سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) گنڈوں اور تعویذوں سے علاج

  • 23780
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1412

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ستائیس سال کا صحت مند نوجوان ہوں ابھی میں نے پچھلے ہی سال شادی کی ہے۔شادی کے بعد ہم دونوں میاں بیوی ایک سال تک بڑے خوش اور مطمئن رہے لیکن اچانک کچھ دنوں سے میری بیوی کو ایک بیماری لاحق ہوگئی ہے۔اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا ہے۔پہلے وہ پرسکون اور خوش رہتی تھی۔لیکن اب وہ سارے گھر کو اپنے سرپر اٹھائے رکھتی ہے۔گھر والوں نے کسی مولانا کے پاس لے جانے کا مشورہ دیا۔مجبور ہوکرمیں اسے ایک مولانا کے پاس لے گیا۔انہوں نے دیکھنے کے بعد فرمایا کہ اس کے سرپرجن سوار ہے۔اس پر پندرہ دنوں تک قرآن پڑھنے اور جھاڑ پھونک کاعمل کرنا پڑے گا۔یہ عمل پندرہ دنوں تک چلتارہا لیکن بے سود۔مولانا نے اس مدت میں ایک تعویز بھی اس کے گلے میں لٹکایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔سوال یہ ہے کہ اس قسم کے عمل کی کوئی شرعی حیثیت  ہے یا محض دھوکا دینے کا ایک ذریعہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

متعدد صحیح احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم مسلمانوں کو جھاڑ پھونک اور گنڈے تعویز سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے۔زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنے بچوں کو تعویذ گنڈے سے باندھتے تھے جس کامقصد نظر بد یا جنوں سے محفوظ رکھنا ہوتا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ "

’’بے شک جھاڑ پھونک،تعویذ اور جادو شرک ہے‘‘

جھاڑ پھونک یہ ہے کہ کوئی شخص کچھ مہمل اور بے معنی الفاظ پڑھ کر مریض پر پھونکتا ہے۔علماء کرام نے جھاڑ  پھونک کو تین شرطوں کے ساتھ جائز قراردیا ہے:

1۔پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ کا نام یا اللہ کا کلام پڑھ کر پھونکاجائے۔

2۔دوسری شرط یہ ہے کہ پڑھی جانے والی چیز عربی زبان میں ہو اور کوئی مہمل بات نہ ہو۔

3۔تیسری شرط یہ ہے کہ پڑھتے اور پھونکتے وقت یہ پختہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ سب کچھ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔وہی ہوگا جو اللہ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے۔جھاڑ پھونک بذات خود افادیت کی حامل نہیں ہے۔

چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے بھی یہ عمل منقول ہے۔انہوں نے جو پڑھ کر پھونکا اس کے الفاظ یہ تھے:

" اللَّهُمَّ ربَّ النَّاسِ ، أَذْهِب الْبَأسَ ، واشْفِ ، أَنْتَ الشَّافي لا شِفَاءَ إِلاَّ شِفَاؤُكَ ، شِفاءً لا يُغَادِرُ سقَماً "

’’اے لوگوں کے رب!تو بلاٹال دے ۔تو شفاء عطا فرما۔بے شک تو ہی شفاء دینے والاہے۔تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفاء نہیں ہے۔ایسی شفاء جو کسی بیماری کانام ونشان نہ چھوڑے‘‘

تعویز یہ ہے کہ کچھ لوگ لکھ کر یا بغیر لکھے ہاتھوں یا جسم کے کسی حصے پر باندھ دیا جاتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ یہ تعویز شفا کاموجب ہوگا۔اسلام نےتعویذ کی جتنی قسمیں ہیں سب سے منع کیا ہے۔روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس دس افراد بیعت کےلیے آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نو سے بیعت کی۔ایک سے اعراض کیا۔کسی نے وجہ پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس نےتعویذ باندھ رکھا ہے۔اس شخص نے فوراً تعویذ توڑ کرپھینک دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیعت فرمائی اورکہا:

"مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ" (9)

’’جس نے تعویز باندھا اس نے شرک کیا‘‘

اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور سلف صالحین نے سختی کے ساتھ اس عمل سے منع کیا ہے۔سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے تھے کہ جس نے کسی کے گلے سے تعویذ کاٹ پھینکا اسے غلام آزاد کرنے کے برابرثواب ملے گا۔

ابراہیم نخعی،جو کہ ایک بزرگ تابعی تھے فرماتے ہیں کہ صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  ہر طرح کے تعویذ سے نفرت کرتے تھے،خواہ اس میں قرآن کی آیتیں لکھی ہوں یاکچھ اور۔

جمہور علماء کرام کا قول یہی ہے کہ ہر طرح کا تعویز حرام ہے۔میرے نزدیک بھی یہی قول راجح ہے۔درج ذیل اسباب کی بنا پر:

1۔جن احادیث میں تعویز کی حرمت کا ذکرآیا ہے ان میں عموم ہے۔یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے عام تعویزوں کے بارے میں حرمت کا ذکرکیا ہے۔چاہے اس میں قرآن کی آیتیں لکھی ہوئی ہوں یاکچھ اور۔

2۔اگرقرآن کی آیت پرمشتمل تعویز کو جائز قراردیا جائے تو اس سے مستقبل میں ان تعویزوں کا دروازہ کھل جائے گا جن میں قرآن کی آیتیں نہیں ہوں گی۔

3۔اس طرح قرآن کی بے حرمتی کا ا مکان ہے اس لیے کہ تعویز پہن کر انسان رفع حاجت کے لیے  گندی جگہوں پر جاسکتا ہے۔یا کبھی وہ خود حالت جنابت میں ہوسکتا ہے یا پہننے والی عورت حالت حیض میں ہوسکتی ہے۔

اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ مرض کے وقت انسان جھاڑ پھونک اور تعویز گنڈوں کا سہارا لے۔بلکہ اسلام نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ایسے موقعوں پر ہمیں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے یا ان طریقوں سے علاج کرنا چاہیے جو معروف ہیں۔خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی مرض کی حالت میں انہیں طریقوں سے علاج کیا،جو اس زمانے میں مروج تھے یا پھرحکیموں کی طرف رجوع کیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

" نَعَمْ يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً أَوْ قَالَ دَوَاءً إِلا دَاءً "(10)

’’اللہ کے بندو!دواؤں سے علاج کرو۔کیونکہ اللہ نے ہرمرض کے لیے ایک دوا بنائی ہے‘‘

آپ نے اپنی بیوی کی جوحالت بتائی ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کوئی نفسیاتی مرض لاحق ہے ۔آپ کو چاہیے کہ آپ کسی نفسیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر کی طرف رجوع کریں۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

عقائد،جلد:1،صفحہ:106

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ