سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(5) ایک حدیث پر اشکال

  • 23908
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1365

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے جمعہ کے خطبہ میں یہ حدیث سنی ،جس سے میں فکر مند ہوں۔

" أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْبُلْهُ "

’’اکثر جنتی سادہ لوح ہوں گے۔‘‘

میں نےبعض علماء سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  کی معرکۃ الآراء کتاب "احیاء علوم الدین" میں اس حدیث کا تذکرہ ہے۔براہِ کرم بتائیں کہ کیا یہ حدیث صحیح حدیث ہے۔جنتیوں کی اکثریت سادہ لوح اور بے وقوفوں پر کیسے مشتمل ہوسکتی ہے جب کہ اسلام نے عقل اور سمجھ داری کی تعلیم دی ہے بلکہ سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت بھی علم سیکھنے کی تعلیم دیتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہماری مسجدوں کے خطیبوں اور اماموں کی مصیبت یہ ہے کہ وہ کسی بھی کتاب سے کوئی بھی روایت اپنے خطبوں اور تقریروں میں پیش کردیتے ہیں۔یہ تحقیق کیے بغیر کہ یہ روایت صحیح ہے یا نہیں۔یااگر صحیح ہے بھی تو سامعین کے ذہنی اور علمی سطح اورمیعار کے مطابق ہے یا نہیں؟مجھے کئی ممالک کی مسجدوں میں جمعہ کی نماز پڑھنے کاموقع ملا ہے اور مجھے افسوس ہے کہ امام حضرات ایسی روایتیں پڑھ کر لوگوں کوسناتے ہیں جوسند اور مضمون دونوں اعتبار سے نہایت ضعیف ہوتی ہیں۔علامہ ابن حجر الہثیمی نے اپنی کتاب فتاویٰ الحدیثیۃ میں اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ ضعیف احادیث پڑھنے والے امام حضرات کو خطبے کی بالکل اجازت نہ دی جائے۔تاکہ وہ اپنی جہالت کی وجہ سے لوگوں کا دین وایمان تباہ وبرباد نہ کرسکیں۔

آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب"احیاء علوم الدین"میں متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ہے۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  اگرچہ ایک زبردست عالم دین اور علم کلام وتصوف کے ماہر تھے تاہم علم حدیث کے معاملے میں وہ خود ہی فرماتے تھے کہ اس میدان میں ان کی نظر اور علمذرا کوتاہ ہے۔اس پر مذید یہ کہ وہ اس مدرسہ فکر سے متاثر تھے،جس پر تصوف اورفلسفے کا غلبہ تھا۔چنانچہ انھوں نے اپنی کتاب"احیاء علوم الدین"میں متعدد ایسی احادیث نقل کی ہیں،جوحد درجہ ضعیف اورگھڑی ہوئی ہیں۔آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ ضعیف حدیث ہے بلکہ قرآن وسنت کی واضح تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔قرآن وسنت دونوں ہی اُمت مسلمہ کو عقل وذہانت ،غور وفکر اور علم وعمل کی تعلیم دیتے ہیں۔قرآن میں سولہ مقامات پر ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو"اولواالالبات"(عقل مند اور سمجھدار ہیں) اور انھیں جنت کااہل قراردیا گیا ہے۔ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو اپنی عقل اورسمجھ کر استعمال نہیں کرتے ہیں۔نادان،غبی اور اندھے بہرے بن کرجیتے ہیں انھیں جہنم کا حقدار قراردیا گیا ہے۔عقل اور سمجھ والوں کے سلسلے میں اللہ کاارشاد ہے:

﴿إِنَّ فى خَلقِ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ وَاختِلـٰفِ الَّيلِ وَالنَّهارِ لَءايـٰتٍ لِأُولِى الأَلبـٰبِ ﴿١٩٠ الَّذينَ يَذكُرونَ اللَّهَ قِيـٰمًا وَقُعودًا وَعَلىٰ جُنوبِهِم وَيَتَفَكَّرونَ فى خَلقِ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ رَبَّنا ما خَلَقتَ هـٰذا بـٰطِلًا سُبحـٰنَكَ فَقِنا عَذابَ النّارِ ﴿١٩١﴾... سورة آل عمران

’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں (190) جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ‘‘

جہنمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ انھوں نے عقل اور سمجھ داری کے ان اعضاء کا استعمال نہیں کیا جنھیں استعمال میں لانے کااللہ حکم دیتا ہے۔

﴿وَلَقَد ذَرَأنا لِجَهَنَّمَ كَثيرًا مِنَ الجِنِّ وَالإِنسِ لَهُم قُلوبٌ لا يَفقَهونَ بِها وَلَهُم أَعيُنٌ لا يُبصِرونَ بِها وَلَهُم ءاذانٌ لا يَسمَعونَ بِها أُولـٰئِكَ كَالأَنعـٰمِ بَل هُم أَضَلُّ أُولـٰئِكَ هُمُ الغـٰفِلونَ ﴿١٧٩﴾... سورة الاعراف

’’اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کئے ہیں، جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیاده گمراه ہیں۔ یہی لوگ غافل ہیں ‘‘

قیامت کے دن جہنمی اعتراف جرم کریں گے اور کہیں گے:

﴿لَو كُنّا نَسمَعُ أَو نَعقِلُ ما كُنّا فى أَصحـٰبِ السَّعيرِ ﴿١٠﴾... سورة الملك

’’اگر ہم سنتے اور سمجھتے تو ہم جہنمی نہیں ہوتے۔‘‘

بلاشبہ سب سے زیادہ جاہل اورغبی وہ لوگ ہیں جنھیں ان کی نادانی ،بدعقلی اور بے وقوفی جہنم کی طرف لے جائے۔اور سب سے زیادہ عقل مند اورذہین وہ لوگ ہیں جنھیں ان کی سمجھداری اور ہوشیاری جنت کاحق دار بنادے۔

قرآن کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی ہوشیاری اور سمجھ داری کی تعلیم دی گئی ہے۔

بخاری ومسلم کی حدیث ہے:

" لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ" (بخاری ومسلم)

’’مومن ایک ہی پل سے دوبارہ نہیں ڈساجاتا ہے۔‘‘

مسلمان کو اتنا سادہ لوح،سیدھا سادھا اور بے وقوف نہیں ہونا چاہیے کہ یکے بعد دیگرے لوگ اسے نقصان پہنچاتے رہیں۔اس کی شخصیت اتنی سستی بھی نہ ہوکہ اقوام عالم میں اس کی حیثیت کنکر پتھر سے زیادہ نہ ہو۔بلکہ اس کے برعکس ایک عظیم الشان مذہب کے پیروکار کی شخصیت بھی اتنی عظیم الشان ہوکہ لوگوں کے دلوں پر اس کی حکمرانی ہو۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ  نے مذکورہ ضعیف حدیث کی تشریح کرتے ہوئے"البلہ" کی یہ تاویل کی ہے کہ یہاں"بلہ"(سادہ لوح) سے مُراد ایسے لوگ ہیں ،جنھیں دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے اور اسی وجہ سے دنیاوی معاملات میں یہ لوگ سیدھے سادھے ہوتے ہیں۔لیکن آخرت کے معاملے میں نہایت ہوشیار ہوتے ہیں۔لیکن یہ تاویل نا مناسب معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ اللہ فرماتا ہے:

﴿وَلـٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿٦ يَعلَمونَ ظـٰهِرًا مِنَ الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا وَهُم عَنِ الءاخِرَةِ هُم غـٰفِلونَ ﴿٧﴾... سورة الروم

’’مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور یہ لوگ آخرت سے بھی غافل ہیں۔‘‘

اس آیت کی روسے وہ لوگ جنھیں دنیاوی معاملات کے بارے میں یونہی معمولی علم ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مختصر علم کو کوئی حیثیت نہ دیتے ہوئے جہالت سے تعبیر کیا ہے اور ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ آخرت کی طرف سے بھی غافل ہیں۔

مذکورہ ضعیف حدیث نے بہت سارے کم فہم مسلمانوں کی بڑا گمراہ کیا ہے۔ان کا یہ اعتقاد ہے کہ قبروں اور مزاروں کے اطراف میں بسنے والے بہت سارے مجذوب قسم کے پاگل اور بے وقوف لوگ اولیاء اللہ ہوتے ہیں۔ان مجذوب قسم کے نام نہاد اولیاء اللہ کے بارے میں ان لوگوں نے کرامات اور معجزات کی ایسی داستانیں گڑھ لی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور انھیں سادہ لوح مسلمانوں کو بے وقوف اور گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے"البلہ" کی جوتشریح کی ہے وہ اسلام کے نقطہ نظر سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔کیونکہ دین اسلام جس طرح آخرت کی طرف دعوت دیتاہے اسی طرح دنیا کمالے اور مادی ترقیوں کو حاصل کرنے کی بھی ترغیب دیتا ہے۔اسلام روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ مادی تربیت کی بھی تعلیم دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام دین ودنیا کا حسین امتزاج ہے۔اسی میانہ روی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے تعلیم دی ہے اور اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین کا عمل رہا ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

قرآن اور حدیث،جلد:2،صفحہ:36

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ