سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) رفع الیدین کرنے والے اور جوتا پہن کر نماز پڑھنے والے کو مسجد سے نکال دینا ثواب ہے یا گناہ!

  • 23983
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1205

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رفع الیدین کرنے والے اور پاک جوتے پہن کر نماز پڑھنے والے کو اپنی مسجد میں نماز نہ پڑھنے دینا اور مسجد سے نکال دینا، سلام و کلام ترک کر دینا اور برادری سے الگ کر دینا کتنا بڑا ثواب یا گناہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنا چوری وغیرہ سے بھی بڑا جرم ہے:

رفع الیدین اور پاک جوتوں سے نماز پڑھنا کوئی ایسا شرعی جرم تو نہیں جو کہ متفقہ امور شرعیہ محرم میں سے ہو۔ جس کے ارتکاب سے مسجد سے نکالنے کا جواز فراہم ہو بلکہ مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنا اتنا بڑا شرعی جرم ہے کہ چوری، زنا کاری اور حرام خوری وغیرہ گناہوں سے کئی درجہ بڑھ کر ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَمَن أَظلَمُ مِمَّن مَنَعَ مَسـٰجِدَ اللَّـهِ أَن يُذكَرَ فيهَا اسمُهُ وَسَعىٰ فى خَرابِها أُولـٰئِكَ ما كانَ لَهُم أَن يَدخُلوها إِلّا خائِفينَ لَهُم فِى الدُّنيا خِزىٌ وَلَهُم فِى الـٔاخِرَةِ عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١١٤﴾... سورة البقرة

"اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے (یعنی اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں) جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے (یعنی نمازیوں کو روک کر جو کہ مسجدوں کے آبادکار ہیں) ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی ان میں جانا چاہیے تھا۔ ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے۔"

ہاں! اگر کوئی مسجد میں "صلاۃ غوثیہ" پڑھے یا "یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ" کا ذکر کرے یا "المدد یا شیخ فلانی" پکارے یا ایسا ہی کوئی اور شرک کا کام کرے یا کوئی فعل محرم مثل غیبت، گالی گلوچ اور بہتان تراشیوں کا سلسلہ شروع کرے تو البتہ مسجد سے نکالے جانے کا مستحق ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّـهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾... سورة الجن

"اور بےشک مسجدیں اللہ کے لئے ہیں سو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔"

مسلمان سے ترکِ کلام پر وعید:

اور شرعی مسلمان بھائی سے بغیر کسی جرم کے سلام و کلام ترک کرنا بہت بڑا گناہ ہے جیسا کہ ابوداؤد اور مسند احمد کے حوالہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

عن ابي هريرة (رضي الله عنه) ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: لا يحل لمسلم ان يحجر اخاه فوق ثلاث، فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار (فتح الباری 10/492، مسلم 4/1984، مشکوۃ البانی 1399)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ (سلام و کلام) ترک کرے، سو جس نے تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھا اور مر گیا دوزخ میں داخل ہو گا۔"

مزید ایک اور حدیث جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ:

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا (رواہ مسلم 4/1984، مشکاۃ البانی رحمۃ اللہ علیہ 3/383، کراچی طبع۔ 427)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کے روز کھولے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو بخش دیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ مگر اس شخص کو (نہیں بخشا جاتا) جس شخص اور اس کے بھائی کے درمیان کینہ ہو، پھر کہا جاتا ہے کہ ان کو مہلت دو جب تک آپس میں صلح کر لیں۔"

اللہ اور رسول کے کسی حکم کو مکروہ جاننے والا کافر ہے:

رفع الیدین کرنا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور جو امرِ دینی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم میں داخل ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے حکم کو برا جانا وہ کافر ہوا اور اس کے سبب نیک عمل ضائع ہو گئے۔

الرفع ثابت من رسول الله صلي الله عليه وسلم و كل ما ثبت من الرسول صلي الله عليه وسلم فهو حكم الله و كل من كره حكم الله فهو كافر و كل من كره الرفع رهو كافر

"رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور ہر وہ بات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو تو وہ اللہ کا حکم ہے اور ہر وہ شخص جو اللہ کے حکم کو ناپسند جانے تو وہ کافر ہے اور ہر وہ شخص جو رفع الیدین کو مکروہ جانے وہ بھی کافر ہے۔"

اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ جس نے رفع الیدین کو برا جانا وہ کافر ہوا اور جب کافر ہوا تو اس کا نکاح بھی ٹوٹ گیا اور ہو سنت کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اسی طرح ہی سمجھو اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھ شخصوں ([1]) پر میں نے اللہ تعالیٰ نے، اور ہر پیغمبر مستجاب الدعوات نے لعنت کی ہے اور ان چھ میں سے ایک تارکِ سنت کو بھی شمار کیا ہے۔

ملا علی قاری حنفی نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ تارکِ سنت سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اسے خفیف اور ہلکا سمجھ کر بے پرواہی سے ترک کرے وہ بےشک کافر و ملعون ہے اور جو سستی سے ترک کرے اس پر تغلیظا و تشدیدا لعنت فرمائی ہے۔ درمختار میں ہے: ([2])

پھر میں نے مفتی ابو سعود رحمۃ اللہ علیہ کی معروضات میں ایک سوال دیکھا، اس سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ: ایک طالب علم کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے ایک حدیث کا ذکر آیا اس نے کہا، واہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب احادیث سچی ہوا کرتی ہیں اور ان پر عمل کیا جائے گا؟ مفتی نے جواب دیا کہ وہ کافر ہو گیا۔ اول: تو استفہام انکاری کے سبب سے اور دوسرا: اس کلام میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں عیب لگانے سے، پہلے کفر اعتقادی میں تو تجدید ایمان کا حکم کیا جائے قتل نہ کیا جائے اور دوسرے کفر سے اس کا زندیق ہونا ثابت ہوتا ہے۔ گرفتاری کے بعد باتفاق محدثین اس کی توبہ قبول نہیں، اس کی سزا قتل ہے۔ البتہ گرفتاری سے قبل توبہ میں اختلاف ہے۔ حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول کی جائے قتل نہ کیا جائے اور باقی ائمہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول نہیں، حدا قتل کیا جائے۔

خدا کے بندو غور کرو! اپنے بزرگوں کو دیکھو! اتنی سوء ادبی پر کیسی بڑی سخت سزا تجویز فرمائی ہے، تم کس خواب غفلت میں سوئے ہو۔ کس ورطہ خطرناک میں پڑے ہو، سنت کو برا جاننے پر، کس مذہب کی کس کتاب میں تم نے وعدہ اخروی لکھا پایا ہے۔ برا نہ جاننے میں تمہارا کیا نقصان ہوتا ہے، ملا لوگ پیٹ کے مارے تمہیں طیش میں لا کر اور گرم کر کے کچھ کما لیتے ہیں، کیا خوب حلال کمائی ہے۔ حدیث پر عمل کرنے سے عداوت کرتے ہیں توبہ کرواتے ہیں، اگر عامل بالحدیث نے توبہ کر لی تو ان کا بھائی بنا، نہ کی تو دشمن رہا، موردِ ہزار ہا ہزار طعن و تشنیع و بہتان ٹھہرا۔ یہ عداوت دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اگر عامل بالحدیث سے ہوتی تو ترکِ عمل کے بعد زائل نہ ہوتی اور اس کا سبب شہوتِ بطن کی راہ سے اغوائے شیطانی ہے نہ کہ حمایت اسلامی، اگر حمایتِ اسلامی ہوتی تو فساق، زانی، شرابی، حرام خور، سود خور، رشوت خور، تارکِ نماز، تارکِ زکاۃ، تارکِ حج، تارکِ تقسیم میراث، رافضی، نیچری، کیسر شاہی، داڑھی منڈا، ہندو آریہ، برھمو بحکم شرع کسی کے مقابلہ میں تو ظہور پکڑتے، سب مخالفینِ اسلام سے درگزر یا شیرو شکر اور عامل بالحدیث سے عداوت؟ سبحان اللہ حمایت اسلامی اسی کا نام ہے!

ثبوت رفع الیدین:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا، ہم سے حدیث بیان کی محمد بن مقاتل نے، انہوں نے کہا ہمیں خبر دی عبداللہ بن مبارک نے، انہوں نے کہا ہمیں خبر دی یونس نے، انہوں نے زہری سے، زہری نے کہا ہمیں خبر دی سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز میں کھڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک ان کے کندھوں کے برابر ہوئے اور ایسا ہی کرتے تھے جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے اور ایسا ہی کرتے تھے جب رکوع سے سر اٹھاتے اور سمع الله لمن حمده کہتے اور یہ کام سجدہ میں نہیں کرتے تھے۔ (بخاری 2/219، مشکوۃ۔ 75/طبع کراچی)

اور اسی مضمون کی حدیث مسلم کے صفحہ 168 ج اول میں، مؤطا امام مالک کے صفحہ 25 پر ترمذی صفحہ 36 پر، سنن ابی داؤد کے صفحہ 103 پر، سنن نسائی کے 147، 168 پر، سنن ابن ماجہ کے صفحہ 131 پر، مشکاۃ کے صفحہ 67 میں موجود ہے، قسطلانی شرح بخاری میں ہے کہ اس حدیث کو پچاس صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے، ترمذی نے چودہ صحابہ اور مسک الختام نے چوبیس صحابہ کے نام ذکر کئے ہیں۔ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں کہا: اسے تین صحابہ نے نقل کیا ہے۔ سفر السعادہ کے ص 15 میں ہے کہ اس سے متعلق چار سو (400) احادیث اور آثار صحت کو پہنچتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس جہاں سے رخصت فرمانے تک یہ عمل تھا۔

جس قدر احادیث اس سنت کے بارہ میں کتب احادیث میں موجود ہیں کسی اور سنت کے بارہ میں کم ہی ہوں گی۔ جب اس قدر شافعی، کافی و وافی ثبوت انہیں کفایت نہیں کرتے تو خدا جانے کس قدر اور ثبوت ہوں تو یہ لوگ قبول کریں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم، اللہ کا حکم:

فرمان الٰہی ہے:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ... ﴿٧﴾... سورة الحشر

"اور جو رسول تمہیں دے سو اسے پکڑ لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو۔"

نیز فرمایا:

﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾... سورة النجم

"یہ (رسول اللہ) اپنے نفس کی خواہش سے کچھ نہیں کہتا جو وہ کہتا ہے وہ سب اللہ ہی کا حکم ہے۔"

اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کو برا جاننے سے کفر کا لازم آنا اور اعمال کا ضیاع:

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ذٰلِكَ بِأَنَّهُم كَرِهوا ما أَنزَلَ اللَّـهُ فَأَحبَطَ أَعمـٰلَهُم ﴿٩﴾... سورة محمد

"یہ ان کے اعمال کھو دینا اس لئے کہ انہوں نے اس حکم کو برا جانا جو اللہ نے اتارا، سو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے۔"

جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی دلیل:

حضرت ابو سلمہ سعید بن یزید نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں میں نماز پڑھا کرتے تھے؟ کہا، ہاں پڑھا کرتے تھے۔ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ ناگہاں اپنے جوتے اتار دئیے۔ لوگوں نے بھی دیکھ کر اتار ڈالے۔ نماز سے فراغت پا کر آپ نے پوچھا تم نے اپنے جوتے کیوں اتارے؟ عرض کیا آپ کو دیکھ کر! آپ نے فرمایا: مجھے جبرائیل علیہ السلام نے آ کر خبر دی کہ آپ کے جوتوں میں ناپاکی لگی ہے میں نے اس لئے اتارے تھے۔ جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو جوتوں کو دیکھ لے۔ اگر ان میں نجاست نظر آئے تو ان کو زمین سے رگڑ کر صاف کر لے اور انہیں میں نماز پڑھ لے۔ اس مضمون کی اور بھی احادیث وارد ہیں۔ ([3])

منیہ ([4]) کی شرح کبیر میں ہے کہ: جوتوں میں نماز پڑھنا ننگے پاؤں نماز پڑھنے سے یہود کی مخالفت کے سبب زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے آخر میں ناپاک جوتوں کو پاک کرنے کا بیان بھی ہو چکا ہے۔ بعض لوگ دوستانہ نصیحت کرتے ہیں کہ یہ امور اگرچہ سنت تو ہیں، مگر لوگ ان باتوں سے چڑتے اور شور کرتے ہیں اس لئے ان کا نہ کرنا بہتر ہے۔

اے مہربانوں، تمہیں مہربانی کرو! چڑنا اور شور کرنا چھوڑ دو، چڑنا تو کوئی فرض، واجب، سنت اور مستحب نہیں ہے، جس کے چھوڑنے میں تمہارا کوئی نقصان ہوتا ہو، تمہیں بھی یہی کمزور پہلو نظر آتا ہے۔ شور کرنے والوں کو کیوں نصیحت نہیں کرتے کہ شور نہ کیا کریں۔امرِ شرع سے چڑنا اور شور کرنا ایمان سے بعید ہے۔ خدا اور رسول پر ایمان لائے ہو یا رواجِ ملک پر؟ تمہاری مصلحتوں نے تو ملک سے دین کا نام بھی کھو دیا۔

سوال دوم: زید ایک بڑا کامل ولی اللہ ہے، عمرو نے قسم کھائی کہ اگر میں زید سے کلام کروں تو میری بیوی کو طلاق۔ زید کے فوت ہو جانے کے بعد عمرو نے نادم ہو کر کہا کہ: اے زید میں تجھ سے کلام کرتا ہوں میرا قصور معاف کر دو۔ اب عمرو کو طلاق ہو گی یا نہیں؟ بینوا تواجروا۔

جواب دوم:

فوت ہونے کے بعد کلام کرنے سے قسم نہیں ٹوٹتی اور طلاق واقع نہیں ہوتی۔ کنز ([5]) میں لکھا ہے کہ: کسی نے قسم کھائی کہ اگر میں تجھے ماروں یا کپڑا پہناؤں یا تجھ سے کلام کروں یا تیرے پاس آؤں تو یہ سب قسمیں زندگی کے ساتھ مقید ہوں گی۔ اگر زندہ سے یہ کام کر لے گا تو قسم ٹوٹے گی، مردہ سے کرے گا تو نہ ٹوٹے گی۔

ھدایہ ([6]) میں ہے: جس نے کہا اگر میں تجھ کو ماروں تو میرا غلام آزاد، اگر زندہ کو مارے گا تو غلام آزاد ہو جائے گا۔ مرنے کے بعد مارے گا تو آزاد نہیں ہو گا۔

مستخلص ([7]) میں ہے: کہ اگر کسی نے کہا: میں تم سے کلام کروں تو میرا غلام آزاد، پھر اس کے مرنے کے بعد اس سے کلام کی تو قسم نہ ٹوٹے گی اور غلام آزاد نہ ہو گا۔

اور پھر ہدایہ ([8]) میں ہے: کہ کلام سے مقصود بات سمجھانا ہے اور موت اس کے منافی ہے، مردہ نہ سنتا ہے، نہ سمجھتا ہے۔ اور مستخلص میں ہے کہ: مارنے سے مقصود بدن کو درد پہنچانا ہے اور مردہ اس قابل نہیں، پھر قبر کے عذاب کا اعتراض کر کے اس کا جواب دیا ہے اور جو چاہے فقہ کی ہر کتاب میں کتاب الایمان، باب الیمین فی القتل والضرب وغیرہ سے مراجعت کر سکتا ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قبروں سے پکارنے والے شخص سے مکالمہ:

اور صاحب ([9]) الغرائب فی تحقیق المذاہب میں یوں روایت ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس شخص کو دیکھا جو اولیاء کی قبروں پر آتا پھر ان کو سلام کہتا، ان سے مخاطب ہوتا ان سے باتیں کرتا اور کہتا: اے قبروں والو! تمہیں کچھ خبر بھی ہے، تمہارے پاس کچھ اثر ہے کہ تمہارے پاس کئی ماہ سے تم کو پکار رہا ہوں اور میرا سوال تم سے سوا دعا کے اور کچھ نہیں، سو تمہیں کچھ معلوم بھی ہوا یا غفلت ہی میں پڑے ہو؟ حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس شخص کا قبر والوں سے گفتگو کرنا سنا اور اسے پوچھا کہ ان اولیاء نے تمہیں کچھ جواب دیا؟ اس نے کہا بالکل نہیں! پھر امام صاحب نے اسے بددعا دی کہ تو خدا کی رحمت سے دور ہو، تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں، تم ایسے جسموں سے باتیں کرتے ہو جو جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے، نہ ہی کسی چیز کے مالک ہیں اور نہ ہی آواز سنتے ہیں۔ اور یہ آیت پڑھی:﴿ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ ﴿٢٢﴾  (اور تو قبر والوں کو نہیں سنا سکتا)۔

امام صاحب کی سب کتابوں میں لکھا ہے کہ مردے نہیں سنتے، ولی اور غیر ولی کا کوئی فرق نہیں کیا، دونوں کا ایک حکم بتایا ہے اب جو نہ مانے وہ امام صاحب کی سب فقہ کا منکر ہے۔

کیا شہید اور ولی ایک حکم میں ہیں؟

بعض نادان کہتے ہیں کہ اولیاء کو مردہ کہنا ناجائز ہے۔ اور اس پر دلیل پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کو مردہ کہنے سے منع فرمایا ہے، اور پھر کسی مجہول الاسم کتاب کے حوالہ سے یہ بتاتے ہیں کہ شہید اور ولی کا ایک ہی حکم ہے۔ سو ان کا یہ اجتہاد امام صاحب کے اجتہاد کو رد کرتا ہے۔ اس لئے میں امام رحمہ اللہ کی طرف سے ایک ایسا جواب دیتا ہوں جس کا کوئی مقابل نہیں۔

اور وہ یہ ہے کہ ۔۔۔ شہادت ایک اعلیٰ منصب اور مرتبہ ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں بہت بڑے انعامِ اخروی کا وعدہ دیا گیا ہے اور اس کے احکام قرآن، حدیث اور فقہ میں مذکورہ ہیں اور "ولایت" یعنی ولی ہونا کوئی منصب و مرتبہ شرعی نہیں، بلکہ خٰال پختہ کرنے کے مراتب میں سے صوفیہ کرام کی اصطلاح میں ایک مرتبہ کا نام "ولایت" ہے۔ جس نے اس مرتبہ تک خیال پکا کر لیا اس کا نام "ولی" ہے، مگر یہ اصطلاح ہمارے زیر بحث مسئلہ سے خارج ہے، نہ کلام اللہ، نہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کے لئے کوئی انعام اخروی کا وعدہ ہے اور نہ ہی قرآن و حدیث اور فقہ میں اس کے کوئی احکام مذکور ہیں۔ منیہ، کنز قدوری، شرح وقایہ اور ہدایہ کھول کر دیکھیں کہیں کوئی ولایت کا مسئلہ بیان نہیں کیا گیا پھر دونوں کا ایک حکم کیسے ہو سکتا ہے، کس مجتہد کا یہ قیاس ہے؟

شہداء کی زندگی کیسی ہے؟

جہاں شہیدوں کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے وہیں ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے: " وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ " یعنی تم ان کی زندگی کو نہیں جانتے۔ اور دوسری جگہ فرمایا " عِندَ رَبِّهِمْ " یعنی اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں نہ کہ تمہارے پاس۔ تم اپنے ہاتھ سے شہیدوں کو دفن کرتے ہو، اس کا ترکہ وارثوں میں تقسیم کرتے ہو، اس کی عدت پر عدتِ وفات کا حکم لگاتے ہو، عدت کے بعد نکاح ثانی کے جواز کا فتویٰ دیتے ہو، کیا یہ احکام زندوں پر بھی جاری ہو سکتے ہیں؟

یا رب العالمین، ان لوگوں کے دلوں میں تیری عظمت بیٹھ جائے جو تیری پاک کتاب کے معانی خراب کرنے سے ان کو مانع ہو۔ آمین یا رب العالمین

جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کے کفر سے متعلق

بسم الله الرحمن الرحيم و نصلي علي رسوله الكريم

وقت باقی ہے پڑھو یارو نماز

آستانے پر رکھو فرق نیاز

وقت باقی ہے اٹھو کر لو وضو

دین و دنیا میں بنو با آبرو

نماز کی فرضیت، اہمیت اور وعید:

سب مسلمان جانتے ہیں کہ ایمان کے بعد افضل عبادت نماز ہے اور ہر دن میں پانچ بار فرض ہے اور اس کے ادا کرنے میں بڑی بڑی فضیلتیں وارد ہیں اور اس کے ترک کرنے میں سخت وعیدیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ ([10]) نمازیں فرض کی ہیں، پس جو کوئی ان کے لئے اچھی طرح وضو کرے، اور ان کو اپنے وقت پر ادا کرے اور ان کا رکوع و خشوع پورا کرے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا عہد ہے کہ اس کو بخشے اور جو ایسا نہ کرے سو اللہ کے ہاں اس کا عہد نہیں ہے، خواہ اس کو بخشے خواہ عذاب کرے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ([11]) نے فرمایا: جو کوئی نماز کی حفاظت کرے گا۔ وہ نماز اس کے لئے قیامت کے روز نور، محبت اور نجات ہو گی اور جو کوئی اس کی حفاظت نہ کرے وہ اس کے لئے نہ نور ہو گی، نہ دلیل ہو گی اور نہ ہی نجات، اور وہ شخص قیامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا ۔۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روز قیامت سب سے پہلے نماز کا سوال ہو گا۔

اسی طرح اور بھی احادیث و آیات ان مضامین سے بھری پڑی ہیں، مگر اس کے باوجود دیکھا جاتا ہے کہ بہت کم لوگ اس فریضہ کو ادا کرتے ہیں حالانکہ اس میں نہ کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ کوئی بدنی مشقت لاحق ہوتی ہے۔ یہاں کے علماء سے بغرض آگاہی ناواقفین و بیداری غافلین، ذیل میں مرقوم ایک استفتاء کیا گیا ہے، جس کا جواب ہر شخص کو بغور دیکھنا اور اس پر لازما عمل کرنا چاہیے سو ہم سب کے لئے مناسب ہے کہ اپنی ہمتیں اس عمل خیر میں مصروف کریں اور خود پابندی کر کے اپنے توابع و احباب کو فہمائش کریں اور جو شخص نہ مانے اس سے اختلاط و ملاقات ترک کر دیں اور اسے اپنے کھانے پینے میں شریک نہ کریں، جس شخص سے خدا اور رسول بیزاری ظاہر فرما دیں اس کو کیونکر اپنا دوست سمجھنا اور خوردونوش میں شامل کرنا گوارہ ہو گا۔ سزا تو بے نماز کی بہت بڑی ہے۔ تاہم اس کی ادائیگی جب ممکن ہے تو اس میں غفلت و کوتاہی نہیں کرنی چاہیے:

بے نمازوں سے بنو اتنے نفور

گم ہو ان کی غفلت و خواب و غرور

ان کے برتن میں نہ تم پانی پیو

اپنے برتن میں نہ پانی ان کو دو

مت کھلاؤ ساتھ میں ان کو طعام

خاکروبوں سے بہتر ہیں ان کے کام

ہاتھ کا ان کے نہیں کھانا درست

ان کی دعوت میں نہیں جانا درست

حقہ و پان ان کو مت دو زینہار

دل جلے شاید اسی پر ایک بار

زرد رو ہیں سرخرو ہو جائیں اب

ایک دم میں نماز ہو گیا عجب

اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس کی توفیق بخشے۔ استفتاء مع جواب ذیل میں درج ہے۔ اس کی اصل عاجز کے پاس جامع مسجد میں موجود ہے۔ شک کی صورت میں تشریف لا کر ملاحظہ فرمائیں۔ فقط


[1] اصل حدیث اس طرح ہے:

وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة لعنتهم و لعنهم الله و كل نبي مجاب : الزائد في كتاب الله و المكذب بقدر الله تعالى و المتسلط بالجبروت فيعز بذلك من أذل الله و يذل من أعز الله و المستحل لحرم الله و المستحل من عترتي ما حرم الله و التارك لسنتي

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھ قسم کے لوگوں پر میں نے لعنت کی اور اللہ نے بھی لعنت کی اور نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (1) اللہ کی کتاب میں اضافہ (زیادتی) کرنے والا (2) اور اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا (3) جبر کے ذریعہ غلبہ پانے والا کہ جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے وہ اسے عزت دے اور جسے اللہ نے عزت دی ہے وہ اسے ذلیل کرے (4) اور اللہ کے حرام کو حلال سمجھنے والا (5) اور وہ جو میری اولاد سے حلال سمجھے جو اللہ نے حرام کر دیا ہے (6) اور میری سنت کو چھوڑنے والا (بحوالہ مشکوۃ باب الایمان بالقدر) ترمذی احمد شاکر 4/457، حاکم 1/36، مصابیح السنہ 1/144 ۔۔۔ (خلیق) جاوید

[2] ثم رأيت فى معروضات المفتى ابى السّعود سؤالاملخّصه: ان طالب العلم ذكر عندى حديثا من احاديث النبى صلى الله عليه وسلم فقال اكلّ احاديث النبى صلى الله عليه وسلم صدق يعمل بها؟ فاجاب بانّه يكفر، اوّلا: بسبب استفهامه الانكارىّ، و ثانيا: بالحاقة الشّين للنبى صلى الله عليه وسلم ففى كفره الاوّل عن اعتقاده يؤمر بتجديد الايمان ولا يقتل، والثّانى يفيد الزّندقة فيعد اخذه لا يقبل توبته اتفاقا قبله اختلف فى قبول توبته، فعند ابى حنيفة رحمة الله عليه تقبل فلا تقتل، و بقيّة الأئمّة لا تقبل و تقتل حدا۔ (درمختار 2/282) (مؤلف) (جاوید)

[3] (مسند احمد 3/92،20، دارمی 1/426، ابوداؤد 1/426، مشکوۃ 73، مصابیح السنہ 1/303)

[4] ومنها، الصلاة فى النعلين تفضل على الصلاة الحافى اضعافا مخالفة لليهود۔ (کبیری شرح منیہ ص 72) (مؤلف)

ان ضوبتك او كسوتك او كلمتك او دخلت عليك تقيد بالحيوة (کنز)[5]

[6] من قال ان ضربتك فعبدى حر فهو فى الحيوة (هدایه)

[7] وكذلك لو قال ان كلمتك فعبدى حر فكلمه بعد موته لا يحنث (مستخلص)

[8] لان المقصود من الكلام، الافهام والموت ينافيه۔ (هدایه 2/504)

رأى الامام ابو حنيفة من ياتى القبور لاهل الصلاح فيسلم ويخاطب ويتكلم ويقول يا أهل القبور هل لكم من خبر وهل عندكم من شر انى اتيتكم وما اتيتكم من شهور وليس سؤلى منكم الاالدعا، فهل وريتم ام غفلتم؟ فسمع ابوحنيفة يقول بمخاطب بهم، فقال هل اجابوا لك؟ قال لا، فقال وتربت يداك كيف تكلم اجسادا لايستطيعون جوابا ولايملكون شياء ولا يسمعون صوتا وقرا: وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ[9]

مسند احمد 5/317، ابوداؤد 1/295، مصابیح السنۃ 1/252، دارمی 1/170، نسائی 1/230، ابن ماجہ البانی 235[10]

[11] مسند احمد 2/192، دارمی 2/301، بیہقی شعب الایمان 6/116، مشکل الآثار 4/229

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:201

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ