سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) مساجد میں جگہ مخصوص کرنا

  • 23978
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2249

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل دو مسائل سے متعلق کیا فرماتے ہیں:

1۔ بعض مساجد میں یہ رواج عام ہے کہ نمازِ تراویح اور جمعہ و عیدین میں آنے والا شخص اپنا کپڑا، پگڑی یا چادر وغیرہ رکھ کر اپنے ان احباب کے لئے جو ابھی تک مسجد میں نہ آئے ہوں ان کے لئے دور تک جگہ روک لیتا ہے اور دوسرے شخص کو اس مخصوص جگہ پر بیٹھنے نہیں دیتا اور اگر کوئی اس جگہ بیٹھ جائے تو اس سے جھگڑنا شروع ہو جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات مار پیٹ اور خون خرابہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ تو کیا یہ امر جائز ہے یا نہیں اور جگہ روکنے والا عند الشرع گنہگار ہوتا ہے یا نہیں؟

2۔ کوئی شخص مسجد میں آ کر بیٹھا اور پھر کسی شرعی حاجت یا کسی کام سے اٹھ کر چلا گیا اور کپڑا وغیرہ صرف اپنی ہی جگہ پر چھوڑ گیا جہاں بیٹھا تھا، اس لئے کہ وہی شخص اس جگہ کا مستحق ہے اور کسی دوسرے کو بیٹھنے نہیں دیتا، کیا یہ امر جائز ہے یا نہیں؟ نیز امام و متولی مہتمم مسجد جن کو اختیار ہے کہ ایسی خلاف (شرع) حرکات سے نمازیوں کو روک سکتے ہیں اس طرف بالکل توجہ نہیں کرتے، ان کے حق میں شریعت کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد میں جگہ روکنے کا عدم جواز:

ان الحكم الا لله سبحانك لا علم لنا الا ما علمتنا

اس طرح مسجد میں جگہ روکنا ہرگز جائز نہیں اور ایسا کام کرنے والا خطاکار اور گنہگار ہے اس لئے کہ سب مساجد خالص حق تعالیٰ شانہ کے لئے ہیں ان میں کسی کا استحقاق دوسرے سے زیادہ نہیں بلکہ سب برابر ہیں۔

﴿وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّـهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾... سورة الجن

"اور بےشک مسجدیں اللہ ہی کے لئے خاص ہیں سو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔"

اور فرمان الٰہی ہے:

﴿سَواءً العـٰكِفُ فيهِ وَالبادِ وَمَن يُرِد فيهِ بِإِلحادٍ بِظُلمٍ نُذِقهُ مِن عَذابٍ أَليمٍ ﴿٢٥﴾... سورة الحج

"مساوی ہے وہاں کے وہنے والے ہوں یا باہر کے، جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں کا ارادہ کر لے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔"

پہلے سے بیٹھنے والے کو اٹھانا ناجائز ہے:

سو جو کوئی شخص پہلے پہل آیا اور اپنے بیٹھنے کی مقدار جتنی جگہ پر بیٹھ گیا اسی کا وہ مستحق ٹھہرے گا اس کو وہاں سے اٹھانا کسی کے لئے درست نہیں اور اگر وہ زیادہ جگہ روکے گا تو دوسرا آنے والا اس جگہ پر بیٹھ سکتا ہے کیونکہ جگہ کا مخصوص کرنا اس کے لئے جائز نہیں، اور وہ بعد میں آنے والے کا استحقاق ہے، چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث اس کے لئے ناطق ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(لا يقيمن أحدكم أخاه يوم الجمعة ، ثم يخالف إلى مقعده فيقعد فيه ، ولكن يقول تفسحوا) (متفق علیه، مسلم 4/1715، مصابیح السنه 1/472)

"جمعہ کے دن تم سے کوئی اپنے بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر قبضہ کر کے بیٹھنے کی کوشش نہ کرے، بلکہ لوگوں سے کہے، کھلے ہو جاؤ۔"

پس ابتدائے حدیث کے منطوق سے سابق کا استحقاق اور اس کے اٹھانے کی حرمت ثابت فرمائی اور آخرِ حدیث سے سابق کو زیادہ جگہ لینے کی ممانعت اور بقیہ کا بعد میں آنے والے کو مستحق قرار دیا کیونکہ اگر زائد جگہ کا کوئی مستحق نہ ہوتا تو کلمہ " تفسحوا " کہہ کر اپنی جگہ اس سے کس طرح نکال سکتا ہے جبکہ وہ پہلے سے آیا ہوا تھا۔ سو ظاہر ہوا کہ اگر جگہ کہیں زائد ہو تو موجود شخص اس پر بیٹھ سکتا ہے کیونکہ وہی اس کا مستحق ہے۔

اور اس قوی دلیل کے علاوہ امر مسئولہ میں مزید دلیلِ محکم یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ جب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں منیٰ میں خاص آپ کے لئے مکان بنانے کی عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " لا ، منًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ " یعنی میرے لئے مکان مت بتاؤ کہ منیٰ ہر سابق کے لئے قیام گاہ ہے اور مکان بنانے کے صورت میں "بانی" کی تخصیص ہو جاتی ہے، اور محل کا حصر قبل از حضورِ حاضر لازم آتا ہے اور منیٰ اس حکم مساوات تصرف عامہ میں مسجد کی مانند ہے۔ كما لا يخفي علي الماهر الفطين

خلاصہ کلام:

تو ظاہر ہوا کہ ایسے مقامات میں کسی کو پہلے سے جگہ روکنا روا نہیں، جو شخص آتا جائے اپنی جگہ لیتا جائے نہ کہ اپنے اقارب و احباب کے لئے مقام مخصوص کر لے اور کپڑے ڈال کر روک رکھے، کیونکہ یہ فعل ایک قسم کا ظلم ہے۔ دیکھئے! خود حضرت فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی ذات پاک کے لئے اس کو پسند نہیں فرمایا تو پھر اور کسی کی تو حقیقت ہی کیا ہے۔ نیز ایسے خاص مقاماتِ مطہرہ میں آپس میں مار پیٹ اور خون خرابہ کرنا سراسر نفس و شیطان کی پیروی ہے اور اس کی حرمت و شناعت صاف ظاہر ہے۔ نعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيئات اعمالنا

اور مسئلہ ثانی کا جواب یہ ہے کہ جو شخص پہلے سے آ کر پھر ضرورت کے لئے اپنا کپڑا رکھ کر چلا جائے۔ سو اگر یہ شخص قریب ہی حوائج ضروریہ کے لئے مثل وضوء و استنجاء کے گیا ہے تو یہ اس جگہ کا پہلے مستحق ہو چکا تھا۔ اب بھی وہی شخص زیادہ حق دار ہے بدلیل محکم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

اذا قام الرجل من مجلس ثم رجع اليه فهو احق به۔ (رواه ابوداؤد في سننه [1]

"جب کوئی شخص مجلس سے اٹھے پھر وہیں لوٹ آئے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔"

ہاں! اگر وہ بھی جگہ کو روک کر اپنے کاروبار اور دنیاوی لین دین کے لئے چل دیا تو اب وہ مستحق نہیں رہا، بلکہ دوسرے غیر حاضرین کی مثل ہے، چنانچہ "حدیث منیٰ" صراحت کرتی ہے جس کے بعد اخفاء نہیں ہے کہ جب ایسے امور منکرہ، شنیعہ و قبیحہ مساجد میں سرزد ہوتے ہوں اور متولی مسجد یا امام و مہتمم جو ایسے امور کو روکنے اور رد کرنے پر قادر ہیں اور عمدا ان کا ازالہ و رد نہ کریں تو وہ گنہگار اور ماخوذ ہوں گے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

ما من رجل يكون في قوم يعمل فيهم بالمعاصي يقدرون علي ان يغيروا فلا يغرون الا اصابهم الله بعذاب من قبل ان يموتوا ([2])

"کوئی شخص کسی قوم میں رہ کر گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور قوم کے لوگ اس کو تبدیل کرنے پر قادر بھی ہوں اور وہ ایسا نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔"

سو ہر قادر شخص پر اس قسم کے فساد کا ازالہ و اصلاح واجب و لازم ہے۔ والله اعلم وعلمه اتم

اسمائے گرامی و مؤیدین علماء کرام:

٭ الجواب حسن، فقیر محمد مسعود نقشبندی امام مسجد فتح پوری

٭ جواب ھذا صحیح ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ دہلوی

٭ مجیب نے جواب صحیح و درست لکھا ہے، ایسا ہی فتاویٰ عالمگیریہ میں بھی ہے حررہ محمد یٰسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی

٭ اصل الجواب صحیح۔ حررہ الفقیر الحقیر محمد شاہ عفی عنہ، مدرس مدرسہ مسجد فتح پوری دہلی۔ (1253ھ محمد شاہ دردوجہان)

٭ الجواب صحیح، واللہ اعلم بالصواب۔ (محمد عبیداللہ 1391ھ)

٭ الجواب ناطق بالصدق والصواب ابو محمد احمد حسن 1304ھ

٭ الجواب صحیح۔ فقیر عبدالحق 1390ھ

٭ واللہ اعلم احمد حسن ساکن بجنور

٭ قادر بخش 1304ھ

٭ الجواب صحيح والله اعلم و علمه اتم،  عفی عنہ (محمد بن ہاشم غفرلھا العالم)

٭ الجواب صحیح والمجیب نجیح۔ حررہ محمد ابو عبدالرحمٰن پنجابی

٭ الجواب صحیح والرای نجیح۔ حررہ ابو محمد عبدالرؤف البہاری۔ (عبدالرؤف 1303)

٭ الجواب صحیح۔ محمد نوازش علی ساکن قصبہ کاہلہ

٭ الجواب صحیح، واللہ اعلم (محمد عبیداللہ 1291ھ)

٭ (وارد امید شفاعت ز محمد یعقوب) فقیر/محمد یعقوب عفا اللہ عنہ الذنوب دہلوی

٭ الجواب صحیح والمجیب نجیح، حررہ محمد امیر الدین واعظ مذہب حنفیہ جامع مسجد دہلی۔

(محمد امیر الدین 1300ھ)

٭ شان محمد یٰسین نازل شدہ در جبل پوری

٭ محمد عبداللہ عفی عنہ مدرس مدرسہ مولوی عبدالرؤف

٭ محمد حسن عفی عنہ مدرس مدرسہ مولوی عبدالرؤف

٭ سید محمد عبدالسلام 1299ھ غفرلہ

٭ خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوھاب الفنجابی الجھنگوی ثم الملتانی نزیل الدہلی صدر بازار امام مسجد سراے حافظ بنا۔

٭ خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین 1292ھ

٭ الجواب صحیح۔ محمد طاہر سلہٹی

٭ محی الدین پوری العظیم آبادی

٭ الجواب صحیح والرای نجیح۔ ابو القاسم محمد عبدالرحمن الاھوی۔

٭ لقد اصاب من اجاب۔ ابو عبداللہ محمد فقیر اللہ المتوطن ضلع شاہ پور

٭ الجواب صحیح۔ عبداللطیف عفی عنہ (عبداللطیف شہپوری)

٭ المسئلۃ صحیحۃ والمجیب نجیح (محمد عبدالرب 1290ھ) بانی مسجد سہارنپوری

٭ امیدوار شفاعت ز محمد عبدالقادر 1298ھ


[1] ابوداؤد 5/180، مسلم میں ہے: من قام فى مجلسه ابى عوانة رضى الله عنه ۔۔۔ ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کے الفاظ اذا قام آحدکم ۔۔۔ الخ (مسلم 4/1715)

[2] رواہ ابوداؤد 4/511، ابن ماجہ حدیث 4009

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:171

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ