرہ محسوس کرنے لگے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے علاوہ عورتوں کے لئے حلال قرار دے دیا، سو جو چیز عورتوں کے لئے باعث خطرہ تھی ان کے لئے مباح کر دی گئی اور اباحت نے خطرہ کو منسوخ کر دیا اور امام نووی نے شرح مسلم میں اس پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے۔ زهر الربي علي المجتبي

والثاني: ان النساء احوج الي تزيين ليرغب فيهن ازواجهن ولذلك جرت عادة العرب والعجم جميعا بان يكون تزينهن اكثر من تزينيهم، فوجب ان يرخص لهن اكثر مما يرخص لهم و لذلك قال صلي الله عليه وسلم: احل الذهب والحرير للاناث من امتي و حرم علي ذكورها. انتهي ما في حجة الله البالغة للشيخ الشاه ولي الله المحدث الدهلوي (حجة اللہ مترجم 430 طبع کراچی نور محمد)

"اور دوسری بات یہ کہ: خواتین زیب و زینت کی زیادہ ضرورت مند ہیں، تاکہ ان کے شوہر ان میں راغب ہوں، اسی لئے تمام عرب و عجم میں یہ بات عام ہے کہ عورتوں کی زیبائش مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، سو ضروری تھا کہ ان کو مردوں کی نسبت زیادہ رخصت دی جائے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ سونا و ریشم میری امت کی خواتین کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام قرار دئیے گئے ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ)

در مؤطا امام مالک مذکور ست کہ عبداللہ بن عمر زیور طلائی میپو شانید دختران وکنیزان خود از زرپس برنمی بر آورداز زیور ایشان زکوٰۃ۔ (موطا مسویٰ/207)

"مؤطا امام مالک میں ہے کہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں اور کنیزوں کو سونے کا زیور پہنایا کرتے تھے اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرتے تھے۔"

مالك عن نافع ان عبدالله بن عمر كان يحل بناته و جواريه الذهب ثم لا يخرج حليهن الزكوة. انتهي (مؤطا 1/214، فوائد عبدالباقی)

"مالک، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اپنی بیٹیوں اور بچیوں کو سونے کا زیور پہنایا کرتے تھے اور ان کے زیور کی زکاۃ نہ ادا کرتے تھے۔"

وجہ سوم:

کہ یہ وعیدِ نار سونے کا زیور پہننے پر نہیں فرمائی، بلکہ یہ وعید نار ایسے لوگوں کے لئے ہے جو اسے بقصد ریا اور نمود و تکبر کے طور پر استعمال کریں اور جاہلیت کی سی زینت و سنگار کا اظہار کرنے والے ہوں، کیونکہ یہ ہر زمانہ کے اہل اسراف و اتراف اور اغنیاء کا شعار رہا ہے، سو جو ان امور خارجیہ سے متصف ہو کر سونے کا زیور پہنے اس کے لئے وعیدِ نار کا موجب ہے اس لئے کہ لباس حریر اور طلائی زیورات میں اکثر و بیشتر ریاء و تکبر پایا جاتا ہے، بخلاف چاندی کے زیور کے کہ یہ اغنیاء کے نزدیک عرفا نہایت بے قدر تصور کیا جاتا ہے، اسی تکبر و ریاء کے فاخرانہ لباس اور سونے کے زیور سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

من لبس ثوب شدرة البسه الله ثوب مذلة يوم القيامة ([10])

"جو کوئی فاخرانہ لباس پہنتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو روزِ قیامت ذلت و رسوائی کا لباس پہنائے گا۔"

سو اس حدیث میں لباس شہرت اور ریاء و افتخار آخرت میں موجب لباس مذمت ہوا نہ کہ نفسِ لباس زینت۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

الله جمعيل يحب الجمال ([11])

"اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔"

پھر فرمایا:

من ترك لبس ثوب جمال وهو يقدر عليه، وفي رواية تواضعا كساه الله حلة الكرامة ([12])

"جس شخص نے قدرت کے باوجود تواضع و انکساری کرتے ہوئے لباس جمال ترک کیا اللہ تعالیٰ اس کو حلہ کرامت پہنائے گا۔"

شارع کا مقصود یہ ہے کہ فاخرانہ لباس اور بیش قیمت سونے کے زیورات جہاں دنیا میں محنت شاقہ اور موجبِ جانفشانی ہیں وہاں آخرت سے غفلت و نسیان کا سبب بھی ہیں اور بقدر حاجت براری، دارین میں راحت و اطمینان کا سبب ہو گا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿يـٰبَنى ءادَمَ قَد أَنزَلنا عَلَيكُم لِباسًا يُو‌ٰرى سَوء‌ٰتِكُم وَريشًا وَلِباسُ التَّقوىٰ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ ...﴿٢٦﴾... سورة الاعراف

"اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔"

" خير الامور اوسطها " کو اپنا ناہی زیب دیتا ہے، اور اسی اظہار و نمودوافتخار کے باعث امام عبدالرحمٰن نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے " باب الكراهة للنساء في اظهار الحلي والذهب " عورتوں کو سونا اور زیورات کے اظہار کی کراہت کا باب قائم کیا ہے اور اس میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ سے دو طریق سے روایت نقل کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ:

خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال: معشر النساء اما انه ليس منكن امراءة تحلي ذهبا تظهره الا عذبت ([13])

"ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا: اے عورتوں کی جماعت خبردار! جس عورت نے سونے کا زیور پہن کر اس کا اظہار کیا وہ عذاب سے دوچار ہو گی۔"

پس سونے کا ریا، و تکبر کے طور پہن کر اظہار کرنا تو موجبِ وعید نار ہو گا اور بلا ریاء و افتخار پہننا اس وعید سے خارج ہو گا، کیونکہ جملہ " تظهره " “ذهب “  کی صفت واقع ہوا ہے جو کہ اس بات کی بین دلیل ہے۔ كما لا يخفي علي المتامل الذكي الماهر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ازواجِ مطہرات کو زیور پہننے سے روکنا:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گاہے بگاہے اپنے اہل کو ترغیب و ترہیب کی بنا پر ریشم و زیور پہننے سے مطلقا منع فرماتے تھے جیسا کہ نسائی میں ہے:

عن عقبة بن عامر رضي الله عنه يخبر ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يمنع اهله الحلية والحرير ويقول: ان كنتم تحبون حلية الجنة فلا تلبسوها في الدنيا ([14])

"حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کو زیور اور ریشم سے منع کرتے تھے اور فرماتے: اگر تم جنت کے زیور اور ریشم کو پسند کرتی ہو تو اسے دنیا میں مت پہنو۔"

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہرات کو بوقت شب جگاتے اور فرماتے تھے:

من يوقظ صواحب الحجرات، رب كاسية في الدنيا عارية في الآخرة  (فتح الباری 3/14، اطراف 4724، 7347)

"کون ہے جو اہل حجرات (ازواج مطہرات) کو جگائے (تاکہ وہ نماز پڑھیں)، کتنی ہی عورتیں جو دنیا میں لباس پہننے والی ہیں قیامت کے روز ننگی ہوں گی۔" (ترمذی احمد شاکر 5/487)

یہ ترغیب عبادت، نمازِ تہجد اور اعراض عن الدنیا کی خاطر اور مواخذہ آخرت سے ترہیب کے لئے ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ لباس زینت سے مطلقا منع نہ کرتے تھے کہ ہر مقام پر حرمتِ عمومی خلافِ عقل و نقل اور اس آیت کریم کے مخالف ہے:

﴿قُل مَن حَرَّمَ زينَةَ اللَّهِ الَّتى أَخرَجَ لِعِبادِهِ وَالطَّيِّبـٰتِ مِنَ الرِّزقِ... ﴿٣٢﴾... سورة الاعراف

"کہہ دیجئے کہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے لئے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کسی شخص نے حرام کیا ہے۔ الآیۃ

لیکن لوازمات ضروریہ سے بڑھ کر چمک دمک و اسراف تقرب الٰہی اور آخرت میں رفعِ درجات کے لئے مضر ہے، یہ نہیں کہ یہ مطلقا حرام اور دخولِ نار کا موجب ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:

يا عائشة ان اردت اللحوق بي فليكفك من الدنيا كزاد الراكب و اياك و مجالسة الاغنياء ([15])

"اے عائشہ (رضی اللہ عنہا)! اگر تو مجھ سے ملنا چاہتی ہے تو تجھے دنیا سے سوار کے توشہ کی مانند کافی ہو اور دولت مندوں کی ہم نشینی سے بچتی رہو۔"

وجہ چہارم:

یہ وعیدِ نار ان لوگوں کے لئے ہے، جو ہمہ وقت دنیا کی حرص میں لذات و شہوات، فاخرانہ لباس اور بیش قیمت نفیس زیورات کے طلبگار، مال و دولت کے اسراف میں ایک دوسرے سے بڑھ کر مستغرق رہتے ہوئے دنیا کے لذائذ و ظرائف فراہم کرنے میں لگے رہتے ہیں، حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر شب و روز اسی میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں، اور خود کو فقراء و مساکین سے اعلیٰ تصور کرتے ہوئے بڑے نازاں و فرحاں رہتے ہیں اور دنیا کی رغبتوں میں اللہ و رسول کو بھول جاتے ہیں۔ اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے ایسے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا اور ان کی امت کو سنایا:

﴿ وَلا تَعدُ عَيناكَ عَنهُم تُريدُ زينَةَ الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا وَلا تُطِع مَن أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِنا وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ وَكانَ أَمرُهُ فُرُطًا ﴿٢٨﴾... سورة الكهف

"اور خبردار! تیری نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا، دیکھ اس شخص کا کہنا ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے۔"

عورتیں خصوصا خواہشات دنیاوی پر مرمٹتی ہیں اور سونے کے خوشنما زیورات پر جان چھڑکتی ہیں اور بھاری بیش قیمت زیور پر فریفتہ ہو جاتی ہیں۔ اس کی حرص میں مبتلا، شب و روز اس میں ایسی حواس باختہ رہتی ہیں کہ احسان فراموش ہو جاتی ہیں جیسا کہ بخاری میں ہے:

ويكفرن العشير و يكفرن الاحسان، لو احسنت الي احداهن الدهر ثم رات منك شيئا قالت: ما رايت منك خيرا قط (فتح الباری 1/83، احمد 1/298،359)

"خاوند کے احسان کا انکار کرتی ہیں اگر تم پوری عمر ان کے ساتھ احسان کرو پھر ذرا ناگواری پیدا ہو جائے تو فورا کہے گی میں نے تم سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔"

اور اسی مال کی کثرت ہی کی خواہش مند رہی ہیں:

گل خورشید ٹیکا ہو       قمرا کا ہو بازو کا

اور سونے کے زیور کی کم مقدار پر اکتفا نہیں کرتیں، بلکہ زیورات کی مختلف انواع و اقسام اور زیادہ سے زیادہ حصول کی خواہش کرتے ہوئے اسراف و اتراف میں گم ہو جاتی ہیں، مثلا جو زیور دو تین تولہ میں بن سکتا ہے اس پر خوش نہیں ہوتیں جبکہ پانچ چھ تولہ کا نہ بن جائے، حالانکہ زیور ایک تولہ کا ہو یا دو چار تولہ کا زیب و زیبائش میں مساوی ہے اس پر قناعت نہیں کرتیں، بلکہ متعدد الانواع زیورات سے زیب و زینت کی طلبگار رہتی ہیں۔ عورتوں کی اسی آرائشِ نقش و نگار کی بے تحاشا حرص کے پیش نظر پر تقی میر نے کہا ہے:

یار کی بالی کا جھمکا قدرت اللہ کی

عقد پروین کان میں زہرہ کی زیور ہو گیا

مزید فرمایا:

تیرے زیور کے نگین رات کو ایسے چمکے

ایک جگنی سے ہوئے سینکڑوں جگنو پیدا

بہرحال حس سے بڑھی ہوئی مال کی حرص و محبت آخرت سے غفلت و نسیان کا موجب ہے اور اسراف کی تعریف یہ ہے:

لتجاوز مالكم يكن في حقه ان يتجاوز

وہ اتنا حد سے بڑھا جتنا اسے بڑھنا روا نہ تھا

اور یہ عادت شرعا و عقلا مذموم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان میں عباد الرحمٰن کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے:

﴿ وَالَّذينَ إِذا أَنفَقوا لَم يُسرِفوا وَلَم يَقتُروا وَكانَ بَينَ ذ‌ٰلِكَ قَوامًا ﴿٦٧﴾... سورة الفرقان

"اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی، بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں۔"

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿وَأَنَّ المُسرِفينَ هُم أَصحـٰبُ النّارِ ﴿٤٣﴾... سورة المؤمن

"بےشک اسراف کرنے والے دوزخی ہیں۔"

وعن ابن عباس رضي الله عنه قال: كل ما شئت والبس ما شئت ما خطاتك اثنتان سرف و مخيلة  (رواہ البخاری، فتح الباری 10/252)

"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پیو، بشرطیکہ دو باتیں نہ ہوں (ایک) اسراف (دوسرا) تکبر، (بخاری)

وعن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: كانوا و اشربوا و تصدقوا والبسوا مالم يخالط اسراف ولا مخيلة  (رواہ احمد و النسائی و ابن ماجه 2/1192، فتح الباری 10/252)

"حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھاؤ اور پیو، صدقہ کرو اور پہنو، جب تک اسراف اور تکبر نہ ہو۔"

جب مباح چیز میں اسراف و تکبر پایا گیا تو وہ چیز شرعا ممنوع یعنی محظور لغيره ہوئی لعينه اور اسی حرص شدید پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تعس عبد الدينار و عبد الدرهم و عبد الخميصة. كما رواه البخاري عن ابي هريرة  (فتح الباری حدیث 2787، مصابیح السنه 3/416)

"ہلاک ہو جائے درہم و دینار کا بندہ اور خمیصہ (چادر) کا بندہ۔"

سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اسراف و اتراف کثیر پر " لبس الذهب الا مقطعا " (ماسوا کٹے ہوئے سونے کے پہننے) سے نہی کی ہے۔ کما رواہ النسائی۔

قال في النهاية: اراد الشيء اليسير و كره الكثير الذي هو عادة اهل السرف والخيلاء. انتهي كذا ذكر الشيخ جلال الدين السيوطي و شرح السنائي سلفيه 2/278

"نہایہ میں ہے کہ: اس سے آپ نے تھوڑی چیز مراد لی ہے اور مسرفین و متکبرین کی عادتِ تکثیر کو ناپسند کیا ہے۔"

اور اہل الحدیث کو بنظر اسناد اصل میں بھی کلام ہے اور اس کا بیان بالفعل تعذ رہے۔

امام نووی شرح مسلم نے باب قائم کیا ہے:

تحريم خاتم الذهب علي الرجال و نسخ ماكان من اباحته في اول الاسلام

"مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے کی حرمت اور ابتدائے اسلام میں اس کے جواز کے منسوخ ہونے کا بیان۔"

واجمع المسلمون علي اباحة خاتم الذهب للنساء واجمعوا علي تحريمه علي الرجال الا ما حكي عن ابي بكر بن محمد بن عمرو بن محمد بن حزم انه اباحه و عن بعض انه مكروه لا حرام و هذان النقلان باطلان قائلهما مجموعه بهذه الحديث التي ذكرها مسلم مع اجماع من قبله علي تحريمه مع قوله صلي الله عليه وسلم في الذهب والحرير: ان هذين حرام علي ذكور امتي حل لاناثها. انتهي (مسلم 2/195)

"اور مسلمانوں کا عورتوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننے کے جواز پر اجماع ہے اور وہ اس پر بھی متفق ہیں کہ وہ مردوں کے لئے حرام ہے۔ ماسوا ابوبکر بن عمر بن محمد بن حزم کے مخالف قول کے کہ انہوں نے اس کو مباح قرار دیا ہے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ وہ مکروہ تو ہے مگر حرام نہیں، اور یہ دونوں باتیں گزشتہ سطور میں مذکور ریشم و سونے کی حرمت سے متعلق فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب باطل ہیں کہ: یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام اور ان کی عورتوں کے لئے حلال ہیں۔"

اور ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ کی وعید سونے کا زیور پہننے پر نہیں فرمائی بلکہ اس افراط پر ہے جو کہ نمود و ریاء اور فخر و تکبر کا موجب بنتا ہو۔ وكم من شيء يكره او يحرم بمجاورة شيء آخر كما تقرر عند المحدثين والمجتهدين (کتنی ہی چیزیں کسی دوسری چیز کے اتصال سے مکروہ یا حرام ہو جایا کرتی ہیں) كما لا يخفي علي المتامل الماهر بالنصوص ۔ اور ہماری اس تحریر کی تائید میں محدث علامہ شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ اللہ البالغۃ میں رقمطراز ہیں:

اللباس والزينة والاواني و نحوها: اعلم ان النبي صلي الله عليه وسلم نظر الي عادات العجم و تعمقاتهم في الاطمنان بلذات الدنيا فحرم رؤسها و اصولها و كره مادون ذلك، لانه علم ان ذلك مفض الي نسيان الدار الآخرة، مستلزم للاكثار من طلب الدنيا، فمن تلك الرؤس اللباس الفاخر، فان ذلك اكبر همهم فخرهم والبحث عنه من وجوه منها.

الاسبال في القمص والسراويلات فانه لا يقصد بذلك الستر والتجمل اللذان هما المقصودان في اللباس وانما يقصد به الفخر و اراءة الغني ونحو ذلك. والتجمل ليس الا في القدر الذي يساوي البدن قال صلي الله عليه وسلم: لا ينظر الله يوم القيامة الي من جر ازارة بطرا. وقال صلي الله عليه وسلم: ازرة المؤمن الي انصاف ساقيه، ولا جناح عليه فما بينه و بين الكعبين وما اسفل من ذلك ففي النار.

ومنها: الجنس المستغرب الناعم عن الثياب، قال صلي الله عليه وسلم: من لبس الحرير في الدنيا لم يلبسه يوم القيامة.

ومنها: الثوب المصبوع بلون مطرب يحصل به الفخر والمروة فنهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن المعصفر والمزعفر، وقال: ان هذه من ثياب اهل النار.

والمذموم: الامعان في التكلف والمرائة والتفاخر بالثياب و كسر قلوب الفقراء. وفي الفاظ الحديث اشارات الي هذه المعاني، كما لا يخفي علي المتامل.

ومناط الاجر ردع النفس عن اتباع داعية الغمط والفخر ومن تلك الرؤوس الحلي المترفة وهنا أصلان: أحدهما: أن الذهب هو الذي يفاخر به العجم، ويفضي جريان الرسم بالتحلي به إلى الإكثار من طلب الدنيا والفضة، ولذلك شدد النبي صلي الله عليه وسلم في الذهب وقال: ولكن عليكم بالفضة والعبوا بها.

والثاني: ان النساء اخرج الي تزين ليوغب فيهن ازواجهن ولذلك جرت العادة العرب والعجم جميعا بان يكون تزينهن اكثر من تزينيهم، فواجب ان يرخص لهن اكثر مما يرخص لهم ولذلك قال صلي الله عليه وسلم: احل الذهب والحرير للاناث من امتي و حرم علي ذكورها. ما في حجة الله البالغة بقدر الحاجة 2/189،190)

لباس، زیبائش اور برتن وغیرہ:

جان لیجئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجمیوں کی عادات اور ان کا دنیا کی لذتوں سے اطمینان حاصل کرنے اور ان میں گہری دلچسپی لینے کے پیش نظر ان کے اصول و قواعد کو حرام اور اس کے علاوہ کو مکروہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ان کو معلوم تھا کہ، وہ آخرت کے بھولنے کا موجب ہے اور طلب دنیا کے حصول کی بہتات کو مستلزم ہے۔ سو ان اصول میں سے ایک فاخرانہ لباس ہے جو ان کے لئے باعثِ فخر اور ان کا مطمح نظر ہے اور اس کا باعث کئی ایک اسباب ہیں:

ان میں سے ایک قمیص اور شروال کو نیچے لٹکانا ہے، جس سے نہ پردہ اور نہ ہی تزیین مقصود ہوتی ہے جو کہ لباس کا اصل مطلوب ہے بلکہ اس سے مقصود فخر و مباہات اور اظہارِ ثروت وغیرہ ہوا کرتا ہے۔ اور تزئین و آرائش تو وہی اچھا لگتا ہے جو جسم کے مساوی ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اللہ تعالیٰ روز قیامت اس شخص کی طرف نظرِ رحمت سے نہ دیکھے گا جو اپنی تہہ بند کو تکبر سے گھسیٹ کر چلتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! مومن کی چادر پنڈلیوں کے درمیان تک ہوتی ہے اور اس میں کوئی حرج جبکہ وہ ٹخنے اور نصف پنڈلی کے مابین ہو اور جو اس سے نیچے ہو گی تو وہ حصہ دوزخ میں جائے گا۔

اور ان میں سے ایک: کپڑوں کی نرم و ملائم اور نادر قسم ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا میں ریشم پہنا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔

اور ان میں دوسرا: بھڑکیلے و شوخ رنگوں کا لباس ہے جس سے فخر و نخوت ٹپکتی ہو۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معصفر (زرد رنگ) اور مزعفر (زعفران سے رنگے ہوئے) لباس سے منع کیا ہے اور فرمایا: یہ دوزخیوں کا لباس ہے۔ اور مذموم صفت یہ ہے: تکلف و نخوت، فاخرانہ لباس اور فقراء کے دل توڑنے میں مبالغہ آرائی سے کام لینا، جس کا حدیث کے الفاظ میں مفہوم موجود ہے اور اجر کا دارومدار نفس کو حقارت و تکبر کے داعیہ کی اتباع سے روکنا ہے اور انہیں قواعد سے فاخرانہ زیورات بھی ہیں، جس کی دو وجوہ ہیں:

1۔ عجمی لوگ چاندی کو چھوڑ کر سونے پر فخر کرتے ہیں، جبکہ اس کا اظہار کرنا طلب دنیا کی کثرت کی طرف لے جانے والا ہے۔ اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے متعلق سختی کی ہے، اور فرمایا: چاندی کو پہنا کرو اور اس سے دل بہلاؤ۔

2۔ عورتوں کو اس سے اس لئے مستثنیٰ کیا تاکہ وہ اس سے اپنے شوہروں کے لئے زیبائش حاصل کریں۔ اور یہی طریقہ عرب و عجم میں مروج ہے، کیونکہ عورتوں کی تزئین مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ تو ضروری تھا کہ ان کو مردوں کی نسبت زیادہ رخصت دی جاتی۔ اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"سونا میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام کیا گیا ہے۔" (حجۃ اللہ البالغہ)

پس شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بحث سے بھی یہی واضح ہوا کہ بہت زیادہ اسراف و اتراف اور فخر و نمود، منہی عنہ اور دوزخ کی وعید کا موجب ہے، اور عدم اسراف و نمود اس وعید میں داخل نہیں ہے۔ كما لا يخفي علي المتامل الماهر بكلام الشيخ المحدث

اور جو روایات سونے کے پہننے کے متعلق ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہیں تو وہ تکثیرِ مزید و افراط پر محمول ہیں، چنانچہ جواز و عدم جواز کی احادیث کے مابین تطبیق دی جائے گی یا پھر عدمِ جواز والی روایات منسوخ تصور ہوں گی۔ جیسا کہ مندرجہ بالا امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ، ابن شاہین رحمۃ اللہ علیہ، نووی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں سے واضح ہے۔ لیکن شاہ صاحب اکثار کو فتویٰ سے ہٹ کر تقویٰ کی بنا پر منع کرتے ہیں کہ اجماع مسلمین کی مخالفت مستلزم نہ ہو۔ اسی طرح مولانا (شاہ) محمد اسماعیل شہید (رحمۃ اللہ علیہ) کی بحث بھی تقویۃ الایمان میں فتویٰ کی بجائے تقویٰ کی بنیاد پر ہے، کیونکہ تردیدات، تشکیکات اور منویعات کی ایک گونہ توجیہ کرتے ہوئے حتما وعیدِ نار تو نہیں ہو سکتی ہاں حدیث کے ظاہری اعتبار سے تو ممکن ہے، لیکن واضح نسخ ناممکن ہے۔

مولانا موصوف علیہ الرحمہ، ابوداؤد کی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے کی بالی، نتھ، ہار، کنگن، چوڑیاں اور کینٹھی عورتوں کو پہننا حرام ہے، مگر دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو سونا پہننا جائز ہے اور مردوں کے لئے دونوں کا استعمال حرام ہے، خواہ دونوں مخلوط ہوں یا علیحدہ علیحدہ، تو اس مضمون کو یوں سمجھا جا سکتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ چاندی کا زیور عورتوں کو پہننا مطلقا پہننا درست ہے اور اگر صرف سونا جیسے کڑے، کینٹھی، بالیاں اور نتھ ہو تو وہ نا درست ہے اور اگر میں چاندی ملی ہوئی ہو یا ملمع ہو یا جڑاؤ ہو تو جائز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ سونا بھی مطلق مباح ہے، مگر اس کا استعمال اچھا نہیں جیسے طلاق جائز ہے مگر اچھی نہیں یا یہ حدیث اس زیور کے حق میں ہے جس کی زکاۃ نہ دی جائے ۔۔۔ الخ (تقویۃ الایمان)

تو مولانا ممدوح کے نزدیک بھی توجیہات ثلاثہ کی بنا پر تقویٰ کی وجہ سے اچھا نہیں۔ فاذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال كما لا يخفي

ابوداؤد کی وعیدِ ناز والی احادیث کی اسنادی حیثیت:

واضح رہے کہ ابوداؤد میں وعیدِ نار والی احادیث میں بنظرِ اسناد کلام ہے:

پہلا طریق:

حدثنا عبدالله بن مسلمة حدثنا عبدالعزيز يعني ابن محمد عن اسيد بن ابي اسيد البراد عن نافع ابن عباس عن ابي هريرة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: من احب ان يحلق حبيبه حلقة من نار فليحلقه حلقة من ذهب، ومن احب ان يسور حبيبه سوارا من نار فليسوره سوارا من ذهب، ولكن عليكم بالفضة فالعبوا بها (ابوداؤد 2/225، مشکوٰة 2/1256 البانی۔ اسید، قلیل الحدیث، تهذیب 1/344)

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو کوئی یہ پسند کرے کہ اپنے دوست کو آگ کا کڑا پہنائے تو وہ اسے سونے کا کڑا پہنا دے، اور جو پسند کرے کہ اپنے دوست کو آگ کا کنگن پہنا دے تو وہ اسے سونے کا کنگن پہنا دے اور لیکن تم چاندی سے دل بہلاؤ۔"

اس طریق میں عبدالعزیز اگرچہ صدوق تھا، لیکن کتب غیر سے روایت کرتا تھا اور خطا واقع ہوتی تھی جیسا کہ تقریب میں ہے:

عبدالعزيز بن محمد صدوق و كان يحدث عن كتب غيره و يخطي، وقال النسائي حديثه عن عبيدالله العمري منكر من الثامنة (التقريب 328) "عبدالعزیز بن محمد صدوق ہے لیکن کتب غیر سے حدیث بیان کرتا اور غلطی کرتا تھا۔ امام نسائی نے کہا، اس کی حدیث عبیداللہ العمری سے منکر ہے، طبقہ ثامنہ میں سے ہے۔"

و اسيد بن ابي اسيد البراد من الخامسة مات في اول خلافة منصور (التقريب 347)

اور یہاں ([16]) عبدالعزیز بن محمد کی اسید بن ابی اسید سے روایت معنعن ہے ان کی ملاقات کا ثبوت درکار ہے خواہ ایک ہی مرتبہ ہو تو انقطاع محتمل ہے، سو خطا اور انقطاع کے احتمال کے سبب روایت قابل احتجاج نہیں رہی۔

دوسرا طریق یہ ہے:

حدثنا مسدد ابو عوانة عن ربعي بن حراش عن امراته عن اخت لحذيفة ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: يا معشر النساء اما لكن في الفضة ما تحلين به اما انه ليس منكن امرءة تحلي ذهبا تظهره الا عذبت به. انتهي (ابوداؤد 4/436، نسائی 8/157، مسند احمد 6/357، مصابیح 3/210 قال الالبانی فی اسنادہ ضعف، مشکوٰة 2/1257)

"ربعی بن حراش رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ سے روایت کی ہے کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! کیا تم چاندی کا زیور نہیں بنا سکتیں۔ دیکھو! جو عورت سونے کا زیور پہن کر اس کا اظہار کرے تو اسے عذاب ہو گا۔"

اس روایت میں ربعی بن حراش کی بیوی مجہول الاسم والعدالہ والضعف ہے۔

تقریب میں ہے:

ربعي بن حراش عن امرءته لم اقف علي اسمها. (كذا في التقريب)

 "ربعی بن حراش اپنی جس بیوی سے روایت کرتا ہے میں اس کے نام سے واقف نہیں ہو سکا۔"

نسائی کی حدیث کی اسنادی حیثیت:

سنن نسائی میں حدیث کے دو طریق ہیں:

اخبرنا اسحاق بن شاهين الواسطي قال اخبرنا خالد بن مطرف و اخبرنا احمد بن حرب قال اخبرنا اسباط عن مطرف عن ابي الجهم عن ابي زيد عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: كنت قاعدا عند النبي صلي الله عليه وسلم فاتته امرءه، فقالت يا رسول الله سواران من ذهب قال: سواران من نار، قالت يا رسول الله طوق من ذهب، قال طوق من نار، قالت قرطان من ذهب قال: قرطان من نار، قال وكان عليها سواران من ذهب فرمت بهما ... الخ ما في النسائي (سلفیه 2/278)

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ، ایک عورت آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! سونے کے دو کنگن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ کے دو کنگن ہیں، کہنے لگی یا رسول اللہ! سونے کا ایک گلوبند ہے۔ فرمایا: آگ کا طوق ہے، کہنے لگی، سونے کی دو بالیاں ہیں۔ فرمایا: آگ کی دو بالیاں ہیں۔ کہا، اس نے سونے کے دو کنگن پہن رکھے تھے تو اس نے دونوں کو پھینک دیا۔"

ان دونوں طرق میں ابو زید راوی مجہول ہے۔ تقریب میں ہے:

ابو زيد شيخ لابي الجهم مجهول من الثالثة  (تقریب 577، فاروقی طبع ملتان)

"ابو الجہم کا شیخ ابو زید مجہول ہے جو کہ طبقہ ثالثہ سے ہے۔"

تو یہ دونوں طرق قابل اعتماد نہ رہے کیونکہ مجہول راوی سے حدیث کی سند ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے۔ كما لا يخفي علي الماهر. لهذا الفن

امام نسائی کا سند سے وہم کا ازالہ

بعض علماء نے عورتوں کے لئے سونے کی حلت کی حدیث میں بسبب جہالت راوی مابین یزید بن ابی حبیب اور علی کے کلام کیا ہے وہ محض وہم ہے کیونکہ نسائی نے خود اس وہم کو دفع کیا ہے:

تحريم الذهب علي الرجال ....

اخبرنا قتيبه قال حدثنا الليث عن يزيد بن ابي حبيب عن ابي افلح الهمداني عن ابي زرير انه سمع علي رضي الله عنه بن ابي طالب يقول: ان نبي الله صلي الله عليه وسلم اخذ حريرا فجعله في يمينه واخذ ذهبا فجعله في شماله ثم قال: ان هذين حرام علي ذكور امتي  (سلفیه 2/278)

"حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم لیا اور اس کو اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑا اور سونا لیا اور اسے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا پھر فرمایا: یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔"

اخبرنا عيسيٰ بن حماد اخبرنا الليث عن يزيد بن ابي حبيب عن ابي الصعبة عن رجل من همدان يقال له ابو صالح عن ابي زرير انه سمع علي بن ابي طالب يقول: ان رسول الله صلي الله عليه وسلم اخذ حريرا فجعله في يمينه واخذ ذهبا فجعله في شماله ثم قال: ان هذين حرام علي ذكور امتي (نسائی سلفیه 2/278)

اخبرنا محمد بن حاتم فقال حدثنا حبان قال اخبرنا عبدالله عن ليث بن سعد قال حدثني يزيد بن ابي حبيب عن ابي الصعبة عن رجل من همدان يقال له افلح عن ابي زرير انه سمع عليا رضي الله عنه يقول: ان نبي الله صلي الله عليه وسلم اخذ حريرا فجعله في يمينه واخذ ذهبا فجعله في شماله ثم قال: ان هذين حرام علي ذكور امتي (سلفیه 2/278)

قال ابو عبدالرحمٰن و حديث ابن المبارك اوليٰ بالصواب الا قوله افلح، فان ابا افلح اشبه.

اخبرنا عمرو بن علي قال حدثنا يزيد بن هارون قال اخبرنا محمد بن اسحاق عن يزيد بن ابي حبيب عن عبدالعزيز بن ابي افلح الهمداني عن عبدالله بن زرير الغافقي قال سمعت عليا يقول: اخذ رسول الله صلي الله عليه وسلم ذهبا في شماله و حريرا في يمينه فقال: حرام علي ذكور امتي. (سلفیه 2/278)

اخبرنا علي بن الحسين الدرهمي قال حدثنا عبدالاعلٰي عن سعيد عن ايوب عن نافع عن سعيد بن ابي هند عن ابي موسيٰ ان رسول الله صلي الله عليه وسلم، قال: احل الذهب والحرير لاناث امتي و حرم علي ذكورها. (سلفیه 2/278، مشکوٰة/1254، البانی)

واضح ہو کہ حدیث متعدد صحیح طرق سے مروی ہے۔ كما لا يخفي علي الماهر

عدم جواز پر استدلال اور اس کا جواب:

بعض لوگ حدیث " نهي عن لبس الذهب الا مقطعا " سے عورتوں کو سونا پہننے کے عدم جواز پر استدلال کرتے ہیں، اس کا جواب تین طرح سے ہے:

اول:

اس کے رواۃ کا حال معلوم نہیں تاکہ ان کی ثقاہت اور عدم ثقاہت کے سبب اس پر صحت اور عدم صحت کا حکم لگا کر دلیل لی جا سکے۔

دوم:

اگر اس کی صحت تسلیم بھی کر لی جائے تو یہ نہی عورتوں کے لئے نہیں، جیسا کہ ابوداؤد نے سمجھا، بلکہ یہ مردوں کے لئے ہے، جیسا کہ امام نسائی نے سمجھا۔ اور اس حدیث کو " باب تحريم الذهب علي الرجال " میں لائے ہیں، اور ہمارے قول کی دوسری دلیل نسائی کی روایت ہے: " نهي لبس الحرير يعني والذهب الا مقطعا " کیونکہ ریشم کی نہی تو خاص مردوں کے لئے ہے اور عورتوں کو حلال ہے، جس کے لئے بخاری و مسلم کی صحیح احادیث اس کی دلیل میں اور سونے کی نہی کی بھی دلیل جو اس پر معطوف ہے مردوں سے مخصوص ہو گی۔

اور " مقطعا " کے معنی: ریزہ ریزہ کرنا ہے۔ یعنی کپڑوں پر جو سونے کے ستارے اور ریشم کے ٹکڑے لگاتے ہیں۔ مرقاۃ میں ہے:

الا مقطعا، بفتح الطاء المشددة اي مكسرا قطعا صغارا مثل الضباب علي الاسلحة والخواتيم الفضية و اعلام الثياب، كذا ذكره بعض الشراح. (مرقاۃ 8/276)

"طائے مشدد کی فتح کے ساتھ، یعنی چھوٹے چھوٹے قطعات میں توڑا ہوا، جیسے اسلحہ کی کنڈیاں، چاندی کی انگوٹھیاں اور کپڑوں پر نقوش۔"

سوم:

اگر نہی کو عورتوں کے حق میں تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ نہی احتیاط و تنزیہ پر مبنی ہو گی کہ تھوڑی چیز انگوٹھی وغیرہ کی مانند پر قناعت کریں اور زیادہ حرص نہ کریں جیسا کہ اسے بڑی بسط و تفصیل سے ثابت کیا گیا ہے۔ اور مندرجہ بالا صحیحہ بہت سی احادیث نهي سے صارف عن التحريم ہیں۔ وہ بھی اس وقت جبکہ نہی کو عورتوں کے حق میں تسلیم کرنا فرض کیا جائے، ورنہ اصل بات وہی ہے کہ نہی مردوں کے لئے خاص ہے جیسا کہ نسائی کی روایت سے ثابت ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ اس تحریر کی تکمیل کے بعد ابو داؤد کی شرح ابن قیم بھی مل گئی ہے اس شرح سے بھی تحریر بالا کی تائید و ترمیم ہو گی:

باب في الذهب للنساء

"عورتوں کو سونا پہننے کا بیان۔ اور حدیث بیان کی گئی ہے:

ايما امراة جعلت في اذنها خرصا من ذهب، ثم قال المنذري واخرجه النسائي قال ش، قال القطان: وعلة هذا الخبر ان محمود بن عمرو راويه عن اسماء مجهول الحال وان كان قد روي عنه جماعة. و روي النسائي عن ابي هريرة قال كنت قاعدا عند النبي صلي الله عليه وسلم فاتته امرءة فقالت يا رسول الله سواران من ذهب قال: سواران من نار، قالت طوق من ذهب، قال: طوق من نار، قالت قرطين من ذهب، قال: قرطين من نار، قال وكان عليها سواران من ذهب فرمت بهما. فقالت يا رسول الله، ان المراة اذا لم تتزين لزوجها صلفت عنده، فقال: ما يمنع احدا كن ان يصنع قرطين من فضة ثم تصفره بزعفران او بعير. قال ابن القطان و علته ان ابا زيد راويه عن ابي هريرة مجهول لا يعرف روي عنه غير ابي الجهم ولا يصح هذا. (نسائی 2/137)

"جو کوئی عورت اپنے کان میں سونے کا چھلہ ڈالے ۔۔۔ پھر منذری نے کہا کہ اس کو نسائی نے روایت کیا شارح کہتے ہیں کہ ابن القطان نے کہا: اس روایت کی علت یہ ہے کہ محمود بن عمرو "اسماء" سے روایت کنددہ مجہول الحال ہے، اگرچہ اس سے ایک جماعت نے روایت کی ہے۔ امام نسائی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے دو کنگن! آپ نے فرمایا: آگ کے دو کنگن ہے، کہنے لگی سونے کے گلوبند ہیں، فرمایا: آگ کا طوق ہے۔ کہنے لگی! سونے کی دو بالیاں ہیں، فرمایا: آگ کی دو بالیاں ہیں۔

راوی کہتے ہیں اس کے پاس سونے کے جو دو کنگن تھے اس نے ان کو پھینک دیا اور کہنے لگی یا رسول اللہ! اگر عورت اپنے شوہر کے لئے سنگار نہ کرے تو اس کے ہاں بے وقعت ہو جاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں کون سی چیز مانع ہے کہ وہ چاندی کی دو بالیاں بنوائے، پھر اسی زعفران کے پانی سے یا خوشبو سے رنگ لے۔ ابن القطان کہتے ہیں اس کی علت یہ ہے کہ: ابو زید جو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کنددہ ہے وہ مجہول ہے اس سے ابو الجہم کے علاوہ نے روایت کیا ہے اور یہ صحیح نہیں۔"

وفي النسائي: عن ثوبان قال جاءت بنت هبيرة الي رسول الله صلي الله عليه وسلم وفي يدها فتخ فقال! كذا في كتاب ابي اي خواتيم ضحام فجعل رسول الله صلي الله عليه وسلم يضرب يدها فدخلت علي فاطمة تشكوا اليها الذي صنع بها رسول الله صلي الله عليه وسلم فانتزعت فاطمة سلسلة في عنقها من ذهب قالت هذه اهداها ابو حسن فدخل رسول الله صلي الله عليه وسلم والسلسة في يدها، فقال: يا فاطمة ايغرك ان يقول الناس ابنة رسول الله صلي الله عليه وسلم وفي يدها سلسة من نار. ثم خرج ولم يقعد، فاخرجت فاطمة بالسلسة الي السوق فباعتها واشترت بثمنها غلاما وقال مرة و ذكر كلمة معناها فاعتقته فحدث بذلك فقال: الحمدلله الذي انجي فاطمة من النار. (نسائی 8/136، السیوطی رحمة الله علیه)

"نسائی میں ہے: ثوبان سے مروی ہے کہ ھبیرہ کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ میں موٹے چھلے تھے۔ سو وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا (یعنی جو اس کے ہاتھ پر مارا تھا) اس کا گلہ کیا، تو فاطمہ نے اپنے گلے میں پہنی ہوئی سونے کی زنجیر کو اتار پھینکا، اور کہا: یہ مجھے ابو حسن (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) نے ہدیہ دیا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر اور اس کے ہاتھ میں آگ کی زنجیری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے اور بیٹھے نہیں تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس زنجیری کو بازار بھیجا اور فروخت کر دیا اور اس کی قیمت کا ایک غلام خرید لیا۔ آپ نے لفظ "غلام" کہا یا "عبد" یا اس قسم کا کوئی اور لفظ ذکر کیا، اور آپ رضی اللہ عنہا نے اس کو آزاد کر دیا، اور پھر یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آگ سے نجات دے دی۔"

قال ابن القطان: و علته ان الناس قد قالوا ان رواية يحييٰ قد قال حدثني ابن سلام، وقد قيل انه دلس ذلك و لعله كان اجازة زيد بن سلام فجعل يقول حدثنا زيد.

"ابن القطان نے کہا: اس کی علت یہ ہے جو کہ لوگوں نے بیان کی ہے کہ یحییٰ کی روایت ابن سلام سے منقطع ہے اور اس بنا پر بھی کہ یحییٰ نے کہا " حدثني ابن سلام " اور یہ بھی کہا گیا کہ اس نے اس میں تدلیس کی ہے اور ممکن ہے کہ وہ زید بن سلام کی طرف سے "اجازۃ" ہو اور اس نے " حدثنا زيد " کہنا شروع کر دیا۔"

في النسائي ايضا:

عن عقبة بن عامر ان النبي صلي الله عليه وسلم كان يمنع اهله والحلية الحرير ويقول: ان كنتم تحبون حلية الجنة و حريرها فلا تلبسوها في الدنيا (نسائی 8/135)

اور نسائی میں ہے:

"حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کو ریشم و زیور سے منع کرتے تھے اور فرماتے: اگر تم جنت کا ریشم و زیور پسند کرتے ہو تو اسے دنیا میں مت پہنو۔"

فاختلف الناس في هذه الاحاديث والله كلمت عليهم فطائفة سلكت بها مسلك الضعيف و عللها كلها كما تقدم.

"سو لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے اور بخدا انہوں نے ان روایت میں کلام کیا ہے: ایک جماعت نے تو ضعیف کہتے ہوئے تمام روایات کو معلول قرار دیا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔"

وطائفة ادعت ان ذلك كان في اول الاسلام ثم نسخ، واحتجت بحديث ابي موسيٰ ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال حرم لباس الحرير والذهب علي ذكور امتي و احل لاناثهم، قال الترمذي حديث صحيح، و رواه ابن ماجة في سننه من حديث علي و عبدالله بن عمرو عن النبي صلي الله عليه وسلم (ترمذی 4/317)

"اور ایک جماعت نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا۔ اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سونا اور زیور میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور ان کے مردوں کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے۔ ترمذی نے کہا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت علی و عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعا روایت کیا ہے۔"

وطائفة حملت احاديث الوعيد علي من لم يود زكوة حليها، فاما من ادته فلا يلحقها هذا الوعيد، واحتجوا بحديث عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان امرءة اتت رسول الله صلي الله عليه وسلم و معها ابنتها وفي يد ابنتها مسكتان غليظتان من ذهب فقال لها: تعطين زكوة هذا؟ قالت، لا! قال: ايسرك ان يسورك الله بهما يوم القيامة سوارين من نار، فخلعتهما و القتهما الي النبي صلي الله عليه وسلم قالت، هما لله و رسوله.

وبما روي ابو داؤد عن ام سلمة قالت كنت البس او ضاحا من ذهب فقلت يا رسول الله اكنز هو؟ فقال: ما بلغ ما تودي زكوته فتزكي فليس بكنز. وهذا من افراد ثابت بن عجلان والذي قبله من افراد عمرو بن شعيب (ابوداؤد 2/212، بیهقی 4/140، نصب الرایه 2/371)

"ایک جماعت نے احادیث وعید کو اس پر محمول کیا ہے کہ جو اپنے زیور کی زکاۃ نہ ادا کرتا ہو، اور جو کوئی زکاۃ ادا کرے وہ اس وعید میں شامل نہ ہو گا۔ اور انہوں نے حضرت عمرو بن شعیب کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی اور اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن پہنے ہوئے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ان کی زکوۃ دیتی ہو؟ کہنے لگی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے پسند ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ روز قیامت ان کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنا دے؟ تو اس نے ان دونوں کو اتارا اور آپ کو دئے دئیے اور کہا: یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں۔

اور دوسری روایت جو ابوداؤد میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: میں سونے کے پازیب پہنا کرتی تھی، میں نے کہا اللہ کے رسول کیا یہ خزانہ ہے؟ آپ نے فرمایا: جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس کی زکاۃ ادا کرو تو وہ کنز (خزانہ) نہیں ہے۔ یہ ثابت بن عجلان اور اس سے ماقبل وہ عمرو بن شعیب کے تفردات میں سے ہے۔"

في اسناده عتاب بن بشير ابو الحسن الحراني قد اخرج له بخاري و تكلم فيه غير واحد وطائفة من اهل الحديث حملت احاديث علي من اظهرت حليتها وتبرجت بها دون من تزينت بها لزوجها، وبه قال النسائي في سننه وقد ترجم علي ذلك “الكراهة للنساء في اظهار الحلي والذهب” ثم ساق احاديث الوعيد والله اعلم (ابوداؤد 2/213)

"محدثین کے ایک گروہ نے احادیث وعید کو اس پر محمول کیا ہے کہ، جو اپنے شوہر کے علاوہ زیور کے سنگار کا اظہار کرے اس طرح کا موقف امام نسائی نے بھی اپنی سنن میں اختیار کا ہے۔ اور انہوں نے عورتوں کے لئے زیور اور سونے کے اظہار کرنے کی کراہت پر باب قائم کیا ہے، پھر اس کے ساتھ وعید کی احادیث ذکر کی ہیں۔" واللہ اعلم

ثم ذكر حديث ميمون القنادر فيه، نهي عن لبس الذهب الا مقطعا الي قول المنذري. ففيه الانقطاع في موضعين ثم قال

"پھر انہوں نے میمون القنادر کی " نهي عن لبس الذهب الا مقطعا " روایت منذری کے قول تک ذکر کی ہے جس میں دو جگہ انقطاع ہے۔" پھر کہا:

وقد رواه النسائي من بيهس بن فهدان عن ابي شيخ الهنائي عن معاوية وقد تقدم الكلام علي هذا الاسناد في الحج، و رواه عن ابي شيخ عن ابي حمان انه سمع معاوية. و رواه النسائي ايضا من حديث بيهس بن فهدان اخبرنا ابو شيخ قال سمعت ابن عمر قال نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن لبس الذهب الا مقطعا، وقد روي في حديث آخر احتج به احمد في رواية الاثرم: من تحلي بخربصيصة كوي بها يوم القيامة. فقال الاثرم: فقلت اي شيء خربصيصة؟ قال شيء صغير مثل الشعيرة، وقال غيره: من عين الجرادة. وسمعت شيخ الاسلام يقول: حديث معاوية في اباحة الذهب مقطعا هو في التابع غير الفرد كالذر والعلم ونحوه. و حديث الخربصيصة هو في الفرد كالخاتم وغيره فلا تعارض بينهما، والله اعلم. انتهي (معالم السنن 6/125 تا 128)

"اور اس کو نسائی نے بیھس بن فھدان، ابو شیخ النہائی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی سند کے بارے میں "حج" میں کلام گزر چکی ہے، اور اس کو ابو شیخ، ابو حمان نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور اس کو نسائی نے بھی بیھس بن فھدان سے روایت کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے ماسوا ٹکڑے ٹکڑے کے، یعنی تھوڑا۔ ایک اور دوسری حدیث سے بھی جو اثرم کی روایت ہے احمد نے استدلال کیا ہے کہ جس نے خربصیصہ پہنا روزِ قیامت اسے اسی سے داغ دیا جائے گا۔ اثرم کہتے ہیں میں نے کہا وہ خربصیصہ کیا ہے؟ کہنے لگے وہ ایک چھوٹی سی چیز جو کی مانند ہے۔ بعض نے کہا وہ چھوٹی سی چیز، ٹڈی کی آنکھ کی مثل ہے۔ اور میں نے شیخ الاسلام سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سونے کے ایسے قطعات کی اباحت کے بارے میں ہے جو کہ منفرد چیز کے تحت ضمنا استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ بٹن اور نفوش وغیرہ، اور خربصیصہ والی روایت منفرد اشیاء کے بارہ میں ہے جس طرح کہ انگوٹھی وغیرہ۔ سو ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔"


[1] فتح الرحمٰن: 590

[2] 304 طبع فاروقی ملتان

[3] الدر المنثور 7/370

[4] التفسیر الکبیر مختصرا 7/426

[5] ابن عباس: 219 طبع ملتان

[6] ابوداؤد 4/330 حدیث: 4057، ابن ماجہ حدیث 3595، نسائی 8/138، مسند احمد 1/96

[7] ابوداؤد البانی 2/765، ابن حبان 12/250، احمد 1/95/115، نیل 2-87 نسائی 8/138، ابن ماجہ حدیث 3595

[8] شرح السنۃ 12/70

[9] نسائی 8/135 حاشیہ

[10] ابن ماجہ 2/1192، احمد 2/139، ابوداؤد 4/314، مصابیح السنہ 3/198

[11] مسلم 1/93، مسند احمد 4/133، 134، 151، مصابیح 3/402

[12] رواہ ابوداؤد 5/138، مصابیح السنہ 3/198 والترمذی 4/650 کذا فی المشکوۃ

[13] ما فی النسائی 2/277 (سلفیہ) مختصرا بقدر الحاجۃ

[14] النسائی 8-135 السیوطی، فتح الربانی 17/267، مشکوٰۃ 2/1275

[15] رواہ الترمذی 4/245، حاکم 4/312، مصابیح السنہ 3/197 کما فی المشکوۃ

[16] عبدالعزیز بن محمد کی معنعن روایت اس وقت غیر معتبر ہو گی جبکہ متہم بالقدلیس ہو، لیکن عبدالعزیز مذکور مدلس نہیں ہے (تقریب) نیز شیخ البانی نے اسے صحیح ابوداؤد ج 2/3565 میں "حسن" کہا ہے۔ اور اس کے مزید متابعات آداب الزقاف ص 133 میں نقل کئے ہیں۔ (خلیق)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:259

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ