سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59) اسلام اور سیاست

  • 23962
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 5372

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خود کو روشن خیال تصور کرنے والے بعض مسلم مفکرین نے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی ہے جسے وہ ’’سیاسی اسلام‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاسی اسلام سے مراد ان لوگوں کا اسلام ہے جو دین میں سیاست کو شامل قراردیتے ہیں اور دینی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سر گرمیوں میں بھی شامل رہتے ہیں۔ دراصل ان لوگوں نے یہ نئی اصطلاح ان لوگوں پر تنقید کرنے کے لیے ایجاد کی ہے جو اسلام کو مکمل نظام حیات کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں کیا واقعی اسلام کا سیاست سے کوئی رشتہ  نہیں ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلم دانشوروں میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اسلام کے دشمنوں کے خطوط پر سوچتے ہیں اور انھی کی پالیسیوں کو نافذ کرنا چاہتے ہیں اسلام کو عملی زندگی سے بےدخل کرنے کے لیے انھوں نے کبھی اسے ذاتی زندگی(Personal life)تک محدود کردیا تو کبھی اس کی صورت مسخ کرنے کے لیے اس کے مختلف ماڈل بنا ڈالے اور اسے مختلف نام عطا کردیے ۔ مثلاً سیاسی اسلام اقتصادی اسلام ،روشن خیال اسلام ، رجعت پسند اسلام ، ہندوستانی طرزکا اسلام ، عربی طرز کا اسلام ، ترکی طرز کا سلام اور نہ جانے اسلام کے کون کون سے ماڈل انھوں نے وضع کر رکھے ہیں۔حالانکہ اسلام ایک ہی ہے اور یہ وہ اسلام ہے جو قرآن وسنت میں پایا جاتا ہے۔اور جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  آپ کےصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور سلف صالحین نے اپنے عملی نمونوں سے پیش کیا ہے ۔

قرآن وحدیث کی تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عملی نمونوں پر غورکرنے بعد پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسلام سے سیاست کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا ۔ سیاست سے بےدخل ہونے کے بعد اسلام اسلام نہیں رہ سکتا ۔کوئی دوسرا ہی دین بن جائے گا کیوں کہ:

(1)اسلامی شریعت کے بہت سارے واضح احکام عین سیاست سے متعلق ہیں ۔اسلام محض روحانی عقیدہ ہ یا چند دینی رسم ورواج کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ عقیدہ بھی ہے اور عبادت بھی اور تمام دنیوی معاملات کو بہ حسن و خوبی برتنے کا ایک بہترین نظام بھی یہ دنیوی مسائل خواہ سیاسی ہوں یا معاشرتی اور اقتصادی یاان کا تعلق معاملات سے ہو۔ یہ مسائل چاہے حالت امن سے تعلق رکھتے ہوں یا حالت جنگ سے ان تمام امور میں دین اسلام کے واضح قواعد واصول ہیں ۔ ان اصول وقواعد سے ردگردانی اور غیروں کے نظام حیات کی پیروی دراصل اس خالق کائنات سے بغاوت ہے جس نے انسانوں کی بھلائی کے لیے یہ اصول وقواعد وضع کیے ہوں اور جن کی حقانیت کا زبانی  دعوی کیا جاتا ہے۔

غور کیا جائے توعقیدہ توحید محض ایک روحانی عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک انقلابی سیاسی نعرہ بھی ہے جو انسان کو مساوات آزادی اور اخوت ومحبت کی دعوت دیتا ہے۔انسان کو انسان کی بندگی سے نکال کر خالق کائنات کی بندگی میں لے جانا چاہتا ہے تاکہ کوئی بندہ بشر مطلق العنان حاکم بن کر دوسرے بندوں کے سیاسی اور سماجی حقوق نہ چھین لے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  جب بادشاہوں کے نام خطوط ارسال کرتے اور انھیں اسلام کی دعوت دیتے توآخر میں یہ آیت کریمہ ضرور نقل کرتے تھے۔

﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم أَلّا نَعبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلا نُشرِكَ بِهِ شَيـًٔا وَلا يَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوا فَقولُوا اشهَدوا بِأَنّا مُسلِمونَ ﴿٦٤﴾... سورة آل عمران

’’آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آو جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں، نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں۔ پس اگر وه منھ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواه رہو ہم تو مسلمان ہیں‘‘

(2)خود کو سیاسی مسائل سے الگ تھلگ کر کے کوئی مسلمان مکمل مسلمان نہیں ہو سکتا ۔کیوں کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن وحدیث میں متعدد مقامات پر ہر مسلمان پر اس بات کی ذمہ داری عائدہ کی ہے کہ وہ"امر بالمعروف ونہی عن المنکر’’کافرفریضہ انجام دے۔ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس حکم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلم شخص معاشرے کی جملہ برائیوں کے خاتمے کے لیے جدو جہد کرے اور بھلی باتوں کو عام کرنے کے لیے سر گرم رہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے سب سے افضل جہاد اس عمل کو قراردیا ہے کہ ظالم و جابرحکمراں کے روبرو حق بات کہی جائے: "أفضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر"

"سب سے افضل جہاد ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنا ہے۔"

اسلام اس بات کا حکم دیتا ہے کہ معاشرے میں کمزوراور مظلوم انسانوں کی مدد کی جائے۔اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے۔اللہ کا فرمان ہے:

﴿وَما لَكُم لا تُقـٰتِلونَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَالمُستَضعَفينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالوِلد‌ٰنِ الَّذينَ يَقولونَ رَبَّنا أَخرِجنا مِن هـٰذِهِ القَريَةِ الظّالِمِ أَهلُها ...﴿٧٥﴾... سورة النساء

’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کردبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدا یا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں۔‘‘

اور اللہ ان لوگوں کے لیے سخت نفرت کا اظہار کرتا ہے جو ظلم سہتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں اور کم ازکم اتنا بھی نہیں کرتے کہ ظلم کی بستی سے ہجرت کر جائیں۔

﴿ إِنَّ الَّذينَ تَوَفّىٰهُمُ المَلـٰئِكَةُ ظالِمى أَنفُسِهِم قالوا فيمَ كُنتُم قالوا كُنّا مُستَضعَفينَ فِى الأَرضِ قالوا أَلَم تَكُن أَرضُ اللَّهِ و‌ٰسِعَةً فَتُهاجِروا فيها فَأُولـٰئِكَ مَأوىٰهُم جَهَنَّمُ وَساءَت مَصيرًا ﴿٩٧﴾... سورةالنساء

’’جو لوگ اپنی جانوں پرظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے‘‘

اللہ لعنت بھیجتا ہے ایسے لوگوں پر جو معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں اور انھیں دور کرنے کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے۔ اللہ فرماتا ہے:

﴿لُعِنَ الَّذينَ كَفَروا مِن بَنى إِسر‌ٰءيلَ عَلىٰ لِسانِ داوۥدَ وَعيسَى ابنِ مَريَمَ ذ‌ٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٧٨ كانوا لا يَتَناهَونَ عَن مُنكَرٍ فَعَلوهُ لَبِئسَ ما كانوا يَفعَلونَ ﴿٧٩﴾... سورة المائدة

’’بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داؤد (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے (78) آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وه کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وه بہت برا تھا‘‘

اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ برائیاں صرف چوری شراب اور زنا وغیرہ کانام ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ برائی یہ بھی ہے کہ معصوم اور بے گناہ افراد کو جیلوں میں ڈال دیا جائےاور ان پر سختی کی جائے۔برائی یہ بھی ہے کہ الیکشن کے موقع پر ووٹوں کی دھاندلی کی جائے۔ برائی یہ بھی ہے کہ ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا جائے۔برائی یہ بھی ہے کہ عوام کے پیسوں پر ناجائز قبضہ کر لیا جائے جیسا کہ آج کل کے سیاسی لیڈر ان کرتے ہیں اور برائی یہ بھی ہے کہ اس مالی غبن پر خاموش رہا جائے اور اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے۔برائی یہ بھی ہے۔کہ سیاسی معاملات میں دلچسپی نہ لے کر سیاست اور حکومت کی مکمل باگ ڈور ظالموں اور کافروں کے ہاتھ میں دے دی جائے یہ اور اس  طرح کی بے شمار برائیاں ہیں جن کا تعلق سیاسی امور سے ہے اور ناممکن ہے کہ کوئی غیرت مند دین دار مسلمان ان برائیوں پر خاموش رہے اور کچھ نہ کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔

"إذا رأيت أمتي تهاب أن تقول للظالم يا ظالم فقد تودّع منهم"

’’جب تم میری امت کو دیکھو کہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہو تو پھر اسے الوداع کہہ دو (یعنی ایسی امت کا خاتمہ قریب ہے)

بلا شبہ یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ مومن شخص معاشرے اور ملک میں پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کے لیے جدوجہد کرے۔ خواہ یہ برائیاں سماجی ہوں یا ثقافتی یا سیاسی ناممکن ہے کوئی شخص مومن ہونے کا دعوی کرے اور ان برائیوں کو پھلتا پھولتا دیکھے اور مطمئن رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا, فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وذلك أضعف الإيمان"  (مسلم)

’’تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو چاہیے کہ اپنی قوت و طاقت سے اسے دور کرے۔ ایسانہیں کر سکتا تو اپنی زبان سے دور کرے۔ ایسا بھی نہیں کر سکتا تو اپنے دل سے دور کرے(یعنی دل میں اسے برا سمجھے ) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘

عین ممکن ہے کہ اکیلا شخص برائیوں کے اس طوفان کا مقابلہ نہ کر سکے خاص کر جب کہ ملک کے سیاست داں اور ارباب حل وعقد ہی ان برائیوں میں ملوث ہوں۔ اس صورت حال میں صحیح طریقہ کاریہ ہوگا کہ بہت سارے افراد مل کر اجتماعی طور پر ان برائیوں کا مقابلہ کریں۔ یہ اجتماعی کوشش کسی آزاد تنظیم یا کسی سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈال کر بھی کی جا سکتی ہے۔ بلا شبہ یہ سارے کام سیاسی کام ہیں اور مذکورہ حدیث کے مطابق ایمان کا عین تقاضا ہیں۔

آج کے جمہوری دور میں معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائیوں کے خلاف مزاحمت کرنا یا حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنا اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا کسی بھی شخص کا جمہوری حق تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ دین اسلام اس حق کو صرف حق ہی نہیں بلکہ واجب قراردیتا ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ مومن اپنے ملک کے سماجی اور سیاسی حالات سے مکمل اور مستقل باخبر رہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے مسائل میں دلچسپی سے اور ان مسائل کے حل کے لیے ہمہ تن کوشاں رہے۔ ذراحضور صلی اللہ علیہ وسلم   کے اس فرمان پر غور کریں:

"مَنْ لَمْ يَهْتَمَّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ"

’’جو شخص مسلمانوں کے معاملات میں دلچسپی نہیں لیتا اور ان کی فکر نہیں کرتا وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔‘‘

اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کی موت کو جہالت کی موت قراردیا ہے جو سیاست سے کنارہ کش ہو جائے اور کسی قائد یا حکمراں کی تائید و حمایت کے لیے کمر بستہ نہ رہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً" (مسلم)

’’جو شخص اس حالت میں وفات پائے کہ اس کی گردن میں کسی قائد کی بیعت نہ ہو(یعنی وہ کسی قائد کا حامی نہ ہو)تو وہ جہالت کی موت مرتا ہے۔‘‘

اس حدیث کی روشنی میں یہ بات بہ آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ سیاسی معاملات میں کسی ایسے حکمراں قائد یا لیڈر کی حمایت و نصرت ضروری ہے جو مسلمانوں کے معاملات میں دلچسپی لیتا ہو۔ انھیں حل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہو اور دین اسلام کے غلبے کے لیے فکر مند رہتا ہو۔ یہ نری جہالت و گمراہی ہے کہ انسان اپنے ارد گرد رونما ہونے والے سیاسی اور سماجی معاملات سے بے خبر ہو کر زندگی گزارے اور اسی حالت میں مرجائے۔

جو لوگ اس بات کا دعوی کرے ہیں کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ دین کو سیاست سے الگ کر کے رکھنا چاہیے وہ دراصل قرآن و حدیث کی صریح اورواضح تعلیمات سے بے خبر ہیں۔ اگر وہ مذکورہ قرآنی آیات واحادیث پر غور کریں گے تو انھیں معلوم ہوگا کہ دین سے سیاست کو الگ کرنا جہالت  وگمراہی ہے۔ بلکہ سیاسی مسائل سے بے خبر رہنا اور سیاسی برائیوں کو دور کرنے کے لیے کوئی کوشش نہ کرنا امت مسلمہ کے حق میں گناہ ہے۔

دین کا سیاست سے اس قدر گہراتعلق ہے کہ عین نماز کی حالت میں قرآن کی ان آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے جن میں سیاسی مسائل سے بحث کی گئی ہے مثلاً وہ آیتیں جن میں مسلم دشمن حکمرانوں کی تائید و نصرت کی ممانعت ہے یا جن میں دنیوی معاملات کو اللہ کے قوانین کے مطابق حل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے یا جن میں جنگوں کا تذکرہ ہے وغیرہ غیرہ۔اسی طرح عین نماز کی حالت میں دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے ۔ یہ دعائے قنوت اس وقت پڑھی جاتی ہے۔

جب مسلمانوں پر کسی قسم کی دنیوی یا آسمانی مصیبت نازل ہوتی ہے مثلاً جنگ کی حالت ہو یا مسلمانوں پر کسی قسم کا سیاسی عذاب مسلط ہو جائے یا قحط اور زلزلہ جیسی ناگہانی آفتیں ہوں۔ اس دعا میں ان مسائل کا تذکرہ کر کے ان سے عافیت کی دعا کی جاتی ہے۔

اس پوری تفصیل اور وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تو یہ سراسرہٹ دھری ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ دین کو سیاست سے الگ کرنے کی باتیں کرتے ہیں وقت پڑنے پر یہی لوگ دین کا سہارا لے کر دین داراور اسلام پسند لوگوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں کرتے ہیں۔مثلاً مصر کے حکمرانوں نے جب الاخوان المسلمون کے خلاف انتقامی کاروائی کرنی چاہی اور یہ وہ لوگ تھے جو دین اور سیاست کو الگ الگ شے تصورکرتے تھے ان لوگوں نے بعض گمراہ قسم کے علماء کا سہارا لیا اور ان سے اخوانیوں کے خلاف کاروائی کے لیے فتوے حاصل کیے انھی علماء سے اس بات کے فتوے حاصل کیے گئے کہ اسرائیل سے مصلحت جائز ہے۔

علمی اعتبار سے سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس کی خاص اہمیت ہے۔ کیوں کہ یہ موضوع ملک و ملت کی ذمے داروں کو بہ حسن و خوبی نبھانے سے تعلق رکھتا ہے۔ علماء نے سیاست کی یوں تعریف کی ہے کہ سیاست ان تدابیر کا نام ہے جو معاشرہ میں فلاح و بہبود دلاتی ہیں اور ظلم و فساد کو دور کرتی ہیں۔

علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ عدل وانصاف پر مبنی سیاست اسلامی شریعت کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہ عین اسلامی شریعت کا جز ہے۔اسے ہم سیاست کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ لوگوں میں یہی نام رائج ہے ورنہ اس کے لیے عدل الٰہی کا نام زیادہ موزوں ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا کے بغیر دین مکمل نہیں ہو سکتا ۔دین ایک بنیاد ہے اور حکمراں اس بنیاد کا محافظ ہوتا ہے۔اسی لیے عادل حکمرانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا نائب کہا جاتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  مبلغ اور داعی ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست سیاسی انسان بھی تھے۔اور یہی حال خلفائے راشدین کا تھا۔ان سب کی سیاست عدل وانصاف پر مبنی اور فلاح و بہبود کی خاطر تھی۔ برا ہوان سیاست دانوں کا جو جھوٹ دھوکاخیانت اورمکروفریب کے ذریعے سے اپنی سیاست کو چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لفظ سیاست انھی کے گندے اعمال کا شکار ہو کر عوام الناس میں بدنام ہو کر رہ گیا ہے اور سیاست ایک گندی شے تصور کی جانے لگی ہے۔

سیاست سے عوام الناس کی اس نفرت کو دیکھتے ہوئے مسلم دشمن عناصر کو بڑا اچھا موقع ہاتھ آگیا کہ انھوں نے ان مسلم تنظیموں کو جو مکمل دین کی طرف دعوت دیتی ہیں۔انھیں سیاسی قراردے دیا تاکہ عوام الناس ان سے بدک جائیں اب تو یہ عام اسی بات ہوگئی ہے کہ کسی دین دارشخص کو بدنام کرنے اور اس کی اہمیت و منزلت ختم کرنے کے لیے یہ کہنا کافی ہوتا ہے کہ یہ شخص سیاست کے چکر میں پڑگیا ہے۔

اگر اسلام دشمنی کی یہی رفتاررہی تو وہ دن دور نہیں جب ہماراقرآن پڑھنا مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کرنا بلکہ اسلام پر چلنا سب کچھ سیاست سے تعبیر کیا جانے لگے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہم ہوش کے ناخن لیں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

سیاسی مسائل،جلد:2،صفحہ:281

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ