سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) استفتاء

  • 23984
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1204

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین حق اس شخص کے متعلق ارشاد فرمائیں کہ: جو بلاعذر شرعی فرض نماز کو ترک کرے شرعا اس کا کیا حکم ہے اور اس کے ساتھ اختلاط، کھانا، پینا اور بولنا کیسا ہے؟ اور اگر زوجین میں ایک ایسا ہو تو نکاح باقی رہے گا یا نہیں اور صحبت حلال ہو گی یا حرام اور اولاد کیسی ہو گی؟ اور اگر ایسے شخص کے مرنے کے بعد زجرا اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھیں تو کیا ہے؟ اور اگر نماز کی نصیحت کو برا مانے یا کوئی کلمہ استخفاف کہے تو اس کا کیسا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عمدا نماز چھوڑنے والے کے متعلق صحابہ و محدثین و فقہاء کی آراء:

تارك الصلاة عمدا کے باب میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ صحابہ کرام میں حضرت عمر، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، معاذ بن جبل، جابر بن عبداللہ، ابو الدرداء، ابو ہریرہ اور عبدالرحمٰن بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اور غیر صحابہ میں سے امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راھویہ، امام نخعی، ایوب السختیانی، ابو داؤد، الطیالسی اور ابوبکر بن الشیبہ رحمہم اللہ کا قول ہے کہ وہ شخص کافر ہو جاتا ہے۔ اور حماد بن زید، مکحول، امام شافعی اور امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک کافر تو نہیں ہوتا مگر قتل کیا جائے۔ (صلاۃ رسول ص 227 تخریج عبدالروؤف)

اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کفر اور قتل کا حکم نہیں کیا جاتا، مگر قید سخت میں رکھنا چاہئے اور خوب سزا دینی چاہیے اور اس قدر مارا جائے کہ بدن سے خون بہنے لگ جائے تاآنکہ توبہ کر لے یا اسی حالت میں مر جائے۔ (تفسیر مظہری و نفع المفتی و درمختار ص 180)

اور اس سے اختلاط و خوردونوش و گفتگو ترک کر دینا چاہیے کہ اس وقت حبس کی بجائے اس قدر ممکن ہے اور جس کی غرض بھی یہی ہے کہ تنگ ہو کر توبہ کر لے۔ (حدیث کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے اسباب میں دلیل ہے)

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل جب معاصی میں واقع ہوئے علماء نے منع کیا وہ باز نہ آئے، ان کے پاس بیٹھنے لگے اور ان کے ساتھ کھانے پینے لگے، پس ان کے دلوں کا ان کے دلوں پر اثر پڑ گیا۔ سو ان پر بزبان داؤد اور عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے لعنت کی گئی یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ تکیہ لگائے بیٹھے تھے، اٹھ بیٹھے، اور فرمایا: تمہیں کبھی نجات نہ ہو گی جب تک کہ اہل معاصی کو مجبور نہ کرو گے۔ (ترمذی 5/252 احمد شاکر، ابوداؤد 4/508 تفسیر ابن کثیر 2/114، عربی)

بے نماز کی نماز جنازہ پڑھنا کیسا ہے:

اور جن علماء نے اس شخص کو کافر کہا ہے۔ ان کے نزدیک نکاح باقی نہ رہے گا اور صحبت حرام ہو گی اور اولاد حرامی ہو گی۔ معاذ اللہ منہ ۔۔۔ اور اگر اہل علم و فضل زجر کے لئے اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھیں تو جائز ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدیون اور قاتل نفس پر نماز نہ پڑھی تھی اور جیسا فقہائے حنفیہ نے قاطع طریق، مکار، باغی اور قاتلِ أحد الابوين سے ان کی اھانت کے پیش نظر نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے۔ (درمختار)

اور امام مالک سے منقول ہے کہ اہل فضل، فساق پر (بے نماز کی طرح) جنازہ نہ پڑھیں تاکہ ان کو عبرت ہو (نووی شرح مسلم) اور اگر نماز سے نفرت یا اعراض کا اظہار کیا یا حقارت و استہزاء سے پیش آیا تو کافر ہو جائے گا کیونکہ حکم شرعی کی اھانت کفر ہے۔ والله اعلم و علمه اتم و احكم

کتبہ محمد اشرف علی عفی عنہ (اشرف علی تھانوی)

اسمائے گرامی مؤیدین علمائے کرام:

هو العليم الخبير۔ صد آفرین مجیب مصیب کے لئے کہ امر حق نوکریز قلم فرمایا

جزاه الله سبحانه خير الجزاء. حرره العبد الحامل/محمد عادل عامله الله تعاليٰ بفضله الشامل و اصلح حاله بلطفه الكامل في العاجل و والاجل.محمد عادل حاکم محکمہ شرع

٭ صح الجواب۔ حررہ سید محمد احساق الحق عفی عنہ  (محمد سید احسان الحق)

٭ ھو المصیب۔ واقعی نماز کا ترک کرنے والا بحیثیت ترک صلاۃ ایسی ہی زجر و توبیح کا مستحق ہے جسے مجیب مصیب نے تحریر فرمایا ہے۔ کتبہ عبدالضعیف محمد علی۔ (محمد علی)

٭ ذلك الجواب لا ريب فيه ۔ حررہ عبدالراجی غفرلہ اللہ القوی/محمد عبدالغفار اللکھنوی عفی عنہ۔ (عبدالغفار)

٭ الجواب صحیح والمجیب نجیح۔ احمد حسن عفی عنہ۔ مدرس مدرسہ دارالعلوم کانپور (دل مرتضیٰ حسن جان احمد)

جن کو ہے حب خدا عشق رسول

کیوں نہ کر لیں گے وہ یہ مضمون قبول

کام جو ہو گا دل کے لاگ سے

وہ بچائے گا وہاں کی آگ سے

اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص ان لوگوں پر طعن و تشنیع کرے گا جنہوں ([1]) نے نئی نماز شروع کی ہے وہ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ میں داخل ہو گا جس کی مذمت قرآن مجید میں ہے بلکہ اس استہزاء سے اس کے زوالِ ایمان کا خوف ہے۔ معاذ اللہ منہ

بر رسولاں بلاغ باشد و بس ۔۔۔ والسلام علي من اتبع الهدي

التماس

در حضور مومناں اہل علم و پاکباز

عرض کرتا ہے یہ عبداللہ بصد عجز و نیاز

بے نمازی کو سنا دیں پڑھ کے یہ پرچہ تمام

اور ترغیب نماز ان کو دلائیں صبح و شام

ہائیں گے اللہ کی درگاہ سے اجر عظیم

اور مومنوں کو جو بتائیں گے صراط مستقیم

المشتھر: خیرخواہ عبداللہ/محمد عبداللہ غفرلہ اللہ، امام جامع مسجد


یعنی رفع الیدین کی سنت پر عمل کرنے والے جو شاید لوگوں کے ہاں نئی نماز تصور ہو۔ (خلیق)[1]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:214

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ