سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) عورت کا کسی محرم کے بغیر سفرحج کرنا

  • 23831
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1637

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت ہے جو دولت مند بھی ہے اور جسمانی طور پر تندرست بھی لیکن اس کے ساتھ کوئی محرم نہیں ہے۔کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ مردوں یا عورتوں کی جماعت میں شامل ہو کر حج ادا کرے؟یہ بات ملحوظ رہے کہ اس دور میں سفر کافی محفوظ اور پر امن ہوتا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ اکیلی عورت کے لیے سفر پر خطرہ ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ اکیلی عورت کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ وہ حج کا سفر ہو یا کوئی اور سفر ،عورت کے ساتھ شوہر یا کسی محرم کا ہونا ضروری ہے حدیث  میں ہے:

"لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ" (بخاری)

’’عورت کسی محرم کے ساتھ ہی سفر کر سکتی ہے‘‘

دوسری حدیث ہے:

"لا يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاَللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إلاَّ وَمَعَهَا حُرْمَـةٌ "  (بخاری مسلم ترمذی)

’’کسی ایسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں ہےکہ وہ ایک دن اور ایک رات کا سفر کسی محرم کے بغیر کرے۔‘‘

عورتوں کے لیے اس حکم سے یہ ہر گز نہ سمجھ لیا جائے کہ دین اسلام عورتوں کی طرف سے کافی بد ظن ہے اور عورتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ حکم خود عورتوں کی بہتری اور ان کے فائدے کے لیے ہے تاکہ ان کے سب سے قیمتی زیور یعنی ان کی عزت و کرامت پر کبھی کوئی آنچ نہ آئے ۔ ہر عقل مند شخص اس بات کو بہ خوبی سمجھ سکتا ہے کہ سفر میں اکیلی عورت کی عزت کس قدر خطرے کی زد میں ہوتی ہے۔

تاہم عورت اگر حج کی استطاعت رکھتی ہو اور شوہر یا محرم سے محروم ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں:

1۔بعض فقہاء نے مذکورہ احادیث کے عموم پر عمل کرتے ہوئے اکیلی عورت کے لیے ہر قسم کو ناجائز قراردیا ہے چاہے وہ حج کے لیے ہی سفر کیوں نہ ہو۔

2۔بعض فقہاء نے اس حکم سے ایسی بوڑھی عورت کو مستثنیٰ قراردیا ہےجو کسی کے لیے توجہ کا مرکز نہ بن سکتی ہو۔

3۔بعض فقہاء نے اس حکم سے اس عورت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو بھر وسہ مند عورتوں کی جماعت کے ساتھ سفر کر رہی ہو۔ امام شافعی کے نزدیک تو صرف ایک صالح عورت کی معیت بھی کافی ہے۔

4۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں کہ اگر اس بات کا یقین ہو کہ سفر پر امن اور محفوظ ہے تو اکیلی عورت بھی حج کے لیے جا سکتی ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ اگر سفر محفوظ ہو جیسا کہ آج کل ہوئی جہاز کا سفر ہوتا ہے اور ساتھ میں نیک عورتوں یا مردوں کی جماعت ہو تو عورت بغیر محرم اور شوہر کے حج یا کسی اور سفر کے لیے نکل سکتی ہے دلیل کے طور پر دو حدیثیں پیش کرتا ہوں۔

1۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعض بیویوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور حضرت عبدالرحمٰن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سفر پر روانہ کیا تھا۔ اس واقعہ پر کسی صحابی نے اعتراض نہیں کیا( بخاری)

2۔عدی بن حاتم روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیشن گوئی کی تھی کہ چند برسوں میں اسلام کا یوں غلبہ ہو گا اور راستے اتنے پر امن ہوں گے کہ اکیلی عورت حیرہ (عراق) سے حج کی نیت سے مکے کا سفر اکیلی کرے گی۔ اسے خدا کے علاوہ کسی سے ڈر نہیں ہو گا۔(بخاری ، مسلم)

اس حدیث میں نہ صرف اس بات کی پیشن گوئی ہے کہ ایسا واقعہ وقوع پذیر ہو گا بلکہ پرامن ہونے کی صورت میں اکیلی عورت کے سفر پر نکلنے کے جواز کی بھی دلیل ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس واقعے کی پیشن گوئی تعریف اور مدح کے صیغے میں فرمائی ہے۔

یہاں میں دوواقعات کا ذکر کرتا ہوں۔

1۔عبادات اور معاملات میں فرق یہ ہے کہ معاملات کے سلسلے میں جو اسلامی احکام ہیں ان کی روح اور ان مقاصد پر نظر رہنی چاہیے جن کی وجہ سے یہ احکام دئیے گئے برخلاف عبادات کے کیوں کہ عبادات کی روح یہ ہے کہ انہیں ویسے ہی بجالایا جائے جیسا حکم دیا گیا ہے چاہے ان کے مقاصد اور حکمت و علت سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔

2۔دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جو چیز فی نفسہ حرام قراردی  گئی ہے وہ کبھی حلال نہیں ہو سکتی۔ سوائے اس کے کہ کسی وقت شدید ضرورت پیش آجائے۔ مثلاً سور کا گوشت ہمیشہ حرام رہے گا ۔تاہم جان پر بنی ہو تو اس کا گوشت جان بچانے کے لیے کھایا جا سکتا ہے۔ البتہ وہ چیز جو کسی خرابی یا فساد کو دور کرنے یا اس سے بچنے کے لیے حرام کی گئی ہو ضرورت پڑنے پر وہ چیز حلال بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اکیلی عورت کا سفر اس لیے حرام ہے تاکہ اس کی عزت کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو۔اس لیے اگر اکیلی سفر کرنے کے باوجود عورت اپنی عزت کو محفوظ رکھ سکتی ہے تو اس کا اکیلی سفر کرناجائز ہے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

حج اور عمرہ،جلد:1،صفحہ:195

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ