سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) ذبح کے احکام

  • 23748
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3626

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ذبح کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خشکی میں رہنے والے جانور کے حلال ہونے کی یہ شرط ہے کہ اسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہوورنہ مرار متصور ہوگا جو حرام ہے۔بنا بریں ہر مسلمان کے لیے ذبح کے شرعی احکام سے معرفت ضروری ہے۔

فقہائے کرام نے کہا ہے کہ جانور کا ذبح کرنا یا اسے نحر کرنا یہ ہے کہ اس کی شہ رگ اور کھانے کی نالی کاٹ کرخون بہایا جائے۔اگر جانوربے قابو ہوتو اسے زخمی کردیا جائے۔

ذکاۃ کے لغوی معنی ہیں"کسی شے کو مکمل کرنا۔"کیونکہ حیوان کو ذبح کرنے کامطلب اس کا خون اچھی طرح بہادینا ہے(حتیٰ کہ اس کی روح نکل جائے) اس لیے اس عمل پرذکاۃ،یعنی ذبح کااطلاق ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ وَالمُنخَنِقَةُ وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطيحَةُ وَما أَكَلَ السَّبُعُ إِلّا ما ذَكَّيتُم وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَستَقسِموا بِالأَزلـٰمِ ذ‌ٰلِكُم فِسقٌ اليَومَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَروا مِن دينِكُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونِ اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا فَمَنِ اضطُرَّ فى مَخمَصَةٍ غَيرَ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٣﴾... سورة المائدة

"تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناه ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والااور بہت بڑا مہربان ہے" [1]

یعنی جسے تم زندہ پالوپھر اسے ذبح کرکے اس کا مکمل خون بہادو۔بعد میں یہ لفظ عام ذبح کے لیے استعمال ہونے لگا،اس کو پہلے سے کوئی چوٹ لگی ہو یا نہ لگی ہو۔

(1)۔جانور کو ذبح کرنا ضروری (واجب) ہے ورنہ اس کے بغیر اس جانور کا گوشت کھاناحلال نہ ہوگا کیونکہ غیر مذبوح جانور مراد متصور ہوتاہے۔اہل علم کا اجماع ہے کہ مردار کا کھانا حرام ہے الا یہ کہ کوئی اضطراری صورت ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ...﴿٣﴾... سورة المائدة

البتہ مچھلی،ٹڈی دل اورہر وہ جانور جو پانی ہی میں زندگی گزارتا ہے ان کو ذبح کیے بغیر ہی کھانا جائز ہے۔کیونکہ پانی(سمندر) کامراد ہوا بھی حلال قراردیا گیا جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أُحِلَّتْ لَكُمْ مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ وَأَمَّا الدَّمَانِ فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ "

"ہمارے لیے دو قسم کے مرد اور دو قسم کے خون حلال ہیں،دومردار:مچھلی اورٹڈی دل ہیں اور دو خون:جگر اورتلی ہیں۔"[2]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سمندر کے بارے میں فرمایا:

"هُوَ اَلطُّهُورُ مَاؤُهُ، اَلْحِلُّ مَيْتَتُهُ"

"اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔"[3]

(2)۔ذبح کی چارشرائط ہیں جو درج ذیل ہیں:

1۔ذبح کرنے والا عاقل اور مسلمان ہو یا اہل کتاب میں سے ہو،لہذا مجنون،نشےمیں مدہوش اور چھوڑنے غیر ممیز بچے کاذبح کردہ جانور حلال نہ ہوگا کیونکہ ان افراد میں عدم عقل کیوجہ سے ذبح کی نیت اور قصد نہیں ہوتا۔۔۔اسی طرح کافر،بت پرست،مجوسی یامرتد کا ذبح کردہ جانور حلال نہیں۔علاوہ ازیں قبر پرست لوگ جو مردوں سے مدد مانگتے ہیں اور قبروں پر نذر ونیاز اورچڑھا وے چڑھاتے ہیں،ان کاذبح کیا ہوا جانور بھی حلال نہیں کیونکہ یہ لوگ شرک کے مرتکب ہیں جو قبرپرست مشرک امت محمدیہ میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی  اہل کتاب کے حکم میں ہیں،لہذا ان کاذبیحہ حلال ہے۔(ع۔و)لیکن کتابی کافر،یعنی یہودی یانصرانی کا ذبیحہ حلال ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم...﴿٥﴾... سورة المائدة

"اوراہل کتاب کا کھانا(ذبیحہ) تمہارے لیے حلال ہے۔"[4]

اس پر اہل اسلام کااجماع ہے ۔امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(طَعَامُ)سے مراد ان کے"ذبیحے" ہیں۔[5]

آیت کریمہ سے یہ مفہوم بھی نکلتاہے کہ غیر کتابی کافر کا ذبیحہ حلال نہیں ہے،اس مسئلے پر اجماع ہے۔

کتابی کافر کا ذبیحہ حلال اور دیگر کفار کا ذبیحہ حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب کاعقیدہ ہے کہ غیر اللہ کے نام کاذبیحہ حرام ہے،نیز وہ مردار کو بھی  حرام سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے انبیائے کرام کی یہ تعلیم تھی دیگر کفار بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہیں اورمردار کو بھی حلال قراردیتے ہیں۔

2۔کارآمد آلے کا ہونا۔ذبح ہر اس آلے سے درست ہے جس کے دھار سے خون بہہ جائے،خواہ وہ لوہے کا ہو یا پتھر یا کسی اوردھات سے بنا ہو ما سوائے دانت اور ناخن کے کہ ان سے ذبح کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللهِ فَكُلْ، لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ"

"جو شے جانور کاخون بہادے اور اس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہوتو وہ(ذبح شدہ جانور) کھالو،البتہ وہ شےدانت اورناخن نہ ہو۔"[6]

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" ہڈی سے ذبح کرنا،اس لیے ممنوع ہے کہ یاتو وہ نجس ہے یا ذبح کرنے سے مومن جنوں کے لیے نجس ہوجاتی ہے۔"[7]

مکمل حدیث اس طرح ہے:

"أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ. وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ"

"(میں تمھیں ان دونوں سے متعلق بیان کرتا ہوں) دانت تو ہڈی ہے اور ناخن(کافر) حبشیوں کی چھری ہے۔"[8]

لہذا دونوں سے ذبح کرناجائز نہیں ہے۔[9]

3۔حلق  اور شہ رگ کا کاٹنا،یعنی جانور کےحلق کی رگوں کو کاٹ دینے سے ذبح کاحکم مکمل ہوجاتاہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" کھانے کی نالی،حلق اور دونوں رگ جان کاٹی جائیں،چاراشیاءمیں سے تین کاٹنے سے بھی جانورحلال ہوگا،ان تین اشیاء میں حلق شامل ہو یا نہ ہو،حلق کے سوا رگ جان کا کاٹنا زیادہ بہترہےاور اس سے خون زیادہ اچھی طرح بہہ جاتا ہے۔"

اونٹ میں مسنون طریقہ"نحر" ہے کہ اس کی گردن اور سینے کے درمیان تیز دھار نیزہ یا برچھی ماری جائے جبکہ دوسرے جانوروں کو ذبح کرنا ہی صحیح ہے۔جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے مذکورہ مقام کا تعین اس وجہ سے ہے کہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں جسم کی تمام رگیں جمع ہوتی ہیں،ان کے کٹ جانے سے تمام جسم کاخون جلدی اور آسانی سے نکل آتاہے۔جانور کو جان نکلتے وقت زیادہ تکلیف بھی نہیں ہوتی،لہذا اس کاسارا گوشت بہتر اور عمدہ ہوجاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح"

"جب جانور کو ذبح کرو تو اچھا طریقہ اختیار کرو۔"[10]

اگر مذکورہ مقام سے ذبح کرنا ممکن نہ ہوسکے،مثلاً:شکار ہو یا اونٹ ہاتھوں سے نکل گیا ہو یاکوئی جانور کنویں میں گرگیا تو اس کے بدن کے کسی بھی حصے پرزخم لگا کر خون بہادیا جائے تو وہ ذبیحہ شمار ہوگا جس کا  کھانا حلال ہے۔

سیدنا رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ اونٹ بھاگ گیا۔ایک آدمی نے اسے تیر مار کر زخمی کردیا جس سے وہ رک گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"فَمَا نَدَّ عَلَيْكُمْ فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا"

"جو جانور بھی تم پر غالب آجائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔"[11]

ایسی ہی روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے بھی منقول ہے۔

کسی جانور کا گلا گھونٹ دیا جائے یا اسے لاٹھی ماری جائے یا بلندی سے گرجائے یا کسی دوسرے جانور نےاسے ٹکرماردی ہو یا اس کے بدن کاایک حصہ درندہ کاٹ کر کھا گیا ہو اگر وہ زندہ ہونے کی حالت میں پالیا گیااور اسے ذبح کیا گیا تو حلال ہے ورنہ حرام ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ وَالمُنخَنِقَةُ وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطيحَةُ وَما أَكَلَ السَّبُعُ إِلّا ما ذَكَّيتُم وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَستَقسِموا بِالأَزلـٰمِ ذ‌ٰلِكُم فِسقٌ اليَومَ يَئِسَ الَّذينَ كَفَروا مِن دينِكُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونِ اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا فَمَنِ اضطُرَّ فى مَخمَصَةٍ غَيرَ مُتَجانِفٍ لِإِثمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٣﴾... سورة المائدة

"تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناه ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والااور بہت بڑا مہربان ہے" [12]

4۔ذبح  کرنے والا بوقت ذبح بسم اللہ پڑھے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَأكُلوا مِمّا لَم يُذكَرِ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ وَإِنَّهُ لَفِسقٌ ...﴿١٢١﴾... سورة الانعام

"اورتم ایسے جانوروں کا گوشت مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیاگیا ہو کیونکہ یہ(کھانا) یقیناً نافرمانی ہے۔"[13]

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نام ذبیحے کو طیب بنادیتا ہے،ذبح کرنے والے اور ذبیحہ دونوں کے درمیان سےشیطان کو دور کردیتاہے ورنہ ذبح کرنے والے اورذبیحہ کے درمیان شیطان کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔وہ حیوان میں خبث کے اثرات ڈالتا ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب جانور کو ذبح کرتے تو ساتھ بسم اللہ بھی پڑھتے۔آیت سے ثابت ہوتاہے کہ اگر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھی گئی تو وہ حلال نہیں،اگرچہ ذبح کرنے والا مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔[14]

(3)۔تسمیہ کے ساتھ تکبیر"اللہ اکبر" کہنا بھی مسنون ہے۔

ذبح کرنے کے درج ذیل آداب ہیں:

1۔کند آلے سے ذبح کرنا مکروہ ہے بلکہ وہ نہایت تیز ہوتا کہ جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان ہے:

"وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ"

"تم میں ہر ایک کو چاہیے کہ(جانور کو ذبح کرتے وقت) چھری تیز رکھے اور ذبیحے کو تکلیف نہ دے۔"[15]

2۔ذبح کرنے کا آلہ چھری وغیرہ جانور کی آنکھوں کے سامنے تیز کرنا مکروہ ہے کیونکہ حدیث میں ہے:

"أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِّ الشِّفَارِ ، وَأَنْ تُوَارَى عَنِ الْبَهَائِمِ" 

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیاہے کہ چھری کو تیز کیا جائے اور اسے جانوروں سے چھپا کررکھا جائے۔"[16]

3۔یہ امربھی مکروہ ہے کہ جانور کا رخ قبلہ کی جانب نہ ہو۔

4۔جانور کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے ہی اس کی گردن(منکا) توڑنا یا کھال اتارنا مکروہ ہے۔

(4)۔مسنون یہ ہے کہ اونٹ کو نحر کے وقت کھڑا کیا جائے اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ دیاجائے۔گائے یا بکری کو بائیں جانب لٹا کرذبح کیا جائے۔

شکار کے احکام

"صيد"(شکار کرنا) کا مطلب ہے حلال جانور کو شکار کرنا جو طبعی طور پر انسان سے مانوس نہیں ہوتا اور پکڑا نہیں جاتا۔ایسے جانور کو بھی یعنی شکار کہتے ہیں۔

اگر شکار انسانی ضرورت کے پیش نظر ہوتو بلا کراہت جائز ہے اور اگر ضرورت کی بجائے محض کھیل اور شغل کی خاطر ہوتو مکروہ ہے اوراگر شکار کے سبب لوگوں کے کھیتوں ،فصلوں اور اموالکا نقصان ہوتو حرام ہے۔

(1)۔مذکورہ پہلی صورت میں شکار کرنے کے جوازمیں دلیل اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ وَإِذا حَلَلتُم فَاصطادوا...﴿٢﴾... سورة المائدة

"ہاں! جب تم احرام اتارڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو۔"[17]

اور ارشاد ہے:

﴿يَسـَٔلونَكَ ماذا أُحِلَّ لَهُم قُل أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَما عَلَّمتُم مِنَ الجَوارِحِ مُكَلِّبينَ تُعَلِّمونَهُنَّ مِمّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلوا مِمّا أَمسَكنَ عَلَيكُم وَاذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلَيهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَريعُ الحِسابِ ﴿٤﴾... سورة المائدة

"آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وه سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے پس جس شکار کو وه تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کر لیا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے"[18]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إذَا أَرْسَلْت كَلْبَك الْمُعَلَّمَ، وَذَكَرْت اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ؛ فَكُلْ"

"اگر تم"بسم اللہ" پڑھ کر اپنا  تربیت یافتہ کتا شکار پرچھوڑوتو اس کا کیا ہواشکار کھالو۔"[19]

(2)۔جب شکاری کے پاس کتے وغیرہ کے ذریعے سے شکار پہنچتا ہے تو اس کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں:

1۔جب شکاری کےپاس کتے وغیرہ کے ذریعے سے شکار پہنچتا ہے تو اس کی دو حالتیں ہوسکتی ہیں:

1۔جب شکار ہاتھ میں آیا تو وہ صحیح سلامت اور زندہ تھا۔اسےشرعی طریقے سے ذبح کیاجائے گا۔محض شکار کرنا کافی نہ ہوگا۔

2۔اگر شکار کرنے سے جانور مرگیا یا اس میں زندگی کی معمولی سی علامات باقی موجودہوں تو ایسی صورت میں وہ حلال ہوگا بشرط یہ کہ اس میں درج ذیل شرائط ہوں:

(3)۔شکار کرنے والا شخص ذبح کرنے کا اہل ہو کیونکہ شکار کرنے والا ذبح کرنے والے شخص کے حکم میں ہوتا ہے۔اس لیے اس میں اہلیت کا ہونا ضروری ہے ،یعنی وہ عاقل،مسلمان یا اہل کتاب میں سے ہو،لہذا مجنون اور نشہ میں غرق آدمی کا شکار جائز نہ ہوگا کیونکہ ان میں عقل نہیں،جیسا کہ ان کاذبح حلال نہیں۔

(4)۔آلہ کا ہونا،آلہ دو قسم کا ہوسکتا ہے:تیز دھار ہو جو خون بہادے جس طرح کہ ذبح کرنے کے لیے یہ شرط ہے،البتہ ہڈی اور ناخن نہ ہو۔شکار کرنے کا آلہ شکارکو چوڑائی کی جانب سےلگنے کے بجائے دھار یا نوک والی جانب سے لگے اور شکار کو زخمی کردے۔اگر شکار کے لیے آلہ نوک یادھار والا نہیں ہے۔

مثلاً:پتھر،لاٹھی،جال،لوہے کاٹکڑا وغیرہ ہوتو شکار کے مرجانے کی صورت میں حلال نہ ہوگا،البتہ بندوق سے چھوڑی ہوئی گولی کے ذریعے سے شکار جائز ہے کیونکہ اس کے لگنے میں اس قدر قوت اور تیزی ہوتی ہے کہ وہ جانور کوتیز دھار آلے سے بڑھ کر پھاڑ دیتی ہے اور خون بہا دیتی ہے۔

شکار کرنے والے جانور یا پرندے،جن کے ذریعے سے شکار کیا جاتاہے اور انھیں شکار کرنے کی باقاعدہ تربیت دی گئی ہوتوان کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے اگرچہ وہ مربھی جائے ۔خواہ وہ جانور کچلی سےشکار کرنے والا ہو ،جیسے کتا یا پنجے سے شکار کرنے والا ہو،جیسے باز۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿يَسـَٔلونَكَ ماذا أُحِلَّ لَهُم قُل أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ وَما عَلَّمتُم مِنَ الجَوارِحِ مُكَلِّبينَ تُعَلِّمونَهُنَّ مِمّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلوا مِمّا أَمسَكنَ عَلَيكُم وَاذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلَيهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَريعُ الحِسابِ ﴿٤﴾... سورة المائدة

"آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وه سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے پس جس شکار کو وه تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کر لیا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے"[20]

شکاری جانور کی تعلیم سے مراد یہ ہےکہ اسے شکار پکڑنے کے آداب سکھائے جائیں،جب اسے شکار کےپیچھے چھوڑا جائے تو وہ اس کے پیچھے بھاگ پڑے اور جب اسے شکار پر ابھارا جائے تو وہ اس کا پیچھا کرے اور جب وہ شکار پکڑلے تواپنے مالک کے پاس  لے آئے خود نہ کھائے۔

3۔جانور پر  آلہ(تیر،گولی وغیرہ) شکار کی نیت سے چھوڑاجائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"إذَا أَرْسَلْت كَلْبَك الْمُعَلَّمَ، وَذَكَرْت اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ؛ فَكُلْ"

"اگرتم"بسم اللہ" پڑھ کراپنا تربیت یافتہ کتاشکار پر چھوڑو تو اس کا کیا  ہوا شکارکھالو۔"[21]

معلوم ہوا کہ جانور کو چھوڑنا  ذبح کے قائم مقام ہے،لہذا اس میں نیت ضروری ہے۔اگر کسی کےہاتھ سے  آلہ گرگیا یابلاقصد بندوق سےگولی نکل گئی جس سے جانور مرگیا تو وہ حلال نہ ہوگا کیونکہ اس میں نیت شامل نہ تھی۔اسی طرح اگر کتے نے خود ہی بھاگ کرشکار پکڑا جومرگیا تو وہ حلال نہ ہوگا کیونکہ مالک نے شکار کی نیت سےنہ خود کتے کوچھوڑاور نہ"بسم اللہ" پڑھی۔

(اگر کسی نے بہت سے جانور دیکھے اور) ایک جانور کو نشانہ بنا کر گولی چلا دی جس سے مقررہ جانور کے علاوہ اوردوسرے بہت سے جانور مارے گئے تو سبھی حلال ہوں گے کیونکہ اس میں شکار کی نیت تھی۔

4۔تیر،گولی یا شکاری جانور چھوڑتے وقت"بسم اللہ"پڑھی جائے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَلا تَأكُلوا مِمّا لَم يُذكَرِ اسمُ اللَّهِ عَلَيهِ ... ﴿١٢١﴾... سورةالانعام

"اور تم ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔"[22]

اور ارشاد ہے:

﴿فَكُلوا مِمّا أَمسَكنَ عَلَيكُم وَاذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلَيهِ ... ﴿٤﴾... سورةالمائدة

"جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ کرروک رکھیں،اس پر اللہ کا نام پڑھو اور اس میں سے کھالو۔"[23]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إذَا أَرْسَلْت كَلْبَك الْمُعَلَّمَ، وَذَكَرْت اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ؛ فَكُلْ"

"اگرتم"بسم اللہ"پڑھ کر اپنا تربیت یافتہ کتا شکار پر چھوڑدو تو اس کاکیا ہوا شکار کھالو۔"[24]

آیات واحادیث سے یہ مفہوم بھی مترشح ہوتا ہے کہ "بسم اللہ"نہ پڑھنے سے شکار حلال نہ ہوگا۔

مسنون یہ ہے کہ"بسم اللہ" کے ساتھ" اللہ اکبر" کہا جائے جیسا کہ جانور ذبح کرتے وقت کہاجاتاہے،چنانچہ ایک روایت میں ہے:

"جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم   جانور ذبح کرتے تو "بسم الله والله اكبر" کہتے تھے۔"[25]

(5)۔ کچھ صورتیں ایسی ہیں جن میں شکار کرناحرام ہوجاتاہے جو درج ذیل ہیں:

1۔احرام باندھنے والے شخص پر حرام ہے کہ وہ خشکی کے کسی جانور کو قتل کرے یا اس کو پکڑے یا شکار کی طرف اشارہ کرےیاراہنمائی کے ذریعے سے تعاون کرے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقتُلُوا الصَّيدَ وَأَنتُم حُرُمٌ ... ﴿٩٥﴾... سورة المائدة

"اے ایمان والو!(وحشی) شکار کوقتل مت کرو جب تک کہ تم حالت احرام میں ہو۔"[26]

2۔اگر محرم نے خود شکار کیا ہو شکار کرنے میں کسی سے تعاون کیا ہوتو اس کے لیے اس کا کھانا حرام ہے۔اسی طرح وہ محرم بھی نہ کھائے جس کی خاطر شکار کیا گیا ہو۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ وَحُرِّمَ عَلَيكُم صَيدُ البَرِّ ما دُمتُم حُرُمًا ...﴿٩٦﴾... سورة المائدة

"اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لیے حرام کیاگیا ہے جب تک تم حالت احرام میں رہو۔"[27]

3۔اسی طرح حرم میں شکار کرنا بالاجماع حرام ہے،خواہ محرم ہو یا عام آدمی ،چنانچہ ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتح مکہ کے دن فرمایا:

"إنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لأَحَدٍ قَبْلِي , وَلَمْ يَحِلَّ لِي إلاَّ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ؛ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ . لا يُعْضَدُ شَوْكُهُ , وَلا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ , وَلا يَلْتَقِطُ لُقْطَتَهُ إلاَّ مَنْ عَرَّفَهَا ، وَلا يُخْتَلَى خَلاهُ "

"بے شک اس شہر کو اللہ نے اس دن سے حرمت والا بنایا ہے جس دن سے آسمان وزمین بنائے ہیں اور اس کی یہ حُرمت اللہ کے حرمت عطا کرنے کی وجہ سے ہے جو قیامت تک رہےگی۔۔۔نہ اس کے کانٹے دار درخت کاٹے جائیں ،نہ اس کے شکار کو بھگایا جائے۔۔۔اور نہ اس کی گھاس کاٹی جائے۔"[28]

(6)۔بلاوجہ کتا رکھنا حرام ہے الا یہ کہ جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رخصت دی ہواور وہ تین امور ہیں:

1۔شکار کے لیے ہو۔

2۔جانوروں کی نگرانی کے لیے ہو۔

3۔یاکھیتوں کی حفاظت کی خاطر ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا ہے:

"مَنِ اتَّخَذَ كَلْباً إِلاَّ كَلْبَ مَاشِيَةٍ أوْ صَيْدٍ أوْ زَرْعٍ انْتُقِصَ مِنْ أجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ"

"جس شخص نے ریوڑ ،شکار اور کھیت کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے کتا رکھا اس کا اجر روزانہ ایک قیراط کم ہوگا۔"[29]

بعض لوگ اس وعید کی پرواہ نہیں کرتے اور مذکورہ تین اغراض کے بغیر ہی محض فخر اور کفار کی تقلید کی خاطر کتے رکھتے اور پالتے ہیں۔اس بات کا قطعاًکوئی خیال نہیں ہوتا کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کے مطابق ان کا اجردن بدن کم ہورہاہے،حالانکہ اگر اسے دنیا کے مال میں سے کوئی معمولی سانقصان ہو تو اسے برداشت نہیں کرتا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبردی ہے:

" لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة "

"فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو۔"[30]

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ا پنے رب سے ڈرے اور گناہ کا ارتکاب کرکے خود پر ظلم نہ کرے اورخود کوایسے کام سے بچائے جو اجر کی کمی کاباعث ہے۔واللہ المستعان۔


[1]۔المائدۃ 5/3۔

[2]۔سنن ابن ماجہ الاطعمۃ باب الکبد والطحال حدیث 3314ومسند احمد 2/97۔

[3]۔سنن ابی داود الطھارۃ باب الوضوء بماء البحر حدیث 83 ومسند احمد 2/361۔

[4]۔المائدۃ 5/5۔

[5]۔صحیح البخاری الذبائح والصید باب ذبائح اھل الکتاب۔۔۔قبل حدیث 5508۔

[6]۔صحیح البخاری الجھاد باب ما یکرہ من ذبح الابل والغنم فی المغانم حدیث 3075۔

[7]۔اعلام الموقعین 4/142۔143۔

[8]۔صحیح البخاری الجھاد  باب ما یکرہ من ذبح الابل والغنم فی المغانم حدیث 3075۔

[9]۔اعلام الموقعین 4/142،143۔

[10]۔صحیح مسلم الصید باب الامر باحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ حدیث 1955۔

[11]۔صحیح البخاری الجھاد باب ما یکرہ من ذبح الابل والغنم فی المغانم حدیث 3075 وصحیح مسلم الاضاحی باب جواز  الذبح بکل ماانھر الدم۔۔۔حدیث 1968۔

[12]۔المائدۃ5/3۔

[13]۔الانعام:6/121۔

[14]۔اعلام الموقعین 2/152۔اگربھول چوک سے بسم اللہ نہ پڑھی جاسکی تو جانور حلال ہوگا کیونکہ حدیث میں ہے:

"إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي الخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ"

"بے شک اللہ تعالیٰ نے میری خاطرمیری امت کی خطاء بھول چوک اور جو کام کسی سے زبردستی اور مجبور کرکے کرایا جائے اسے معاف کردیا ہے۔"دیکھئے سنن ابن ماجہ حدیث 2043۔

[15]۔صحیح مسلم الصید باب الامر باحسان الذبح والقتل وتحدیدالشفرۃ حدیث 1955۔

[16]۔سنن ابن ماجہ الذبائح باب اذا ذبحتم فاحسنوا الذبح حدیث 3172۔ومسند احمد 2/108۔

[17]۔المائدۃ:5/2۔

[18]۔ المائدۃ:5/4۔

[19]۔صحیح البخاری الذبائح والصید باب اذا اکل الکلب۔۔۔حدیث 5483۔وصحیح مسلم الصیدوالذبائح باب بالکلاب المعلمۃ  والرمی حدیث 1929۔واللفظ لہ۔

[20]۔المائدۃ 5/4۔

[21]۔صحیح البخاری الذبائح والصید باب اذا  اکل الکلب۔۔۔حدیث 5483 وصحیح مسلم الصید والذبائح باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی حدیث 1929 واللفظ لہ۔

[22]۔الانعام 6/121۔

[23]۔المائدۃ:5/4۔

[24]۔صحیح البخاری الذبائح والصید باب اذااکل الکلب۔۔۔حدیث 5483 وصحیح مسلم الصید والذبائح باب الصید بالکلاب المعلمۃ والرمی حدیث 1929 واللفظ لہ۔

[25]۔السنن الکبریٰ للبیہقی 9/285 مزید دیکھئے صحیح البخاری الذبائح والصید باب التسمیۃ علی الذبیحۃ ومن ترک متعمداً حدیث 5498 وصحیح مسلم الاضاحی باب استحباب استحسان الضحیۃ حدیث 1966۔

[26]۔المائدۃ 5/95۔

[27]۔المائدۃ 5/96۔

[28]۔صحیح البخاری الجزیۃ باب اثم الغادر للبر والفاجر حدیث 3189 وصحیح مسلم الحج باب تحریم مکۃ و تحریم صیدھا۔۔۔حدیث 1353۔

[29]۔صحیح البخاری الحرث والمزارعۃ باب اقتناء الکلب للحرث حدیث 2322۔2323 وصحیح مسلم المساقاۃ باب الامر بقتل الکلاب وبیان نسخہ حدیث (58)۔1575۔واللفظ لہ۔

[30] ۔صحیح البخاری بدءالخلق باب اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ حدیث 3322۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

کھانے کے احکام:جلد 02: صفحہ469

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ