سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) زکوۃ والی آیت میں فی سبیل اللہ سے مراد

  • 23809
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 967

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض ہم اثر علماء کا خیال ہے کہ زکوۃ کی رقم ان بھلائی کے کاموں میں بھی دی جا سکتی ہے جنھیں چند افراد یا سو سائٹی والے انجام دیتے ہیں مسجد یں بنوانا یا ہسپتال اور مدرسے بنوانا یا یتیموں کا ٹرسٹ قائم کرنا وغیرہ ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ زکوۃ والی آیت میں’’ فی سبیل اللہ‘‘سے مراد ہر وہ نیک اور بھلائی کاکام ہے جو اللہ  کی راہ میں کیا جائے۔حالانکہ جمہور مفسرین اور سلف صالحین کے نزدیک ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مراد جہاد ہے۔اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فی سبیل اللہ سے مراد صرف جہاد ہے یا پھر اسے عام کر کے اس سے مراد نیک اور بھلا کام ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بے شبہ بعض علماء کے نزدیک فی سبیل اللہ سے مراد وہ تمام بھلائی کے کام ہیں جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیے جائیں مثلاًمسجدیں یا ہسپتال بنوانا وغیرہ لیکن میرے نزدیک فی سبیل اللہ کو عام معنوں پر محمول کرناصحیح نہیں ہے۔کیونکہ اس طرح ’’فی سبیل اللہ‘‘کے تحت زکوۃ کے مستحقین کی اتنی قسمیں ہو جائیں گی کہ شمار کرنا مشکل ہو گا اس طرح زکوۃ والی آیت میں زکوۃ کے مستحقین کو آٹھ قسموں تک محدود رکھنے کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ مزید برآں اگرفی سبیل اللہ کو عام پر محمول کیا جائے تو اس سے مراد فقراء و مساکین بھی ہوں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زکوۃ والی آیت میں ان کا تذکرہ علیحدہ کیا ہے۔پھر انہیں علیٰ حدہ تذکرہ کرنے کا کیا فائدہ ؟ اللہ کاکلام بلا غت کے اعلیٰ معیار پر ہے اور یہ بات فصاحت و بلا غت کے خلاف ہے کہ بے مقصد و فائدہ کسی چیز کی تکرار ہو پس معلوم ہوا کہ یہ تکرار بے مقصد نہیں ہے بلکہ درحقیقت ’’فی سبیل اللہ‘‘ کاعلیٰ حدہ اور خاص مفہوم ہے سلف صالحین اور جمہور مفسرین نے اس سے مراد "جہاد" لیا ہے۔ دلیل کے طور پر انھوں نے احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے اقوال میں سے مثالیں پیش کی ہیں۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ حدیث ہے۔

"لَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ الله أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا"(بخاری ومسلم )

اللہ کی راہ میں صبح یا شام نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔

اس حدیث میں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے:

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے ایک صحت مند نوجوان کو دیکھا تو فرمانے لگے:

"لوكان شبابه وجلده في سبيل الله" (طبرانی)

’’ کاش اس کی جوانی اور تنومندی اللہ کی راہ میں ہو تی۔

ان کا مقصد یہ تھا کہ کاش اس کی جوانی جہاد کے موقعے پر کام آتی ۔

اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو نہ صرف جہاد پر محمول کیا جائے اور نہ اسے عام کر کے ہر اس کام پر محمول کیا جائے،جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو۔

بے شبہ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد ہے لیکن جہاد کا مفہوم صرف جنگ کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اس سے وسیع تر مفہوم اس میں شامل ہے۔یعنی ہر وہ قدم جو اللہ کے دین کی نصرت اور اعلاء کلمۃاللہ کے لیے اٹھے۔جہاد صرف تلوار اور توپ سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی قلم سے ہوتا ہے اور کبھی زبان سے، کبھی اقتصادی جہاد ہوتا ہے اور کبھی سیاسی ان میں سے ہر جہاد میں مالی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے ہر وہ کوشش اور قدم جو اعلاء کلمۃاللہ کے لیے اٹھے اسے فی سبیل اللہ کے مفہوم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

کبھی وہ زمانہ بھی تھا جب توپ اور تلوار سے جنگ کر کے اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوااور آج وہ زمانہ ہے جب فکری اور انسانی جنگ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے بڑے بڑے معرکے سرکیے جاتے ہیں جہاد کے اس وسیع تر مفہوم کو ثابت کرنے کے لیے میں چند دلیل پیش کرتا ہوں:

1۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا گیا کہ کون سا جہاد سب سے افضل ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"‏ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ‏"(مسند احمد و نسائی)

’’کسی ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہاد کی ایک شکل لسانی جہاد بھی ہے۔

ایک دوسری حدیث میں ہے:

"جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَأَلْسِنَتِكُمْ "(مسند احمد ، ابو داؤد، حاکم)

’’مشرکوں سے جہاد کرو اپنے مال کے ذریعے اپنی جان کے ذریعے اور اپنی زبانوں کے ذریعے۔

معلوم ہوا کہ جہاد فقط تلوار کی جنگ کا نام نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اور حسب ضرورت مال کے ذریعے جہاد ہوتا ہے۔کبھی جسمانی قوت کا استعمال ہوتا ہے اور کبھی لسانی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے۔

2۔ لفظ جہاد کو وسیع تر مفہوم پر محمول کرنے کے لیے اگر کوئی قطعی نص نہ بھی ہوتا تب بھی محض قیاس کی بنا پر ایسا کیا جا سکتا ہے کیونکہ جہاد چاہے تلوار سے ہو چاہے قلم اور چاہے زبان سے۔ان میں سے ہر جہاد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے یعنی اعلاء کلمۃ اللہ۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ حالات اور ماحول کی مناسبت سے بعض کاموں کو اس ملک میں جہاد تصور کیا جائے گا۔وہی کام بعض دوسرے ملکوں میں محض ایک رفاہی کام قرارپائے گا۔مثلاً:ایک ایسے ملک میں جہاں اسلام کا غلبہ ہے مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لوگ دینی تعلیم سے آگاہ ہیں وہاں کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر ایک رفاہی کام تو ہو سکتا ہے مگر جہاد نہیں ہو سکتا ۔ اس کے بر عکس کسی غیر مسلم ملک میں جہاں مسلمانوں کی اقلیت ہو اشاعت اسلام کی خاطر مسجد یا مدرسے تعمیر کرنا یقیناً جہاد ہے۔ عیسائی مشزیوں کی مثال واضح ہے۔ انھوں نے چرچ ،ہسپتال اور اسکول کی تعمیر کی آڑلے کر عیسائیت کی جس قدر تبلیغ کی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

درحقیقت اس دور میں جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے عظیم صورت یہ ہے کہ مسلم ممالک جو کفار مشرکین کے قبضے میں چلے گئے ہیں انہیں بہ زور قوت واپس حاصل کیا جائے۔کفارو مشرکین چاہے عیسائی ہوں یا یہودی ہوں یا کمیونسٹ ، ان میں سے کوئی بھی اگر مسلم ممالک پر غاصبانہ قبضہ کر لیتا ہے تو اس وقت تک جہاد کی تمام صورتیں بروئے کار لائی جائیں گی جب تک یہ علاقے مسلمانوں کو واپس نہیں مل جاتے۔ مثال کے طور پر فلسطین کا نام لیا جا سکتا ہے جس پر یہودی ظالمانہ طریقے سے غاصب ہو گئے ہیں چنانچہ جہاں بھی اس طرح جنگ جاری ہو ہمیں بھر پور مالی تعاون کرنا چاہیے ان جگہوں پر زکوۃ کی رقم بھی ارسال کرنی چاہیے۔

البتہ ایک بات یہاں قابل ذکر ہے۔آج اس دور میں دفاعی اخراجات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کے لیے علیٰ حدہ بجٹ بنایا جاتا ہے اور یہ بجٹ بھی تمام دوسرے بجٹ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔بعض ممالک تو ایسے ہیں کہ ملکی خزانے کا پچاس فی صد دفاعی بجٹ کے لیے مخصوص کر دیتے ہیں۔اس قدر ضخیم بجٹ کے لیے زکوۃ کی تھوڑی سی رقم ہر گز کافی نہیں ہو سکتی ۔اس لیے میری رائے میں زکوۃ کی رقم جہاد کی ان صورتوں میں بھیجنا زیادہ بہتر ہے جنہیں لسانی ثقافتی فکری اور اعلامی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔کیونکہ ان صورتوں میں تھوڑی رقم بھی زیادہ نمایاں کام انجام دے سکتی ہے۔ ذیل میں میں بعض ایسی ہی صورتیں پیش کرتا ہوں۔

1۔اسلامی دعوتی مرکز کا قیام جہاں سے لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔

2۔ خود اسلامی ممالک کے اندر اسلامی ثقافتی مراکز کا قیام جہاں مسلم جوانوں کی عملی تربیت ہو سکے اور انہیں اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر تیار کیا جا سکے۔

3۔اسلامی اخبارات و جرائد کا اجر جو غیر اسلامی صحافتی سر گرمیوں کے لیے چیلنج ہو۔

4۔اسلامی کتب کی نشرواشاعت جس میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور کفر کی ریشہ دوانیوں کو اجاگر کیا جائے۔

یہ وہ چند صورتیں ہیں جہاں زکوۃ کی رقم ارسال کرنی چاہیے بلکہ زکوۃ کے علاوہ بھی ہر ممکن طریقے سے ان تمام سر گرمیوں میں دل کھول کر مالی تعاون کرنا چاہیے۔  

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

زکوۃ اور صدقات،جلد:1،صفحہ:157

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ