سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) غصے کی حالت میں طلاق

  • 23871
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2000

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں فطری طور پر ایک نہایت غصہ والاشخص ہوں۔ جب مجھے غصہ آتا ہے تو اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا۔اکثر اس غصہ کی وجہ سے بیوی سے میرا جھگڑا ہوتا رہتاہے۔اور میں ایک سے زائد بار اسے شدید غصہ کی حالت میں  طلاق دے چکا ہوں حالانکہ طلاق دینا میرا مقصد نہیں تھا اور نہ میں نے اس بارے میں کبھی سوچا ہے۔دو طلاق دینے کے بعد بعض اہل علم حضرات نے فتویٰ دیاکہ میں ان دوطلاقوں کے بعد بھی بیوی کی طرف رجوع کر سکتا ہوں۔کچھ دنوں کے بعد پھر شدید جھگڑا ہوا اور میں نے پھر طلاق دے دی اب اہل علم کہتے ہیں کہ حلالے کے بغیر میری بیوی میرے لیے جائز نہیں ہے ۔اب میں بڑی مشکل میں ہوں۔میری ازدواجی زندگی تباہ ہوتی نظر آرہی ہے۔اس تباہی سے نکلنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حلالہ اگر قصداً صرف اس لیے کیاجائے کہ بیوی اپنے پہلے شوہر کی طرف لوٹ آئے تو یہ حرام ہے اور اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حلالہ کرنے والے اورحلالہ کروانے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن خطاب فرماتے ہیں کہ اگر میرے پاس ان دونوں کو لایا جائے تو میں انہیں سنگسار کردوں۔

چنانچہ آپ اگر حلالے کا انتظام محض اس لیے کریں کہ آپ کی بیوی آپ کی طرف لوٹ آئے تو یہ ایک حرام کام ہوگا۔

اب میں اصل سوال کاجواب دیتا ہوں۔

غصہ کی تین قسمیں ہیں۔

1۔ایک وہ غصہ ہوتا ہے جو ذرا ہلکا ہوتا ہے۔ایسی حالت میں انسان کے ہوش وحواس اور عقل قابو میں رہتے ہیں۔اس غصہ کی حالت میں وہ جو کچھ کہتا ہے یاکرتا ہے سوچ سمجھ کرکرتا ہے۔اس قسم کے غصہ میں اگر کوئی شخص طلاق دیتا ہے تو تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

2۔دوسرا غصہ وہ  ہوتا ہے جو انتہائی شدیدہوتا ہے ۔ایسی حالت میں انسان اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھتا ہے اور عقل قابو میں نہیں رہتی۔غصہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں انسان بلاسوچے سمجھے کچھ بھی کرسکتا ہے۔حالانکہ ایسا کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا ہے ۔اس قسم کے غصے میں تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

3۔تیسرا غصہ وہ ہوتا ہے جو ان دونوں حالتوں کے درمیان ہوتا ہے۔نہ بہت دھیما اور ہلکا ہوتا ہے اور نہ اتنا شدیدکہ غصے سے انسان پاگل ہوجائے۔اس قسم کے غصہ میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک واقع ہوجاتی ہے اور بعض کے نزدیک نہیں ہوتی۔

میری نظر میں راجح قول یہ ہے کہ ایسی  حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔درج ذیل دلائل کی بناپر:

الف:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"‏ لاَ طَلاَقَ وَلاَ عَتَاقَ فِي إِغْلاَقٍ" (مسند احمد،ابوداؤد،حاکم)

’’اغلاق کی حالت میں نہ طلاق ہوتی ہے اورنہ غلام کی آزادی‘‘

شارحین نے اغلاق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد ہے شدید غصہ یا زبردستی۔یعنی اگر کسی نے غصہ کی حالت میں طلاق دی یا کسی کی زبردستی کی وجہ سے طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔

ب:اللہ کافرمان ہے:

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم...﴿٢٢٥﴾... سورة البقرة

’’یعنی اللہ تمہاری پکڑ لغو یمین میں نہیں کرتا ہے‘‘

ج:حقیقت یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں انسان صحیح فیصلہ کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لاَ يَقْضِي الْقَاضِي وَهُوَ غَضْبَانُ"

’’یعنی قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ دے‘‘

حقیقت یہ ہے کہ طلاق بھی ایک قسم کا فیصلہ ہوتا ہے۔ بیوی کے سلسلےمیں اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ غصہ کی حالت میں طلاق دے۔اگر دے دیتا ہے تو مناسب بات یہی ہوگی،اس طلاق کااعتبار نہ ہو۔

د:نشے کی حالت میں طلاق نہ واقع ہونے کے سلسلے میں جو بھی دلیلیں میں نے پچھلے فتوے میں پیش کی تھیں ،وہ ساری دلیلیں یہاں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔بلکہ غصے کی حالت تو نشے کی حالت سے بھی بدتر ہوتی ہے کیوں کہ شرابی کبھی اپنے آپ کو قتل نہیں کرسکتا اور نہ اپنے بچے کو بلندی سے نیچے پھینک سکتا ہے۔لیکن غصے کی حالت میں انسان ایسا کرسکتا ہے۔

آخر میں واضح کرتا چلوں کہ وہ کون سا غصہ ہے جس میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

علامہ ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  اورشیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی رائے کے مطابق یہ وہ غصہ ہے جس میں انسان اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے اوروہ بغیر کسی ارادے کے کچھ بھی کرسکتا ہے۔اس کی علامت یہ ہے کہ غصے کی حالت میں وہ کچھ ایسی حرکتیں کرتا ہے،جو نارمل حالت میں نہیں کرسکتا۔اور اس کی علامت یہ بھی ہے کہ غصہ ختم ہوجانے کے بعد انسان کو اپنی ان حرکتوں پر شرمندگی اور ندامت ہوجو اس غصے کی حالت میں کی ہو۔اگر غصہ ختم ہوجانے کے بعد طلاق کے فیصلہ پر نادم ہے۔تو اس کا مطلب یہ ہے کہ  وہ ہرگزطلاق دینے کاارادہ نہیں رکھتا تھا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عورت اور خاندانی مسائل،جلد:1،صفحہ:282

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ