سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(20) جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد سنتوں کے پڑھنے کا حکم

  • 23987
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 3578

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین اس مسئلہ کے متعلق فرمائیں کہ نمازِ فجر کی فرض جماعت کے کھڑے ہو جانے کے بعد دو رکعت سنتِ فجر مسجد کے اندر خواہ صف کے قریب ہو یا دور پڑھنا مکروہ ہے یا نہیں؟ حنفی کتب کی معتبر کتب سے اردو زبان میں جواب تحریر فرمائیں، اور اس باب میں کوئی صحیح حدیث کراہت یا عدم کراہت پر وارد ہوئی ہے یا نہیں؟ بیان فرمائیں ثواب پائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جماعت قائم ہونے کے بعد سنتیں پڑھنے کا عدم جواز:

(فقہاء کی نظر میں)

جب مسجد میں جماعت قائم ہو تو اس کے بعد فجر کی سنتیں مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے خواہ صف کے پاس پڑھے یا دور، دونوں صورتوں میں مکروہ ہیں، کیونکہ اس میں یہ مخالفت پائی جاتی ہے کہ امام جماعت کرا رہا ہے اور یہ شخص جماعت سے علیحدہ سنتیں پڑھ رہا ہے۔ جیسا کہ ہدایہ، فتح القدیر حاشیہ ہدایہ، درمختار، فتاویٰ دلواجیہ، فتاویٰ عالمگیری اور محیط رضوی سے سمجھا جاتا ہے، جہاں ہدایہ فقہ حنفی کی بہت معتبر کتاب ہے وہاں فتح القدیر بھی معتبر ہے جو کہ علمائے احناف پر مخفی نہیں ہے اور صف کے قریب سنتیں پڑھنے میں اشد کراہت ہے جیسا کہ جہلاء کا اس پر عمل درآمد ہے۔ ایسا ہی فتح القدیر میں ہے، اور کراہت کی دلیل بموجب حدیث ہے۔ حدیث آئندہ ذکر ہو گی۔ ہدایہ کی عبارت درج ذیل ہے:

ومن انتهي الي الامام في صلوة الفجر وهو لم يصل ركعتي الفجر ان خشي ان تفوته ركعة و يدرك الاخري يصلي ركعتي الفجر عند باب المسجد ثم يدخل وان خشي فوتهما دخل مع الامام لان ثواب الجماعة اعظم والوعيد بالترك الزم والتقيد بالاداء عند باب المسجد يدل علي الكراهة في المسجد اذا كان الامام في الصلاة. (ھدایہ 1/152، فتح القدیر ابن ھمام 1/339)

"جو شخص مسجد میں آیا اور امام جماعت کرا رہا ہے اور آنے والے نے فجر کی سنت نہیں پڑھی تو اگر اسے اندیشہ ہو کہ ایک رکعت نکل جائے گی اور دوسری رکعت مل جائے گی تو فجر کی سنت اگر جگہ ملے تو مسجد کے دروازہ کے نزدیک ادا کر کے جماعت میں مل جائے اور اگر یہ خدشہ ہو کہ سنتیں ادا کرنے میں فرض کی دونوں رکعتیں جماعت سے فوت ہو جائیں گی تو جماعت میں شامل ہو جائے اور سنتیں چھوڑ دے اس لئے کہ جماعت کا ثواب بہت زیادہ ہے اور اس کے ترک سے سخت وعید لازم آتی ہے اور سنت کے ادا کرنے میں مسجد کے دروازے کے نزدیک کی شرط سنتوں کے مسجد میں ادا کرنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے جبکہ امام جماعت کرا رہا ہے۔"

اور ایسا ہی فتح القدیر اور درمختار وغیرہ کا مفہوم ہے اور "دروازہ مسجد سے نزدیک" سے مراد خارج مسجد ہے۔ یعنی مسجد کے دروازہ سے قریب مسجد سے باہر اگر کوئی جگہ ہو تو وہاں سنت ادا کر کے جماعت میں شامل ہو جائے اور اگر کوئی جگہ نہ ہو تو فرض جماعت میں مل جائے اور مسجد میں سنت ادا نہ کرے کہ مسجد کے اندر سنت ادا کرنے میں کراہت لازم آئے گی، کیونکہ ادائیگی سنت پر مکروہ کا ترک کر دینا مقدم ہے، جیسا کہ فتح القدیر درمختار وغیرہ سے صاف معلوم ہو رہا ہے۔

قوله: والتقيد بالاداء عند باب المسجد يدل علي الكراهة في المسجد اذا كان الامام في الصلاة لما روي عند عليه الصلاة والسلام “اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة” و لانه يشبه المخالفة للجماعة والانتباز عنهم فينبغي ان لا يصلي في المسجد اذا لم يكن عند باب المسجد مكان لان ترك المكروه مقدم علي فعل السنة غير ان الكراهة تتفاوت فان كان الامام في الصيفي وعكسه اشد ما يكون كراهية ان يصليها مخالطا للصف كما يفعله كثير من الجهلة (فتح القدير)

واذا خاف فوت ركعتي الفجر لاشتغاله بسنتها تركها لكون الجماعة اكمل و الا بان رجا ادراك ركعة في ظاهر المذهب و قبل التشهد و اعتمده المصنف والشرنبلاني تبعا للبحر لكن ضعفه في النهر لا يتركها بل يصليها عند باب المسجد ان وجد مكانا و الا تركها لان ترك المكروه مقدم علي فعل السنة. (درمختار)

قوله: عند باب المسجد اي خارج المسجد كما صرح به القهستاني (كذا في الشامي) يصلي ركعتي الفجر عند باب المسجد ثم يدخل وان خشي فوفتهما ادخل مع الامام (عالمگيرية 1/120)

وذكر الولوالجي امام يصلي الفجر في المسجد الداخل فجاء رجل يصلي الفجر في المسجد الخارج، اختلف المشائخ فيه: قال بعضهم لا يكره وقال بعضهم يكره لان ذلك كله كمكان واحد بدليل جواز الاقتداء لمن كان في المسجد الخارج من كان في المسجد الداخل واذا اختلف المشائخ فالاحتياط ان لا يفعل. (انتهي بحر الرائق 2/48)

"مسجد کے دروازے کے پاس سنت فجر ادا کرنے کی شرط مسجد میں ادا کرنے کی کراہت پر دلالت کرتی ہے امام جبکہ جماعت کروا رہا ہو۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ: جب نماز (جماعت) کھڑی ہو جائے یعنی جب مؤذن اقامت شروع کرے تو اس وقت نماز پڑھنی درست نہیں ماسوا فرض نماز کے" اور اس لئے کہ وہ جماعت سے مخالفت اور ان سے علیحدگی کے مشابہ ہے، تو جب مسجد کے دروازہ کے پاس جگہ نہ ہو تو لازمی ہوا کہ مسجد میں (سنت) نماز نہ پڑھی جائے اس لئے مکروہ کا ترک کرنا سنت کے عمل پر مقدم ہے۔ البتہ کراہت میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ سو امام کی سرما کی نماز گرما کی نماز سے خفیف ہو گی اور اس کے برعکس کراہت شدت اختیار کر جائے گی جبکہ نماز صف ہی میں کھڑے ہو کر پڑھے گا جیسا کہ بیشتر جاہل ایسا کرتے ہیں۔ (فتح القدیر)

اور جب دو سنتوں کے پڑھنے سے نمازِ فجر کی دونوں رکعتوں کے نکل جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں ترک کر دے اس لئے کہ جماعت زیادہ کامل ہے، وگرنہ ظاہرا مذہب میں اسے ایک رکعت کے پائے جانے اور تشہد سے قبل کی توقع ہو، مصنف اور شرنبلانی نے بحر کی پیروی میں اسی پر اعتماد کیا ہے لیکن اسے "النہر" میں ضعیف قرار دیا ہے اس لئے کہ مکروہ کا ترک کرنا سنت کے عمل پر مقدم ہے، (درمختار) قولہ: "مسجد کے دروازے کے پاس" یعنی مسجد سے باہر جیسا کہ قھستانی نے تصریح کی ہے (شامی) فجر کی دو سنتیں مسجد کے دروازے کے پاس ادا کرے گا پھر اندر چلا جائے (عالمگیری)

اور ولوالجی نے ذکر کیا ہے کہ: امام مسجد کے اندر فجر کی نماز پڑھا رہا ہو تو ایک شخص آ کر مسجد کے باہر فجر ادا کرے، مشائخ کا اس میں اختلاف ہے: بعض نے کہا مکروہ نہیں ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ ہے۔ اس لئے کہ یہ سب ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے، بدلیل کہ جو خارج از مسجد ہے اس کے لئے مسجد سے اندر والے کی اقتداء جائز ہے۔ سو جب علماء کا اختلاف ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ (بحر الرائق)

اور جماعت کے کھڑے ہو جانے کے بعد سنت فجر ادا کرنے کی کراہت کی دلیل صاحب ہدایہ اور صاحب فتح القدیر وغیرہ کے نزدیک یہ حدیث شریف ہے: اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة (ترجمہ) "جب نماز کھڑی ہو جائے یعنی مؤذن اقامت شروع کرے تو اس وقت ماسوا فرض نماز کے نماز پڑھنی درست نہیں"۔ جیسا کہ اس حدیث کو مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، احمد بن حنبل، ابن حبان اور بخاری نے ترجمۃ الباب میں نقل کیا ہے۔ اور محدث ابن عدی نے حسن سند کے ساتھ اس کے بعد یہ نقل کیا ہے کہ: "اے خدا کے رسول اور نہ دو رکعت سنت فجر کی؟" یعنی کسی نے پوچھا کہ اقامت کے وقت فجر کی سنت بھی نہ پڑھے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جب اقامت ہونے لگے تو فجر کی سنت بھی نہ پڑھے۔"

جماعت کھڑی ہونے کے بعد سنتوں کی ممانعت احادیث کے تناظر میں:

1) ۔۔۔ مؤطا امام مالک میں اس طرح سے روایت ہے کہ: چند شخص مؤذن کی اقامت سن کر دو رکعت سنتِ فجر پڑھنے لگے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا: کیا دو نمازیں سنت اور فرض اکٹھی ایک خاص وقت میں؟ کیا دو نمازیں سنت و فرض اکٹھی ایک خاص وقت میں؟ یعنی ازراہ انکار و توبیخ اور سرزنش کے طور پر یہ فرمایا، کیا تم لوگ اقامت کے بعد دو نمازیں سنت اور فرض اکٹھی پڑھتے ہو؟ جیسا کہ محلی شرح مؤطا میں منقول ہے۔

2) ۔۔۔ اور جماعت کھڑی ہونے کے وقت فجر کی سنتیں پڑھنے کے انکار کی دوسری حدیث جو کہ حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں:

ان رسول الله صلي الله عليه وسلم راي رجلا وقد اقيمت الصلاة يصلي ركعتين فلما انصرف رسول الله صلي الله عليه وسلم لاث به، فقال له رسول الله صلي الله عليه وسلم آالصبح أربعًا؟ ([1])

"کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جماعت کھڑی ہونے کے وقت فجر کی سنتیں پڑھ رہا ہے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ اس کے گرد اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توبیخ و انکار فرمایا کہ: کیا تم نمازِ فجر چار رکعت پڑھتے ہو؟

3) ۔۔۔ اور صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے کہتے ہیں کہ:

اقيمت صلاة الصبح فراي رسول الله صلي الله عليه وسلم رجلا يصلي والمؤذن يقيم فقال اتصلي الصبح اربعا؟ ([2])

"صبح کی نماز کی اقامت ہوئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا وہ فجر کی سنتیں پڑھنے لگا اور مؤذن اقامت کہہ رہا ہے، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا: کیا تو صبح کی چار رکعت پڑھتا ہے؟"

4) ۔۔۔ اور صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں:

دخل رجل المسجد، ‏‏‏‏‏‏ورسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الغداة، ‏‏‏‏‏‏فصلى ركعتين في جانب المسجد، ‏‏‏‏‏‏ثم دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ يا فلان، ‏‏‏‏‏‏باي الصلاتين اعتددت، ‏‏‏‏‏‏ابصلاتك وحدك، ‏‏‏‏‏‏ام بصلاتك معنا؟ (ابن ماجه 1/190، ابوداؤد 1/180، مسلم 1/494، نسائی 1/188)

"کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ صبح میں تھے، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ صبح کی امامت کروا رہے تھے، پھر اس شخص نے دو رکعت سنتِ فجر مسجد کے ایک جانب ہو کر پڑھی، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت میں داخل ہوا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا فرمایا: اے فلاں تو نے ان دونوں نمازوں میں سے کون سی نماز کو فرض شمار کیا، کیا وہ نماز جو تو نے تنہا پڑھی اس کو فرض ٹھہرایا یا جو تم نے ہمارے ساتھ پڑھی اس کو؟

یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بطور سرزنش و انکار کے یہ بات فرمائی۔

پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت کھڑی ہونے کے وقت سنتوں کا پڑھنا مکروہ و ممنوع ہے۔

5) ۔۔۔ ایک اور روایت حضرت عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم اور ابن ماجہ میں ہے کہ:

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏مر برجل يصلي، ‏‏‏‏‏‏وقد اقيمت صلاة الصبح، ‏‏‏‏‏‏فكلمه بشيء لا ندري ما هو، ‏‏‏‏‏‏فلما انصرفنا، ‏‏‏‏‏‏احطنا نقول:‏‏‏‏ ماذا؟ قال:‏‏‏‏ لك رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال لي:‏‏‏‏ " يوشك ان يصلي احدكم الصبح اربعا (مسلم 1/493، ابن ماجه 1/190)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ فجر کی سنتیں پڑھ رہا تھا اس حال میں کہ صبح کی نماز قائم ہو چکی تھی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے گفتگو فرمائی، ہمیں نہیں معلوم آپ نے اس سے آہستہ سے کیا فرمایا، پھر جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم اس کے گرد جمع ہوئے اور کہا: تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا کہ آپ نے مجھے یہ فرمایا تھا کہ: "قریب ہے کہ تم سے کوئی شخص صبح کے چار فرض پڑھے گا۔"

یعنی جماعت کے کھڑے ہونے کے وقت سنتوں کا پڑھنا فرائض کے برابر ٹھہرنا ہے۔ آخر کار آہستہ آہستہ سنت کو بمنزلہ فرض کے سمجھو گے اور اس طرح کا اعتقاد سنت کو فرض کے درجہ کے برابر پہنچا دے گا، سنت اور فرض میں امتیاز نہ رہے گا اور ایسا اعتقاد میری مرضی کے خلاف ہو گا اور جو کسی کا اعتقاد میری مرضی کے خلاف ہو گا وہ مردود اور بدعت و ضلالت ہو گا۔"

“اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة” حديث مرفوع اخرجه مسلم والاربعة عن ابي هريرة واخرجه ابن حبان بلفظ: اذا اخذا المؤذن في الاقامة، واحمد بلفظ: فلا صلاة الا التي اقيمت وهو الاخص. وزاد ابن عدي بسند حسن: قيل يا رسول الله ولا ركعتي الفجر؟ قال: ولا ركعتي الفجر، (نور پشتي) (ارشاد الساري 2/34-35)

وهكذا في القسطلاني مالك عن شريك بن عبدالله بن ابي نمر انه سمع قوم الاقامة فقاموا يصلون اي التطوع، فخرج رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال: اصلوتان اي السنة والفرض معا اي موصولا في وقت واحد، اصلوتان معا، وذلك في صلوة الصبح في الركعتين اللتين قبل الصبح.

“اذا اقيمت الصلاة .... الخ” مرفوع حدیث ہے (مسلم)

اور چاروں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے جب مؤذن اقامت شروع کر دے تو کوئی نماز نہیں ہوتی ماسوائے فرض کے اور احمد نے: وہی نماز ہو گی جس کے لئے اقامت کہی گئی ہے، کے ساتھ خاص کرتے ہوئے روایت کیا ہے۔ اور ابن عدی 1/234 نے "حسن سند" کے ساتھ ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: "کہا گیا اے اللہ کے رسول نہ ہی فجر کی دو رکعتیں، فرمایا، نہ ہی فجر کی دو رکعتیں" تورپشتی اور ایسے قسطلانی میں مالک نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے روایت کیا ہے کہ: انہوں نے ایک جماعت میں اقامت سنی، تو وہ اٹھ کر نوافل پڑھنے لگے، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: کیا دو نمازیں، سنت اور فرض ایک ساتھ، یعنی ایک ہی وقت میں ایک ساتھ دو نمازیں؟ اور یہ بات فجر میں پہلی دو سنتوں سے متعلق ہے۔

فقہاء کے اقوال:

اعلم انه قد اختلف في اداء سنة الفجر عند الاقامة، فكرهه الشافعي و احمد عملا بتلك الاحاديث. وقالت المالكية لا يبتدء الصلوة بعد الاقامة لا فرضا ولا نفلا لحديث “اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة” واذا اقيمت في الصلاة قطع ان خشي فوت ركعة والا اتم و استدل بعموم الحديث من قال بقطع النافلة، اذا اقيمت الفريضة، وبه قال ابو حامد وغيره. (مغنی 2/119)

"جان لیجئے کہ اقامت کے وقت فجر کی سنتوں کی ادائیگی میں اختلاف ہے: امام شافعی اور امام احمد نے انہیں احادیث پر عمل کرتے ہوئے اسے مکروہ جانا ہے اور مالکیہ کہتے ہیں کہ حدیث "“اذا اقيمت الصلاة .... الخ”" پر عمل کرتے ہوئے اقامت کے بعد نہ فرض اور نہ ہی نفل نماز کی ابتداء کرے اور جب اقامت کہہ دی جائے اور وہ نماز میں ہو اور اسے رکعت کے ضائع ہو جانے کا خدشہ ہو تو نماز توڑ ڈالے، وگرنہ پورا کرے اور جس نے یہ کہا کہ نفل توڑ ڈالے اس نے عمومِ حدیث "“اذا اقيمت الصلاة .... الخ”" سے استدلال کیا ہے، یہی قول ابو حامد وغیرہ کا ہے۔"

وخص اخرون النهي بمن ينشا النافلة عملا لقوله “وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ” ثم زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دينار في قوله صلي الله عليه وسلم “اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة” قيل يا رسول الله صلي الله عليه وسلم ولا ركعتي الفجر؟ قال ولا ركعتي الفجر، اخرجه ابن عدي و سنده حسن. (کامل 1/291-310، 2/678)

"اور دوسروں نے آیت "اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو" سے استدلال کرتے ہوئے نہی کو نماز کی ابتداء کرنے والے کے لئے خاص کیا ہے۔ پھر مسلم بن خالد نے عمرو بن دینار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں زیادہ کیا ہے: جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں ہوتی، کہا گیا اے اللہ کے رسول اور نہ ہی فجر کی دو سنتیں؟ فرمایا، نہ ہی فجر کی دو سنتیں۔" ابن عدی بسند حسن۔

سنتِ فجر کا استثنیٰ اور حدیث کے طریق:

واما زيادة “الا ركعتي الفجر” في الحديث، فقال البيهقي: هذه الزيادة لا اصل لهما، كذا في المحلي عن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة. وفي الباب عن ابن بحينة و عبدالله بن عمرو و عبدالله بن سرجس وابن عباس و انس رضي الله عنهم، قال ابو عيسيٰ: حديث ابي هريرة حديث حسن. وكذا روي ايوب و ورقاء ابن عمرو و زياد بن سعد و اسماعيل بن مسلم و محمد بن جحادة عن عمرو بن دينار عن عطاء عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم، وروي حماد بن زيد و سفيان بن عُيينة عن عمرو بن دينار ولم يرفعاه والحديث المرفوع اصح عندنا. وقدوري هذا الحديث عن ابي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم من غير هذا الوجه، رواه عياش بن عباس القُتياني المصري عن ابي سلمة عن ابي هريرة عن النبي صلي الله عليه وسلم عند اهل العلم من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم وغيرهم: اذا اقيمت الصلاة ان لا يصلي الرجل الا المكتوبة، و به يقول، سفيان الثوري و ابن المبارك والشافعي و احمد و اسحاق.۔ ترمذی (عرف الشذی 1/97، محلی ابن حزم 3/106)

"اور حدیث میں (اذا اقيمت الصلوة والی روایت میں) الا ركعتي الفجر ، یعنی فجر کی دو رکعتوں کے علاوہ کا اضافہ بے اصل ہے۔ ایسا ہی محلی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فرض نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں ہوتی۔ اور اس باب میں حضرت ابن بحینہ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن سرجس، ابن عباس، اور حضرت انس رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے۔ ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت حسن ہے۔ اسی طرح ایوب، ورقاء بن عمرو، زیاد بن سعد، اسماعیل بن مسلم اور محمد بن جحادہ نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے اور دونوں نے اسے مرفوع نہیں کہا اور مرفوع حدیث ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے اور یہی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طریق کے علاوہ سے بھی مروی ہے۔ عیاش بن عباس القتبانی المصری نے ابو سلمہ سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر اہل علم کا اسی پر عمل رہا ہے کہ: جب جماعت کھڑی ہو جائے تو آدمی ماسوائے فرض نماز کے دوسری نماز نہ پڑھے۔ یہی قول سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی، احمد اور اسحاق کا ہے۔ (ترمذی)

عن عطاء بن يسار عن ابي هريره رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال اقيمت الصلاة ان لا يصلي الرجل الا المكتوبة، و حديث محمد بن حاتم و ابن رافع قالا حدثنا شبابه قال حدثني ورقاء بهذا الاسناد. و حدثني يحيي ابن حبيب الحارثي قال حدثنا روح قال حدثنا زكريا ابن اسحاق قال حدثنا عمرو بن دينار قال سمعت عطاء بن يسار يقول عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم انه قال: اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة.

"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہو جائے تو ماسوائے فرض کے اور نماز نہ پڑھو۔"

(ایک اور دوسری سند سے یہی حدیث مروی ہے)

حدثناه عبد بن حميد قال حدثنا عبدالرزاق قال اخبرنا زكريا بن اسحاق لهذا الاسناد مثله، و حدثنا حسن الحلواني قال حدثنا يزيد بن هارون قال اخبرنا حماد بن زيد عن ايوب عن عمرو بن دينار عن عطاء بن يسار عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم بمثله.

(مذکورہ حدیث دو اور اسناد کے ساتھ مروی ہے)

قال حماد ثم لقيت عمروا فحدثني به ولم يرفعه (صحیح مسلم مختصرا)

"حماد نے کہا پھر میں عمرو سے ملا تو انہوں نے مجھے حدیث بیان کی لیکن مرفوع نہیں کہا۔ (مسلم)

قوله: “قال حماد ثم لقيت عمروا فحدثني به ولم يرفعه” هذا الكلام لا يقدح في صحة الحديث ورفعه لان اكثر الرواة رفعوه. وقال الترمذي و رواية الرفع اصح، وقد قدمنا في الفصول السابقة في مقدمة الكتاب ان الرفع مقدم علي الوقف علي المذهب الصحيح وان كان عدد الرفع اقل فكيف اذا كان اكثر (نووي شرح مسلم، وهكذا في تدريب الراوي 1/247)

"ان کا یہ کہنا: کہ حماد نے کہا پھر میں عمرو کو ملا تو مجھے انہوں نے بیان کیا اور اس کو مرفوع نہیں کہا" یہ صحت حدیث اور مرفوع ہونے میں مضر نہیں ہے، اس لئے کہ اکثر رواۃ نے اس کو مرفوع بیان کیا ہے، ترمذی نے کہا: مرفوع ہونا زیادہ درست ہے۔ اور یہ بات مقدمۃ الکتاب کی سابقہ فصول میں بیان ہو چکی ہے کہ: صحیح مذہب میں مرفوع، موقوف پر مقدم ہے اگرچہ مرفوع کی تعداد کم ہو، تو اس کا حال کیسا ہو گا جہاں مرفوع کی تعداد بھی زیادہ ہو۔ (تدریب الراوی)

گوشہ مسجد میں سنتیں پڑھنے کی دلیل اور اس کا جواب:

یاد رہے کہ ابراہیم حلبی شارح منية المصلي تلمیذ ابن الہمام وغیرہ نے طحاوی وغیرہ سے جو نقل کیا ہے کہ: صحابہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ اور تابعین میں سے مسروق، حسن بصری اور ابن جبیر وغیرہ نے جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد سنتِ فجر گوشہ مسجد میں پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے تو اس دلیل سے مسجد میں اقامتِ صلاۃ کے بعد سنت کا پڑھنا جائز معلوم ہوتا ہے، سو یہ نقل صاحب ہدایہ اور صاحب فتح القدیر جو کہ محقق حنفی المذہب ہیں اسے ضرور نقل کرتے ہیں بلکہ اس کے برعکس حدیث "اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة " سے فجر کی سنت مسجد میں پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ طحاوی وغیرہ کا قول جو ابراہیم حلبی نے ذکر کیا ہے صاحب ہدایہ اور صاحب فتح القدیر کے ہاں پایہ اعتبار سے ساقط ہے ورنہ وہ اسے ضرور نقل کرتے۔

بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مخالف عمل مذکور ہے، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جماعت کے قائم ہونے کے بعد سنتِ فجر پڑھ رہا ہے تو اسے مارا اور تعزیر دی اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ مؤذن کی اقامت کے وقت فجر کی سنت پڑھنے لگا تو اسے کنکر مارا۔ (بیہقی 1/483، محلی شرح مؤطا)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے عمل کا جواب:

اگر بالفرض عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ نے فجر کی سنت پڑھی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ان کی حدیث نہ پہنچی ہو اور نہی کی حدیث ان تک نہ پہنچنا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے لئے رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا مخفی رہا اور وہ ہمیشہ پہلے دستور کے مطابق دونوں ہاتھ ملا کر ران میں رکھتے تھے اور اس مسئلہ میں انہوں نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی مخالفت کی، چنانچہ صحاح میں مذکور ہے کہ دونوں ہاتھ ملا کر ران میں رکھنا منسوخ ہو چکا ہے مگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نسخ کی حدیث نہیں پہنچی، حالانکہ ہر نماز میں رکوع کے وقت گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا مدام معمول ہے اور ایسا مشہور فعل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر مخفی رہا۔ سو اسی طرح جماعت کھڑی ہو جانے کے وقت مسجد کے اندر سنتِ فجر ادا کرنے کی نہی والی حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو نہ پہنچی۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ﴿٣﴾" قراءت کی بجائے " والذكر والانثيٰ" پڑھتے تھے حالانکہ قراءت ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ﴿٣﴾" جمہور صحابہ کے نزدیک متواتر ہے اور یہی قراءت متواترہ اسی طرح ہر قرآن کریم اور مصحفِ عثمانی میں مذکور ہے اور یہ قراءت متواترہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پہنچی، جیسا کہ فتح الباری 8/707 وغیرہ میں یہ قصہ مذکور ہے۔

سو اس حدیث نہی کے لاعلمی کے سبب اگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فجر کی سنت کبھی مسجد میں جماعت کے قائم ہونے کے وقت پڑھی ہو تو وہ معذور ٹھہریں گے اور جو صحیح حدیث چھ سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اور آیت کریمہ ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا " (الحشر: 7) کے موجب، ہمارا سنتیں پڑھنا حجت نہیں ہو سکتا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل:

تو امت پر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل اور تقریر واجب الاتباع ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بابت پیچھے گزر چکا ہے کہ:

وقد روي عن عمر رضي الله عنه: انه كان اذا راي رجلا يصلي وهو يسمع الاقامة ضربه، وعن ابن عمر رضي الله عنهما انه ابصر رجلا يصلي الركعتين والمؤذن يقيم فحصبه (محلی ابن حزم 3-109)

"انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اقامت سننے کے بعد نماز پڑھ رہا ہے تو اسے مارا اور تعزیر دی۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ مؤذن کے اقامت کہنے کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہا ہے تو اسے کنکر مارا۔" (سنن کبریٰ بیہقی 2/483)

احناف کا نہی کی تاویل اور ان کا رد:

اور بعض علمائے احناف نہی کی حدیث کا یوں جواب دیتے ہیں کہ: اس شخص نے مسجد کے کنارہ کی اوٹ میں (سنت) نہیں پڑھی تھی اس لئے زجر و انکار فرمایا وہ اگر دور یا اوٹ میں پڑھتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ تو صحیح مسلم کی حدیث ان کے قول کو رد کرتی ہے جیسا کہ محلی میں ہے:

ومن الحنفية من قال انما انكر النبي صلي الله عليه وسلم وقال: الصبح اربعا؟ لانه صلي الفرض او لان الرجل صلاها في المسجد بلا حائل فشوش علي المصلين، و يرد الاحتمال الاول قوله صلي الله عليه وسلم كما في الكتاب: اصلوتان معا؟ وما للطبراني عن ابي موسيٰ انه صلي الله عليه وسلم راي رجلا يصلي ركعتي الغداة والمؤذن يقيم فاخذ منكبيه وقال: الا كان هذا قبل هذا. و يرد الثاني ما في مسلم عن ابي سرجس رضي الله عنه، دخل رجل المسجد وهو صلي الله عليه وسلم في صلوة الغداة فصلي ركعتين في جانب المسجد ثم دخل مع النبي صلي الله عليه وسلم، فلما سلم النبي صلي الله عليه وسلم قال: يا فلان باي الصلوتين اعتددت، ابصلوتك وحدك ام بصلوتك معنا؟ انتهي. فانه يدل علي ان اداء الرجل كانت في جانب لا مخالطا للصف. وفي المحيط الرضوي، اختلفوا في الكراهة فيما اذا صلي في المسجد الخارج والامام في الداخل، فقيل: لا يكره و قيل: يكره لان ذلك كله كمكان واحد، فاذا اختلف المشائخ فيه كان الاحوط ان لا يصلي (كذا في المحلي 3-107، نيل الاوطار 3/92)

"احناف میں سے بعض نے کہا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ "کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں؟" انکار فرمایا تھا، کیونکہ آپ کو علم ہو گیا تھا کہ اس نے فرض پڑھ لئے ہیں، یا پھر اس لئے کہ آدمی نے مسجد میں بغیر اوٹ کے نماز پڑھ لی تھی، جس سے نمازیوں کو تشویش لاحق ہوئی، تو پہلے احتمال کو آپ کا یہ فرمانا رد کرتا ہے "کیا دو نمازیں ایک ساتھ؟" اور جو طبرانی میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کی دو رکعت پڑھ رہا ہے جبکہ مؤذن اقامت کہہ رہا ہے، تو آپ نے اس کے دونوں کندھوں کو پکڑا اور فرمایا: کیا یہ (سنتیں) اس (فرض نماز) سے پہلے نہ ہو سکتی تھیں؟ اور دوسرا احتمال اس سے مسترد ہوتا ہے جو کہ مسلم میں ابن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز ادا کر رہے تھے، سو اس نے مسجد کے گوشے میں دو رکعت پڑھیں پھر وہ حضرت کے پاس شامل ہو گیا جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: اے فلاں! تم نے اپنی دو نمازوں میں سے کون سی نماز شمار کی ہے۔ کیا وہ جو تم نے تنہا پڑھی ہے یا جو ہمارے ساتھ ادا کی ہے؟ انتھی۔ تو یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ آدمی ایک کونے میں نماز پڑھ رہا تھا نہ کہ صف میں شامل تھا۔ المحیط الرضوی، میں ہے کہ: جب خارج از مسجد نماز پڑھے اور امام داخل مسجد ہو، تو ایک کے مطابق مکروہ نہیں ہے، جبکہ دوسرے قول کے مطابق مکروہ ہے اس لئے کہ یہ ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے تو جب اس میں مشائخ کا اختلاف ہے تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ سنت نماز نہ پڑھی جائے۔" (المحلی)

احادیثِ مذکورہ بالا سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ فجر کی سنت، فرض نماز کھڑی ہونے کے بعد مطلقا نہ پڑھے نہ ہی مسجد کے اندر اور نہ ہی مسجد سے باہر۔  اور یہی مذہب تمام اہل علم اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، محلی شرح مؤطا سے معلوم ہوتا ہے۔ اور ہدایہ، فتح القدیر اور درمختار کا ذکر پہلے ہو چکا ہے کہ اقامت کے وقت مسجد میں سنت پڑھنا مکروہ ہے اور خارج از مسجد پڑھنا درست ہے بشرطیکہ فرض کی دونوں رکعت نہ چھوٹ جائیں، لیکن حدیث کے مضمون سے جماعت کھڑی ہونے کے وقت سنت کا مطلق نہ پڑھنا معلوم ہوتا ہے۔ خواہ مسجد میں ہو یا مسجد سے خارج۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

فيه دليل علي انه لا يصلي بعد الاقامة نافلة وان كان يدرك الصلوة مع الامام ورد علي من قال، ان علم انه يدرك الركعة الاولي او الثانية يصلي النافلة ([3])

"اس میں دلیل پائی جاتی ہے کہ اقامت کے بعد نفل نہ پڑھے جائیں، اگرچہ نماز امام کے ساتھ پائی جا سکتی ہو اور اسی سے اس پر رد کیا جائے گا، جو یہ کہے کہ اسے معلوم ہے کہ نفل پڑھنے کی صورت میں پہلی یا دوسری رکعت پا لے گا۔"

جماعت کھڑی ہونے کی صورت میں سنتیں نہ پڑھنے میں حکمت:

اور جماعت کھڑی ہونے کے بعد سنت نہ پڑھے اس میں یہ حکمت پنہاں ہے کہ: فرض جماعت میں ابتداء ہی سے دل جمعی سے مل جائے اور تکبیر اولی اور تکمیل فرض کے ثواب کو حاصل کر لے اور اختلاف کی صورت ظاہر نہ ہو پس فرض کی حفاظت علی وجہ الکمال مقتدی کو ضرور کرنی چاہیے۔

جیسا کہ امام نووی رقمطراز ہیں:

ان الحكمة فيه ان يتفرغ للفريضة من اولها فيشرع فيها عقيب مشروع الامام، واذا اشتغل بنافلة فاته الاحرام و فاته بعض مكملات الفريضة، فالفريضة اولي بالمحافظة علي اكمالها، قال القاضي: وفيه حكمة اخري وهو النهي عن الاختلاف علي الائمة. (شرح مسلم 1-147)

"اس میں حکمت یہ ہے کہ: (نمازی) ابتداء ہی سے فرض کے لئے خالی الذہن ہو، سو امام کے آغاز کے بعد شروع کرنے والا جب سنتوں میں مشغول ہو جائے گا تو اس کی تکبیر تحریمہ چھوٹ جائے گی اور فرض کے کچھ مکملات بھی چھوٹ گئے، پس فرض کی تکمیل کی حفاظت مقدم ہے۔ قاضی نے کہا: اس میں ایک دوسری حکمت بھی ہے: وہ، امام کی مخالفت سے روکنا ہے"۔ (نووی)

فجر کی سنتیں رہ جانے کی صورت میں ان کی ادائیگی کا وقت:

طلوع آفتاب کے بعد:

رہا یہ مسئلہ کہ جس نے فجر کی سنت نہ پڑھی ہو تو انہیں کب ادا کرے، کیا طلوع آفتاب سے قبل یا طلوع آفتاب کے بعد! حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے دونوں طرح ہی منقول ہے خواہ طلوع آفتاب سے قبل پڑھ لے یا بعد میں جیسا کہ مؤطا میں ہے کہ

مالك انه بلغه، ان عبدالله بن عمر فاته ركعتا الفجر فقضاهما بعد ان طلعت الشمس (مؤطا امام مالک 1/124)

وهكذا اسنده ابن ابي شيبة عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنه جاء الي القوم وهم في الصلوة ولم يكن صلي الركعتين فدخل معهم ثم جلس في مصلاه فلما اضحي اقام فصلاهما، وله من طريق عطية قال رايت ابن عمر رضي الله عنه قضاهما حين سلم الامام (محله 3/114)

"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے فجر کی سنتیں چھوٹ گئیں تو انہوں نے انہیں طلوع آفتاب کے بعد ادا کیا۔ (مؤطا)

اس طرح ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قوم کے پاس اس وقت آئے جبکہ وہ نماز (باجماعت) پڑھ رہے تھے تو ان کے ساتھ مل گئے اور دو رکعتیں سنت نہ پڑھی، پھر اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھے رہے تاآنکہ چاشت کا وقت ہو گیا، سو اٹھے اور ان کو ادا کیا۔ مزید عطیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے ان (فوت شدہ سنتوں کو) امام کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کیا۔ (محلی)

اور ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل کیا ہے کہ سنت کی قضا طلوع آفتاب کے بعد بھی ثابت ہے کہ

من لم يصل ركعتي الفجر فليصلهما بعد ما تطلع الشمس، قال الترمذي: والعمل عليٰ هذا عند بعض اهل العلم، وبه يقول الثوري ابن مبارك والشافعي و احمد و اسحاق. (ترمذی 1/287، ابن ماجه البانی 1/190)

"جس شخص نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو ان کو طلوع آفتاب کے بعد پڑھ لے۔ ترمذی نے کہا اسی پر اہل علم کا عمل ہے، اور یہی قول سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔"

سنتوں کی ادائیگی فرضوں کے بعد:

ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ سے فرضوں کے بعد طلوع آفتاب سے قبل پڑھنا ثابت ہے کہ: حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت کی اقامت کے وقت نماز میں شامل ہوئے اور فرضوں کی ادائیگی کے بعد جلدی سے فجر کی سنتیں پڑھنے لگے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت سے فارغ ہوئے اور قیس رضی اللہ عنہ کو سنتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے قیس رضی اللہ عنہ! ٹھہر جا! کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھتے ہو؟تو قیس رضی اللہ عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسول میں نے فجر کی سنتیں پہلے نہیں پڑھی تھیں تو میں نے یہ دو رکعت سنتِ فجر ادا کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اس وقت کوئی مضائقہ نہیں۔ یعنی جبکہ تم نے پہلے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں اور فرض ادا کرنے کے بعد پڑھی تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (ابن ماجہ، البانی 1/190، ابوداؤد 2/51، ترمذی 2/284)

تو اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہوا کہ فجر کی جماعت کے بعد فجر کی سنتیں پڑھنا جائز ہے اور نفل پڑھنا مکروہ ہے جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سو نہی کی حدیث سے فجر کی سنتیں مستثنیٰ اور خارج ہوئیں اور اس پر نہی وارد نہیں ہو گی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیس رضی اللہ عنہ کے سنت پڑھنے پر خاموش رہے، ایک روایت میں فرمایا: "کیا حرج ہے" مزید ایک روایت میں ہے "مسکرائے" اسی لئے علمائے مکہ معظمہ کی ایک جماعت قیس رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل کرنے کی قائل ہے۔ اب جو شخص فرض کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنتیں پڑھنے کو شدت سے منع کرتا ہے تو اس کا قول بموجب حدیث قیس رد کیا جائے گا، کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وسعت پائی گئی ہے۔

مرسل حدیث احناف کے ہاں حجت ہے:

آخرکار انتہاء پسند اس حدیث کو مرسل کہیں گے اور مرسل حدیث حنفی اور مالکی مذہب میں حجت ہے، چنانچہ نور الانوار اور توضیح وغیرہ میں مذکور ہے:

باب من فاتته متي يقضيها ... حدثنا عثمان بن ابي شيبة نا ابن نمبر عن سعيد بن سعيد حدثني محمد بن ابراهيم عن قيس بن عمرو قال راي رسول الله صلي الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلوة الصبح ركعتين فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم صلوة الصبح ركعتان فقال الرجل، اني لم اكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الآن، فسكت رسول الله صلي الله عليه وسلم. ([4])

"باب: جس سے (سنت) چھوٹ جائے وہ اُسے کب ادا کرے ۔۔۔

حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا صبح کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: صبح کی نماز کی دو رکعتیں ہیں۔ آدمی نے کہا: میں نے پہلی والی دو رکعت نہیں پڑھی تھیں۔ سو میں نے اب پڑھی ہیں۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔"

حدثنا حامد بن يحيي البلخي قال، قال سفيان كان عطاء بن ابي رباح يحدث بهذا الحديث عن سعد بن سعيد، قال ابو داؤد روي عبد ربه و يحيي ابنا سعيد، هذا الحديث مرسلا ان جدهم زيدا صلي مع النبي صلي الله عليه وسلم (انتهي ما في ابي داؤد) ([5])

ابوداؤد کہتے ہیں کہ اس روایت کو عبد ربہ اور یحییٰ نے جو کہ دونوں سعید کے بیٹے ہیں اس حدیث کو مرسل بیان کیا ہے کہ: ان کے دادا زید نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔

باب: ماجاء فيمن تفوته الركعتان قبل الفجر يصليهما بعد الفجر ..... حدثنا محمد بن عمرو السواق حدثنا عبدالعزيز بن محمد عن سعد بن سعيد عن محمد بن ابراهيم عن جده قيس قال خرج رسول الله صلي الله عليه وسلم فاقيمت الصلاة فصليت معه الصبح ثم انصرف النبي صلي الله عليه وسلم فوجدني اصلي فقال مهلا يا قيس، اصلاتان معا؟ قلت يا رسول الله اني لم اكن ركعت ركعتي الفجر قال: فلا اذا. ان قال ابو عيسيٰ حديث محمد بن ابراهيم لا نعرفه مثل هذا الا من حديث سعد بن سعيد وقال سفيان بن عيينة سمع عطاء بن ابي رباح من سعد بن سعيد هذا الحديث، وانما يروي هذا الحديث مرسلا، وقد قال قوم من اهل مكة لهذا الحديث لم يروا باسا ان يصلي الرجل الركعتين بعد المكتوبة قبل از تطلع الشمس، قال ابو عيسيٰ و سعد بن سعيد هو اخو يحييٰ بن سعيد الانصاري، وقيس هو جد يحييٰ بن سعيد و يقال هو قيس بن عمرو و يقال هو قيس بن فهد و اسناد هذا الحديث ليس بمتصل، محمد بن ابراهيم التيمي لم يسمع من قيس، و روي بعضهم هذا الحديث عن سعد بن سعيد عن محمد بن ابراهيم ان النبي صلي الله عليه وسلم خرج فراي قيسا. (انتهی ما فی ترمذی 1/285، ابن ماجه 1/365 فواد)

"باب ہے کہ: جس سے قبل از فجر دو سنتیں چھوٹ جائیں انہیں فجر کی نماز کے بعد پڑھے ۔۔۔ محمد بن ابراہیم اپنے دادا قیس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو نماز کی اقامت کہی گئی تو میں نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں، تو فرمایا: رُک جاؤ اے قیس! کیا دو نمازیں ایک ساتھ؟ تو میں نے عرض کیا، میں نے فجر کی پہلی دو سنتیں ادا نہیں کی تھی، تو آپ نے فرمایا: تو کوئی حرج نہیں!

ابو عیسیٰ نے کہا: کہ ہم محمد بن ابراہیم کی روایت سعد بن سعید ہی کے واسطے سے جانتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ: عطاء بن ابی رباح نے یہ حدیث سعد بن سعید سے مرسل روایت کی ہے، اہل مکہ میں سے علماء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ: اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی فرض کے بعد طلوع آفتاب سے قبل دو سنتیں پڑھ لے۔ ابو عیسیٰ نے کہا: سعد بن سعید وہ یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں اور قیس یحییٰ کے دادا ہیں کہا جاتا ہے کہ وہ، قیس بن عمرو ہیں یا قیس بن فہد ہیں، محمد بن ابراہیم کا قیس رضی اللہ عنہ سے عدم سماع کی بنا پر ہی اسے غیر متصل کہا ہے اور بعض نے عن سعد بن سعید عن محمد بن ابراہیم روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور قیس کو دیکھا ۔۔۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فجر کی سنتوں کی قضا نہیں ہے اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زوال تک قضا کر لے اور بعض کہتے ہیں کہ: جو قضا کر لے گا تو وہ شیخین کے نزدیک نفل ہوں گے اور سنت شمار ہوں گے، اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قضا کر لینا چھوڑنے سے بہتر ہے، جیسا کہ پہلے معلوم ہو چکا۔

ولا يقضيهما اي سنة الفجر الا حال كونه تبعا للفرض قبل الزوال او بعده علي اختلاف المشائخ، كما في السمرتاشي، يقضي بعد اجماعا، والكلام دال علي انها اذا فاتت وحدها لا تقضي وهذا عندهما، واما عند محمد فيقضيهما الي الزوال استحسانا، وقيل لا خلاف فيه فان عنده لو لم يقض فلا شيء عليه واما عندهما فلوقضيٰ لكان حسنا، وقيل الخلاف في انه لوقضي كان نفلا عندهما سنة عنده. كما في جامع الرموز

"سنت فجر کو ماسوائے فرائض کی اتباع کے قضا نہ کرے، مگر مشائخ کے نزدیک اختلاف کے باعث، قبل از زوال یا بعد از زوال ادا کرے جیسا کہ سمرتاشی میں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ بعد از زوال ادا کرے جیسا کہ سمرتاشی میں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ بعد از زوال پر اجماع ہے۔ اور کلام اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شیخین کے مذہب کے مطابق قضائی نہ دے، البتہ امام محمد کے نزدیک زوال تک قضا کرنا بہتر ہو گا اور ایک قول یہ ہے کہ: اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ان کے ہاں یہ بھی ہے کہ اگر قضائی نہ بھی دے کوئی حرج نہیں، تاہم شیخین کے نزدیک قضائی دینا بہتر ہو گا۔ ایک قول کے مطابق اختلاف اس میں ہے کہ شیخین کے نزدیک اگر قضا دے گا تو وہ نفل ہوں گی اور امام محمد کے ہاں سنت ہی ہوں گی۔ (جامع الرموز)

والله اعلم بالصواب ... فاعتبروا يا اولي الالباب ... حسبنا الله بس حفيظ الله

٭ حررہ سید شریف حسین

٭ محمد اسد علی

٭ سید محمد نذیر حسین

والله الموفق

حاصل:

نماز فرض ہوتے ہوئے دو رکعت پڑھنے کے جو آثار وارد ہیں وہ سند کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں۔ اگر کوئی صحیح بھی ہو تو اس حدیث کے مخالف ہے کہ اذا اقيمت الصلاة فلا صلاة الا المكتوبة ۔۔۔ (جاوید)


[1] رواہ البخاری، فتح الباری 2/148

[2] مسلم 1/247، محلی ابن حزم 3/107، مصابیح السنہ 1/392

[3] نووی شرح مسلم 1/247، طبع کراچی

[4] ابوداؤد 1/180، ابن ماجہ 1/365، فواد عبدالباقی

[5] ابوداؤد 2/52

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:233

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ