سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(09) ولد الزنا کے پیچھے نماز پڑھنا

  • 23976
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3168

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علماء دین ولد الزنا کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں کہ وہ دوزخی ہے یا جنتی؟ نیز اس کے ساتھ کھانا، نکاح کرنا، اس کے پیچھے نماز پڑھنا اور اس کے علاوہ دوسرے اسلامی معاملات رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نابینا کی امامت شرعا درست ہے:

ولد الزنا کیا اسلام سے خارج ہے؟

ماہرین شریعت پر مخفی نہیں ہے کہ ولد الزنا ہونا شرع میں ایسا کوئی عیب نہیں ہے جس سے ولد الزنا احاطہ اسلام سے خارج ہو یا اسلام کا کوئی حکم اس سے اٹھ جائے یا حقوق المسلمین میں سے اس سے کوئی حق فوت ہو جائے یا اس کے اسلام میں کوئی خلل واقع ہو بلکہ جیسے اور صحیح النسب مسلمان ہیں ویسے ہی وہ بھی مسلمان ہے، سارے احکام اسلام کے اس پر ہیں اور جتنے حقوق مسلمانوں کے ہوتے ہیں سب اس کے بھی ہیں۔ کوئی شرعی دلیل اس پر قائم نہیں ہے کہ ولد الزنا ہونے سے کوئی ایسا عیب پیدا ہوتا ہو جس سے مذکورہ بالا امور میں سوالات لازم آتے ہوں، جو مدعی ہو وہ دلیل لائے۔ " البينه على المدعى " اور یوں بھی یہ کیونکر ہو سکتا ہے، گناہ کا ارتکاب تو اس کے ماں باپ نے کیا ہے اس کا الزام ان پر ہے مولود کا اس میں کیا گناہ ہے، ماں باپ کا گناہ لڑکے پر کیونکر ہو سکتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرىٰ...﴿١٨﴾... سورة الفاطر

"اور کوئی بھی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا"

اور فرمایا:

﴿كُلُّ نَفسٍ بِما كَسَبَت رَهينَةٌ ﴿٣٨﴾... سورة المدثر

"ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے۔"

اور فرمایا:

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها لَها ما كَسَبَت وَعَلَيها مَا اكتَسَبَت...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

"اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جو نیکی وہ کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی وہ کرے وہ اس پر ہے"

مزید فرمایا:

﴿تِلكَ أُمَّةٌ قَد خَلَت لَها ما كَسَبَت وَلَكُم ما كَسَبتُم وَلا تُسـَٔلونَ عَمّا كانوا يَعمَلونَ ﴿١٣٤﴾... سورة البقرة

"یہ جماعت تو گزر چکی جو انہوں نے کیا وہ ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے، ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے۔"

اس مضمون کی بہت سی آیات اور احادیث ہیں کہاں تک نقل کروں، سمجھنے کے لئے اسی قدر کافی ہے جس کو قرآن و حدیث سے ذرا بھی لگاؤ ہے وہ انکار نہیں کر سکتا۔

ہاں جو گناہ ان کے ذاتی ہیں ان کا الزام ان پر ہو گا اور ان کی سزا پانے کے مستحق ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:

﴿فَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّةٍ خَيرًا يَرَهُ ﴿٧ وَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾... سورة الزلزال

"سو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔"

مزید فرمایا:

﴿مَن جاءَ بِالحَسَنَةِ فَلَهُ عَشرُ أَمثالِها وَمَن جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجزىٰ إِلّا مِثلَها ... ﴿١٦٠﴾... سورة الانعام

"پس جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی۔"

ولد الزنا جنتی یا دوزخی؟

سو ولد الزنا کا جب یہ حال ہے تو اس کا دوزخی یا جنتی ہونا دوسرے مسلمانوں کی طرح اس کے ذاتی اعمال پر منحصر ہے۔ ولد الزنا ہونے پر وہ دوزخی نہ ہو گا، اور مسلمانوں کا اس کے ساتھ کھانا، پینا، نکاح کرنا درست ہے، کیونکہ وہ تو دوسرے مسلمانوں کی مثل ہے اس طرح اسلام کے تمام حقوق اس سے منسلک رکھنے چاہئیں، اس سے نفرت کرنی یا اس کا حق اسلام سے ترک کرنا صریح ظلم اور قبیح فعل ہو گا، کیونکہ بغیر کسی سبب شرعی کے کسی مسلمان سے نفرت کرنی یا اس کا حق تلف کرنا ظلم نہیں تو کیا ہے!

فرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿وَما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الفـٰسِقينَ ﴿٢٦ الَّذينَ يَنقُضونَ عَهدَ اللَّهِ مِن بَعدِ ميثـٰقِهِ وَيَقطَعونَ ما أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يوصَلَ وَيُفسِدونَ فِى الأَرضِ أُولـٰئِكَ هُمُ الخـٰسِرونَ ﴿٢٧﴾... سورة البقرة

"اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کو توڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹتے ہیں ۔۔"

بخاری شریف میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

المسلم من سلم المسلمون من لسانه و يده (فتح الباری، کتاب الایمان 1/63، مسلم 1/65، مصابیح السنه: 1/114)

"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں۔"

ولد الزنا کی امامت کیسی ہے؟

اور اگر وہ قرآن پڑھا ہوا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی بلا کراہت درست ہے اور اگر وہ " اقرا " (یعنی زیادہ پڑھا ہوا) ہو تو اس کے پیچھے پڑھنا اولیٰ و نسب ہے۔ بحکم حدیث: يؤمكم اقرءكم بكتاب الله (فتح الباری 2/184، مسلم 1/465)

تمہاری امامت وہ کرائے جو تم میں سے قرآن کریم کو سب سے زیادہ پڑھنے والا ہو۔ (بخاری و مسلم)

اس کی امامت کے ناجائز ہونے یا کراہت کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، جو لوگ مکروہ کہتے ہیں ان کی یہ بات بلا دلیل ہے جیسا کہ تفصیل آئندہ آئے گی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک:

چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ولد الزنا کی امامت کی صحت سے متعلق باب قائم کیا ہے۔ صاحب فتح الباری رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور کا درج ذیل مذہب نقل کیا ہے کہ ولد الزنا کی امامت صحیح ہے:

وَإِلَى صِحَّةِ إِمَامَةِ وَلَدِ الزِّنَا ذَهَبَ الْجُمْهُورُ أَيْضًا وَكَانَ مَالِكٌ يَكْرَهُ أَنْ يُتَّخَذَ إِمَامًا رَاتِبًا وَعِلَّتُهُ عِنْدَهُ أَنَّهُ يصير مُعَرَّضًا لِكَلَامِ النَّاسِ فَيَأْثَمُونَ بِسَبَبِهِ، وَقِيلَ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِي الْغَالِبِ مَنْ يَفْقَهُهُ فَيَغْلِبُ عَلَيْهِ الْجَهْلُ  (فتح الباری 2/185)

"جمہور کے نزدیک ولد الزنا کی امامت درست ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ زانی کی امامت کو مکروہ جانتے تھے اس لئے کہ وہ لوگوں کی گفتگو کا نشانہ بنے گا سو بایں سبب وہ گناہ گار ہوں گے اور کہا گیا ہے کہ غالب خیال ہے کہ اسے کوئی سنبھالنے والا نہ ہو تو اس پر جہالت کا غلبہ ہو گا۔"

اس کی امامت کو مکروہ کہنے والے اور ان پر رد:

اب جو لوگ مکروہ کہتے ہیں ان کی دلیل، سنی حنفی مذہب میں یہ ہے کہ جب اور لوگ بھی ولد الزنا کے سوا پڑھے ہوئے ہوں تب اس کا امام بنانا مکروہ ہے اور جب اور کوئی پڑھا ہوا نہ ہو تب مکروہ نہیں ہے۔

و ولد الزنا هذا ان وجد غيرهم والا فلا كراهة  (بحر کذا فی در المختار 1/54-55)

"اور ولد الزنا کے علاوہ اگر دوسرے لوگ پائے جائیں تو وہ امامت کروائیں، اور اگر نہ ہوں تو پھر اس کی امامت میں کوئی کراہت نہیں ہے۔"

اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مستقل امام مقرر کرنا مکروہ ہے، البتہ کبھی کبھار بنا لینا مکروہ نہیں ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا فتح الباری کی عبارت سے مترشح ہے، اب ان کی دلیل دیکھئے!

پہلی دلیل:

ان کی یہ ہے کہ اس کا کوئی مشفق باپ نہیں جو اسے تعلیم دے، سو غالب خیال ہے کہ وہ جاہل ہے۔

یہ ایسی لا یعنی دلیل ہے کہ اسے رد کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ اس کی کراہت کا سبب جہالت ہے۔ سو ولد الزنا ہونے کو کچھ دخل نہ ہوا بلکہ اس کی بنیاد جہالت ہے، تو کلیۃ اس کی امامت کو مکروہ کہنا غلط ہوا بلکہ جیسے اور جاہل مسلمان کی امامت مکروہ ہے، اگر یہ بھی جاہل ہو گا تو اس کی امامت بھی مکروہ ہو گی اس کو الگ بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے بلکہ اس کو الگ بیان کرنا مضر ہے کہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات جم گئی کہ ولد الزنا خود ایسا عیب شرعی ہے جس سے امامت مکروہ ہوتی ہے حالانکہ یہ بات نہیں ہے، جو لوگ مکروہ کہتے ہیں ان کا بھی یہ مذہب نہیں ہے تو اسے الگ بیان کرنے سے لوگوں کے دلوں میں کیسا فاسد اعتقاد بیٹھ جائے گا۔ نعوذ باللہ۔ چنانچہ امام طحطاوی حنفی المذہب نے اس دلیل کو لا یعنی کہا ہے:

قوله: وولد الزنا لتنفر الناس عنه وما قيل لانه ليس له اب له يؤد به فيغلب عليه الجهل، تعليل بارد (عيني كذا في الطحطاوي)

"ولد الزنا سے لوگ متنفر ہوتے ہیں اور جو اس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ: "اس کا باپ نہ ہو جو اسے ادب سکھائے پس اس پر جہالت غالب ہو گی" کمزور علت ہے۔ (عینی)

دوسرا اس کا مقدمہ بلا دلیل ہے ۔۔۔ فتامل فيه ۔۔۔

دوسری دلیل:

ان کی یہ ہے کہ: لوگ اس سے نفرت کریں گے اور جماعت میں تفریق پیدا ہو گی۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے:

ولان في تقدير هؤلاء تنفر الجماعة فكره (هدایه 1/122)

"اس لئے کہ ان کی عزت و تکریم جماعت میں باعث نفرت ہو گی جس وجہ سے اس کی امامت ناپسندیدہ ہے ۔۔۔ یہ دلیل بھی پہلی دلیل ہی کی طرح ہے۔"

پالے چوبیں سخت بے تمکین بود

"لکڑی کے پائے سخت و مضبوط نہیں ہیں"

کیونکہ یہ بات تو ثابت ہے کہ لوگوں کی یہ نفرت بے جا و ظلم ہے، اس میں کوئی شرعی عیب قابل نفرت نہیں ہے، اور اگر یہ امر فریقین کے ہاں مسلم ہے تو ناحق چیز کو ختم کرنا چاہیے اور لوگوں کو ظلم سے روکنا چاہیے یا موضوع نفرت کو مضبوط و مستحکم کرنا چاہیے اور مظلوم پر ظلم، اور ظالم کی اعانت نہیں کرنی چاہیے؟ کوئی صاحب عقل یہ بات کیونکر کہہ سکتا ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی سرداری میں بے جا طعن کیا تھا اور ان کی اطاعت سے اظہار نفرت کیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا اور اس بے جا نفرت سے ڈرایا اور ظلم سے باز رکھا اور ان کی سرداری بھی قائم رکھی، یہ تو نہ کیا کہ ان کی نفرت قائم اور سرداری باطل دی ہو۔ بس ولد الزنا سے متعلق بھی وہی اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ کہ اس کے برعکس رویہ اختیار کیا جائے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت عبداللہ بن دینار سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ:

بعث رسول الله صلي الله عليه وسلم بعثا وأمر عليهم أسامة بن زيد، فطعن بعض الناس في أمرته فقام رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال: ان كنتم تطنعون في امرته، فقد كنتم تطعنون في امارة ابيه من قبل، وأيم الله إن كان لخليقا للأمارة، وإن كان لمن أحب الناس إلي، وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده (فتح الباری 7/86)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اسامہ بن زید کو اس پر امیر مقرر فرمایا بعض لوگوں نے ان کی سرداری پر طعن کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: کہ اگر تم اس کی سرداری پر طعن کرتے ہو تو اس سے قبل اس کے باپ کی سرداری پر بھی طعن کر چکے ہو، اللہ کی قسم! وہ امارت کا مستحق تھا اور لوگوں میں میرے نزدیک بہت زیادہ محبوب تھا اور اس کے بعد یہ (حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ) لوگوں میں سب سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہے۔"

سو جو لوگ ولد الزنا کی امامت کو مکروہ کہتے ہیں وہ لوگ اعانت علی الظلم کرتے ہیں اور اس پر ظلم کرتے ہیں اور لوگوں میں فاسد عقیدت کی اشاعت کرتے ہیں ([1])

كما لا يخفي علي من له ادني فهم۔ والله اعلم بالصواب۔ قد نمقه العبد المهين محمد يٰسين الرحيم آبادي، العظيم آبادي

اسمائے گرامی و دستخط مؤیدین علماء کرام:

٭ الجواب صحیح والمجیب نجیح۔ حررہ محمد فقیر اللہ پنجابی۔

٭ جواب ھذا صحیح ہے۔ حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ۔

٭ المجیب مصیب۔ محمد حسین خان خورجوی۔

٭ خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوھاب

٭ ابو محمد عبدالحق 1305ھ لودیانوی

٭ محمد طاہر 1304ھ سلہٹی


[1] تاہم دارالعلوم دیوبند ولد الزنا کی امامت کو بلا کراہت جائز کہتے ہیں۔ تفصیل ذیل میں ملاحظہ ہو:

سوال: جس شخص کے باپ کا حال معلوم نہ ہو کہ کون ہے؟ کیا وہ مسجد کا مستقل امام ہو سکتا ہے یا نہیں؟

جواب: اگر خود لائق امام بنانے کے ہے مثلا مسائل نماز سے واقف ہے اور قراءت صحیح پڑھتا ہے اور فسق و فجور سے مجتنب ہے تو وہ امام بنایا جا سکتا ہے۔ شامی میں تصریح ہے کہ اگر ولد الزنا خود صالح و عالم وغیرہ ہو تو اس کی امامت بلا کراہت صحیح ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم 3/204)

دوسری جگہ لکھا ہے کہ حرامی کے پیچھے نماز درست ہے۔ جو مشہور رہے وہ بین الناس، یہ غلط ہے اور صورت مسئولہ میں اس کا امام بنانا بلا کراہت درست اور جائز ہے۔ کیونکہ احکامِ نماز سے سب سے زیادہ واقف ہے اور فقہاء نے وجہ کراہت یہ تو تحریر فرمائی ہے کہ حرامی کا کوئی باپ شفیق نہیں ہوتا لہذا جاہل رہتا ہے، تو معلوم ہوا کہ اگر جاہل نہ ہو تو بلا کراہت جائز ہے۔ بلکہ اس صورت میں سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کو امام بنایا جائے۔ کما فی الدر المختار۔ (فتاویٰ دارالعلوم 3/322) (جاوید)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:159

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ