سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(25) کھانے کے احکام

  • 23747
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 3318

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کھانے کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خوراک جسم انسانی کی ایک اہم ضرورت ہے،اس خوراک کا اثر انسان کے اخلاق وکردار پر بھی پڑتا ہے۔اچھی اور پاک غذاانسان پر اچھے  اثرات چھوڑتی ہے نکمی اور حرام غذا سے بُرے اثرات ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کوپاک صاف اشیاء کھانے کا حکم دیاہے اور خبائث(حرام ونکمی اشیاء) سے منع کیاہے۔

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ كُلوا مِمّا فِى الأَرضِ حَلـٰلًا طَيِّبًا...﴿١٦٨﴾... سورة البقرة

"اے لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں تم انھیں میں سے کھاؤ(پیو۔)"[1]

نیز اللہ کافرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُلوا مِن طَيِّبـٰتِ ما رَزَقنـٰكُم وَاشكُروا لِلَّهِ إِن كُنتُم إِيّاهُ تَعبُدونَ ﴿١٧٢﴾... سورة البقرة

"اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمھیں دے رکھی ہیں کھاؤ(پیو) اور اللہ کا شکر کرو،اگرتم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو۔"[2]

اورفرمان الٰہی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلوا مِنَ الطَّيِّبـٰتِ وَاعمَلوا صـٰلِحًا ... ﴿٥١﴾... سورة المؤمنون

"اے پیغمبرو!حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔"[3]

مزید فرمان الٰہی ہے:

﴿قُل مَن حَرَّمَ زينَةَ اللَّهِ الَّتى أَخرَجَ لِعِبادِهِ وَالطَّيِّبـٰتِ مِنَ الرِّزقِ ...﴿٣٢﴾... سورة الاعراف

"آپ فرمادیجئے کہ اللہ کے پیدا کیے ہوئے کپڑوں(زینت) کو جنھیں اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اورکھانا پینے کی حلال چیزوں کو کس نے حرام کیاہے؟"[4]

(1)۔غذا(طعام) سے مراد وہ اشیاء ہیں جو کھانے پینے کے کام آتی ہیں۔

(2)۔کھانے والی اشیاء میں اصل ضابطہ چیز کاحلال ہونا ہے،جیسےاللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿هُوَ الَّذى خَلَقَ لَكُم ما فِى الأَرضِ جَميعًا...﴿٢٩﴾... سورة البقرة

"(اللہ) وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے۔"[5]

اس آیت کے علاوہ کتاب وسنت میں بہت سی نصوص ہیں جو اس امر پردلالت کرتی ہیں کہ خوراک میں اصل ضابطہ ہر چیز کا حلال ہوناہے الا یہ کہ جن  اشیاء کو مستثنیٰ کردیاگیاہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" اللہ تعالیٰ نے خوراک کے لیے پاک صاف اشیاء کو حلال قراردیا ہے تاکہ ان سے حاصل ہونے والی طاقت کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کرے نہ کہ معصیت کاارتکاب کرے،چنانچہ فرمان الٰہی ہے:

﴿لَيسَ عَلَى الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ جُناحٌ فيما طَعِموا ...﴿٩٣﴾... سورة المائدة

"ایسےلوگوں پر جو کہ ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جس کو وہ کھا پی چکےہوں۔"[6]

یہی وجہ ہے کہ گناہ کے عادی شخص کے ساتھ ،حلال خوراک مہیا کرکے ،تعاون کرنا جائز نہیں،مثلاً: کوئی شخص کسی ایسے شخص کو گوشت اور روٹی دے جو اسے  کھانے کے بعدشراب پیے اور بے حیائی کاارتکاب بھی کرے ۔یاد رہے جس نے پاک صاف اشیاء کھائیں اور اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہ کیا تو وہ مذموم شخص ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ثُمَّ لَتُسـَٔلُنَّ يَومَئِذٍ عَنِ النَّعيمِ ﴿٨﴾... سورة التكاثر

"پھر اس دن تم سے ضرور بالضرورنعمتوں کا سوال ہوگا۔"[7]

اللہ تعالیٰ نے  پاک صاف اشیاء کو اس لیے مباح قراردیا تاکہ لوگ ان سے استفادہ کریں۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿يَسـَٔلونَكَ ماذا أُحِلَّ لَهُم قُل أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ... ﴿٤﴾... سورةالمائدة

"آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا کچھ حلال ہے؟آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں۔"[8]

(3)۔اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی جو اشیاء حرام کی ہیں ان سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَقَد فَصَّلَ لَكُم ما حَرَّمَ عَلَيكُم إِلّا مَا اضطُرِرتُم إِلَيهِ ...﴿١١٩﴾... سورة الانعام

"حالانکہ اللہ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتادی ہے جن کو اس نے تم پر  حرام کیاہے مگروہ بھی جب تم کو سخت ضرورت پڑجائے تو حلال ہیں۔"[9]

اگر کسی چیز کی حرمت بیان نہیں کی گئی تو وہ حلال ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا . وَحَرَّمَ حُرُمَاتٍ فَلاَ تَنْتَهِكُوهَا وَحَدَّ حُدُوداً فَلاَ تَعْتَدُوهَاوَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلاَ تَبْحَثُوا عَنْهَا"

"اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کیے ہیں انھیں ضائع مت کرو،کچھ اشیاء حرام قراردی ہیں ان کا ارتکاب نہ کرو اوراس نے حدود متعین کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ،کچھ اشیاء کے بارے میں بھولے بغیرخاموشی،اختیار کی ہے،ان کے بارے میں تحقیق میں نہ پڑو۔"[10]

(4)۔کھانے،پینے اور پہننے کی جن اشیاء کو اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرام قرار نہیں دیا،انھیں حرام کہناجائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ حرام کیاہے وہ تفصیل سے بیان فرمادیاہے ،لہذا جو چیزحرام ہے اس کی حرمت کا ذکر ضرور(قرآن وحدیث میں) موجود ہوگا۔جس طرح اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال سمجھ لیناجائز نہیں،اسی طرح جس چیز کے بارے میں اللہ نے صرف نظر کیا ہے اور اسے حرام قرار نہیں دیا،اسے حرام کہنا درست نہیں۔

(5)۔کھانے پینے کی اشیاء کے حلال اور حرام میں قاعدہ ضابطہ یہ ہے کہ وہ کھانا  جو پاک  صاف  ہو اوراس میں ضرور نہ ہوتو وہ مباح ہے اور جو نجس ہو وہ  حرام ہے،مثلاً:مردار ،خون،لید،پیشاب،نشہ آور اشیاء،حشیش(بھنگ) اور گندی اور بدبودار اشیاء وغیرہ۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ وَما أُهِلَّ لِغَيرِ اللَّهِ بِهِ...﴿٣﴾... سورة المائدة

"تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کاگوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکاراگیا ہو۔۔۔"[11]

مردار سے مراد وہ جانورہے جس کی زندگی شرعی  طریقے سے ذبح کیے بغیر ختم ہوجائے۔اسےاس لیے حرام قرار دیاگیا کہ وہ خبیث خوراک ہے،لہذا اس کی تحریم شریعت کے محاسن میں شامل ہے،البتہ اگر کوئی شخص انتہائی طور پر مجبورہوجائے کہ اس کی زندگی کی بقا کامسئلہ ہوتو اس قدر کھاسکتاہے جس سے وہ زندہ رہ سکے۔

خون سے مراد ذبح کے وقت بہنے والاخون ہے۔عہد جاہلیت میں اس جمے ہوئے خون کے ٹکڑوں کو بھون کرکھا لیتے تھے۔باقی رہا وہ خون جو ذبح کرنے کے بعد گوشت کے خلیوں میں یا رگوں میں باقی رہ جاتا ہے تو وہ مباح ہے حتیٰ کہ گوشت پکڑتے وقت جو خون ہاتھ کولگ گیا یا کپڑےسے صاف کرتےوقت جو خون لگ گیا وہ نجس(حرام) نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" صحیح بات یہ ہے کہ ذبح کے وقت تیزی سے بہنے والاخون حرام ہے اورجوخون گوشت کی رگوں میں باقی رہ جاتا ہے وہ علماء کے نزدیک حرام نہیں ہے۔"[12]

(6)۔ کھانے پینے کی وہ اشیاء بھی حلال نہیں جن میں ضرر اور نقصان کا پہلو ہو،مثلاً:زہر،شراب،حشیش،سگریٹ اور تمباکو وغیرہ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ...﴿١٩٥﴾... سورة البقرة

"اور اپنے ہاتھوں  ہلاکت میں نہ  پڑو۔"[13]

اس آیت کریمہ سے ہر وہ چیز حرام ثابت ہوتی ہے جس سے جسم یا عقل کو نقصان پہنچتا ہو۔

(7)۔حلال کھانے دو قسم کے ہیں:حیوانات اورنباتات ،مثلاً:اناج،پھل وغیرہ جو چیزنقصان کا باعث نہیں وہ مباح ہے۔

حیوانات دوقسم کے ہیں:

1۔وہ حیوانات جو خشکی میں رہتے ہیں۔

2۔وہ حیوانات جو پانی میں رہتے ہیں۔

خشکی کے جانور مباح ہیں مگر ان کی کچھ اقسام ایسی ہیں جنھیں شریعت نے  حرام قراردیاہے،چنانچہ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔پالتو گدھا،سیدنا جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم خيبر عن لحوم الحمر الأهلية ورخص في الخيل"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع کردیااور گھوڑوں کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔"[14]

ابن منذر  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" اس مسئلے میں اہل علم کے درمیان کسی زمانے میں کوئی اختلاف نہیں رہا۔"

2۔خشکی کے جانوروں میں سے ان جانوروں کاگوشت بھی حرام ہے جو کچلی والے اور چیر نے پھاڑنے والے جانور ہیں،چنانچہ ابوثعلبہ خشنی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچلی والے درندوں کا گوشت کھانے سے منع کیاہے۔"[15]

البتہ لگڑ بھگڑ کا گوشت کھانا جائز ہے،چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سےروایت ہے:

"أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بأكل الضبع"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں لگڑ بھگڑ کھانے کی رخصت دی ہے۔"[16]

علامہ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کے جواز کو دلائل سےثابت کیا ہے،چنانچہ وہ فرماتے ہیں:"جودرندہ دو اوصاف کاحامل ہووہ حرام ہے ،یعنی اس کی کچلی ہو اور وہ حملہ آوردرندوں میں شمار ہوتا ہو،جیسے شیر،بھیڑیا ،تیندوااورچیتا وغیرہ،لگڑ بھگڑ میں تو صرف ایک وصف اس کی کچلی کا ہوناہے اس کا شمار تو حملہ آور درندوں میں ہوتا ہی نہیں۔درندے کے حرام ہونے کی وجہ اس میں درندگی کی ایسی قوت کا ہونا ہے جو اسے کھانے والے کی طبیعت پراثر انداز ہوتی ہے،جس قسم کی خوراک کوئی کھائے گا ویسا ہی وہ اثر قبول کرے گا۔درندگی کی جوتاثیر وقوت شیر ،بھیڑیے ،تیندوے اور  چیتے میں ہوتی ہے وہ لگڑٖ بھگڑ میں نہیں پائی جاتی کہ جس کی وجہ سے دونوں قسم کے جانوروں میں برابری پائی جاتی ہو۔لگڑ بھگڑ کو نہ لغت میں درندہ کہاگیا ہے نہ عرف میں۔"[17]

3۔پرندے مباح ہیں مگر ایسے پرندے حرام ہیں جو پنجوں کے شکار کرتے ہیں،مثلاً:عقاب ،باز،شکراوغیرہ،چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل ذي ناب من السباع وعن كل ذي مخلب من الطير"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچلی والےدرندوں اور پنجے سے پکڑ کر شکار کرنے والے پرندوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔"[18]

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آثار تواتر کے ساتھ ملتے ہیں جو سب صحیح ہیں۔اس کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایات معروف ہیں۔"[19]

4۔جو پرندے مردار کھاتے ہیں ان کا گوشت کھانا بھی حرام ہے،مثلاً:باز،گدھ اور کوا کیونکہ یہ خبیث(گندی) غذا کھاتے ہیں۔

5۔وہ حیوانات بھی حرام ہیں جوخبیث سمجھے جاتے ہیں،مثلاً:سانپ ،چوہا اور حشرات وغیرہ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" سانپ اور بچھو کا کھاناحرام ہے۔اس پر اہل علم کااجماع ہے۔جس شخص نے انھیں حلال سمجھتے ہوئے کھایا اسے توبہ کرنے کاحکم دیاجائے۔اگر کسی نے حرام سمجھتے ہوئے کھایا تو وہ فاسق ہے،یعنی اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرنے والا ہے۔"[20]

6۔کیڑے مکوڑوں کوکھانا حرام ہے کیونکہ ان کا شمار خبیث اشیاء میں ہوتا ہے۔

(7)۔ایسے حیوانات جو ایک حلال اور ایک حرام جانور کے ملاپ سے پیداہوں،ان کا کھانا بھی حرام ہے،مثلاً: خچر جو گھوڑی اور گدھے کے ملاپ کی پیداوار ہے۔اس میں گدھے کی جانب کوترجیح دیتے ہوئے اسے حرام قراردیا گیا ہے۔

(8)۔بعض علماء نے خشکی کے حرام جانوروں کی چھ اقسام اجمالاً یوں بیان کی ہیں:

وہ جانور جن کا نام لے کر حرام قراردیاگیا ہو،مثلاً:پالتو گدھا۔

وہ جانور جو وضع کردہ تعریف اور ضابطے میں داخل ہوں،مثلاً: وہ درندہ جس کی کچلی ہو یا وہ پرندہ جو پنجے سے شکار کرے اور کھائے۔

جو جانور مردار کھاتے ہیں،مثلاً گدھ اور کوا وغیرہ۔

وہ جانور جو خبیث اور مکروہ سمجھے جاتے ہیں ،مثلاً:چوہا اور سانپ وغیرہ۔

وہ جانور جو حلال اور حرام کے ملاپ سے پیداہوں،مثلاً :خچر۔

وہ جانور جن کے بارے میں شارع علیہ السلام  نے حکم دیا ہے کہ قتل کردیا جائے ،مثلاً:پانچ فاسق جانور سانپ،چوہا،(کاٹنے والا) کتا،بچھو ،چیل یا ان کو قتل کرنے سے منع کیاہے،مثلاً:ہدہد،ممولا اور مینڈک وغیرہ۔

(9)۔مذکورہ قسم کے حیوانات اور پرندوں کے سوا باقی سب حلال ہیں اصل اباحت کودیکھتے ہوئے،مثلاً:گھوڑا،چوپائے،(گائے،اونٹ،بھیڑ،بکری) مرغی،جنگلی گدھا،ہرن،شتر مرغ  اورخرگوش وغیرہ۔ان سب کا گوشت پاک صاف اورپسندیدہ سمجھاجاتا ہے ،لہذا یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہے:

﴿ قُل أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ﴾

"آپ کہہ دیجئے کہ تمام چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں۔"[21]

(10)۔اگر کسی بھیڑ،گائے اور اونٹ کی اکثر خوراک گندی اشیاء ہوں تو وہ بھی حلال جانوروں میں سے مستثنیٰ ہیں،یعنی ان کاکھانا حرام ہے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت میں ہے:

"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے گندگی کھانے والے جانوروں کاگوشت کھانے اور ان کادودھ پینے سے منع فرمایا ہے۔"[22]

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت یوں ہے:

"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ ، وَعَنْ الْجَلَّالَةِ ، وَعَنْ رُكُوبِهَا ، وَعَنْ أَكْلِ لَحْمِهَا"

"۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پالتو گدھوں کے گوشت کھانے سے اور گندی اشیاء کھانے والے جانور پرسواری کرنے اور ان کاگوشت کھانے سے منع فرمایا۔"[23]

ایسے جانوروں میں خواہ چوپائے ہوں یا مرغی وغیرہ ،نیز ان کادودھ ہویا انڈے ،سب کچھ نجس ہے۔ایسے جانور کو تین روز تک باندھ کررکھا جائے اور صرف پاک صاف خوراک کھلائی جائے ،پھر ان کا گوشت یا انڈے کھائے جائیں۔

علامہ ا بن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" مسلمانوں کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ جب کوئی جانورنجس چارہ کھاتا ہوتو اسے باندھ کر پاک صاف چارہ کھلایا جائے،تب اس کا دودھ اور گوشت حلال ہوگا۔اسی طرح وہ کھیت یا پھلوں کے درخت جنھیں گندا پانی دیا جاتا ہو پاک صاف پانی دیا جائے تب ان کا کھانا حلال ہوگا کیونکہ خبیث شے پاک چیز پر اثرات چھوڑتی ہے۔"[24]

(11)۔پیاز،لہسن وغیرہ اشیاء جن کی بونا پسندیدہ ہوتی ہے ان کاکھانا مکروہ ہے بالخصوص جب مسجد میں آنا ہوتو ان اشیاء سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ - يَعْنِي الثُّومَ - ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا"

"جس شخص نے اس پودے(پیاز،لہسن وغیرہ) سے کچھ کھایا وہ مسجد میں نہ آئے۔"[25]

(12)۔جس شخص کو اپنی جان کا خطرہ ہو وہ اس اضطراری حالت میں اپنی زندگی بچانے کے لیے حرام شے کھا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَمَنِ اضطُرَّ غَيرَ باغٍ وَلا عادٍ فَلا إِثمَ عَلَيهِ ...﴿١٧٣﴾... سورة البقرة

"پھر مجبور ہوجائے اور وہ حد سے بڑھنے والا  اورزیادتی کرنے والا نہ ہو،اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں۔"[26]

اسی طرح جب کوئی شخص جان بچانے کے لیے دوسرے کا کھانا کھانے پر مجبورہو اور کھانے کا مالک اس کیفیت میں نہ ہوتو مالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے اتنی خوراک قیمتاً دے دے جس سے اس کی زندگی بچ جائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اگر مجبور آدمی فقیر ہوتو اس پر کھانے کا معاوضہ لازم نہیں۔بھوکے کو کھانا کھلانا اورننگے کو کپڑے پہنانا فرض کفایہ ہے،جب بھوکے کوکوئی نہ کھلائے یاننگے  کو کوئی نہ پہنائے تو معین افراد پر یہ فرض عین بن جاتا ہے۔"[27]

(13)کسی مسلمان کے پاس ایک سے زائد اشیاء موجود ہوں جن کے استعمال کیاسے فی الحال ضرورت نہیں جبکہ اس کے دوسرے مسلمان بھائی کو اس کے استعمال کی شدید ضرورت ہے ،نیزشے کے استعمال کرنے سے اس میں کوئی کمی یا فرق بھی نہ آتا ہوتومالک کو چاہیے کہ اپنے بھائی کو بلاعوض اس کے استعمال کی اجازت دےدے،مثلاً:سردی سے بچنے کے لیے کسی کو عارضی طور پر چادر یا کمبل وغیرہ دینا،یا کنویں کا پانی نکالنے کے لیے رسی یا ڈول مہیا کرنا یاکھانا پکانے کے لیے کوئی برتن دینا۔اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ عنداللہ قابل مذمت ہے،چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَيَمنَعونَ الماعونَ ﴿٧﴾... سورة الماعون

"اور(لوگوں کو) استعمال کی معمولی چیزیں بھی دینے سے انکار کرتے ہیں۔"[28]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:

"ماعون وہ اشیاء ہیں جنھیں لوگ عموماً ایک دوسرے سے استعمال کے لیے مانگ لیتے ہیں،مثلاً:کلہاڑی،ہنڈیا،ڈول وغیرہ۔"[29]

(14)۔اگر کسی شخص کا پھلوں کے باغ کے قریب سے گزر ہو تو وہ درخت پر لگا ہوا یا گرا ہوا پھل مفت کھاسکتا ہے۔اس کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایات موجود ہیں۔اس میں یہ شرط ہے کہ وہ پھل کسی چار دیواری میں نہ ہویا اس پر کسی کا پہرہ نہ ہو یا وہ درخت پرچڑھا نہ ہویا درخت کو پتھر مار کرپھل حاصل نہ کیا ہو اور اپنے ساتھ اٹھا کرنہ لے جانے والا ہو اور نہ اس نے جمع شدہ پھل سے اٹھایا ہوالا یہ کہ انتہائی مجبوری کی حالت میں ایسا کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ اس کی شرعاً اجازت ہے۔

(15)۔مسلمان پر اجنبی مسلمان کی ایک دن رات کی مہمانی کرنا واجب ہے بشرط یہ کہ شہر سے دور کسی گاؤں یا بستی سے اس کا گزر ہو۔اگر شہر ہوتو مہمانی واجب نہیں کیونکہ وہاں ہوٹل وغیرہ عام ہوتے ہیں بخلاف گاؤں کے کہ وہاں ہوٹل وغیرہ کا بندوبست نہیں ہوتا۔

 1۔مذکورہ حالت میں ضیافت کے وجوب کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته قالوا وما جائزته يا رسول الله صلي الله عليه وسلم!  قال يومه وليلته "

"جوشخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسےچاہیے کہ اپنے مہمان کی مہمانی ایک دن رات کے عطیہ کے ساتھ کرے۔انھوں(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مہمان کا عطیہ کتنا ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:ایک دن رات۔[30]

یہ حدیث مہمان کی مہمان نوازی کے وجوب پر دلیل ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ (من كان يؤمن بالله) ہیں۔اور ایمان باللہ کو مہمان نوازی سےمشروط کرنا اس کے وجوب کی دلیل ہے۔صحیحین میں روایت ہے:

"إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ"

"اگر تم کسی قوم کے ہاں ٹھہرو تو جو مناسب چیزیں تمھیں مہمانی کے لیے دیں اسے قبول کرو اور اگر ایسا نہ کریں تو ان سے خود ہی مہمانی کاحق لے لو۔"[31]

(16)۔اس کے بارے میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام  کا وہ واقعہ مشہور ہے جس میں ہے کہ آپ نے اپنے مہمان کی خدمت میں بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا۔یہ واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ضیافت سیدنا ابراہیم علیہ السلام  کی شریعت میں سے ہے۔اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مہمان کی خدمت میں اس کی ضرورت سے بڑھ کر شے پیش کی جانی چاہیے۔یہ سب کچھ دین ابراہیم  علیہ السلام  کی اعلیٰ خوبیوں میں سے ایک خوبی تھی اور یہ عمل مکارم اخلاق میں شامل ہے۔

ہمارے دین اسلام نے نہ صرف اسے قائم رکھا بلکہ اس کی مزید تاکید فرمائی ہے اور اس کے بارے میں رغبت دلائی ہے۔دین اسلام نےدس حقوق کا ذکر کرتے ہوئے مسافر کا بھی یہ حق بتایا کہ اس کی مہمان نوازی کی جائے،چنانچہ ارشاد ربانی ہے:

﴿وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِكوا بِهِ شَيـًٔا وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا وَبِذِى القُربىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينِ وَالجارِ ذِى القُربىٰ وَالجارِ الجُنُبِ وَالصّاحِبِ بِالجَنبِ وَابنِ السَّبيلِ وَما مَلَكَت أَيمـٰنُكُم إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَن كانَ مُختالًا فَخورًا ﴿٣٦﴾... سورةالنساء

"اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راه کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا" [32]

نیز  ارشاد ہے:

فَـٔاتِ ذَا القُربىٰ حَقَّهُ وَالمِسكينَ وَابنَ السَّبيلِ ...﴿٣٨﴾... سورة الروم

"لہذا آپ قرابت دار،مسکین اور مسافر ہر ایک کو اس کا حق دیجئے۔"[33]

مزید برآں زکاۃ کے جو آٹھ مصارف سورہ توبہ میں بیان کیے گئے ہیں ان میں مسافر کو بھی شامل کیاگیا ہے۔اللہ تعالیٰ کاشکر ہے جس نے  ہمیں ایسا کامل دین اورحکمتوں سے بھرپور شریعت عطافرمائی جوسراسر رحمت ورافت ہے۔


[1]۔البقرۃ:2/168۔

[2]۔البقرۃ:2/172۔

[3]۔المؤمنون 23/51۔

[4]۔الاعراف 7/32۔

[5]۔البقرۃ:2/29۔

[6]۔المائدۃ:5/93۔

[7]۔التکاثر 8/102۔

[8]۔الانعام 6/119۔

[9]۔الانعام:6/119۔

[10]۔السنن الکبریٰ للبیہقی 10/12 وسنن الدارقطنی4/183 حدیث 4350 واللفظ لہ۔

[11]۔المائدۃ 5/3۔

[12]۔مجموع الفتاویٰ 21/522۔

[13]۔البقرۃ:2/195۔

[14]۔صحیح البخاری المغازی باب غزوۃخیبر حدیث 4219۔وصحیح مسلم الصید والذبائع باب اباحۃ اکل لحم الخیل حدیث 1941 واللفظ لہ۔

[15]۔صحیح البخاری الذبائح والصید باب اکل کل ذی ناب من السباع حدیث 5530 وصحیح مسلم الصید والذبائع باب تحریم کل کل ذی ناب من السباع۔۔۔حدیث 1932 واللفظ لہ۔

[16]۔سنن ابی داود الاطعمۃ باب فی اکل الضبع حدیث 3801 وجامع الترمذی الحج باب ماجاء فی الضبع یصیبھا المحرم حدیث 851۔

[17]۔اعلام الموقعین 2/120۔

[18]۔صحیح مسلم الصید والذبائع ،باب تحریم اکل کل ذی ناب من السباع۔۔۔،حدیث 1934۔

[19]۔اعلام الموقعین 2/118۔

[20]۔مجموع الفتاویٰ 11/609۔

[21]۔المائدۃ:5/4۔

[22]۔سنن ابی داود الاطعمۃ باب النھی عن اکل الجلالۃ والبانھا  حدیث 3785۔

[23]۔سنن ابی داود الاطعمۃ باب فی اکل لحوم الحمر الاھلیۃ حدیث 3811۔

[24]۔اعلام الموقعین 2/15۔

[25]۔صحیح البخاری الاذان باب ماجاء فی النوم النبی ء والبصل والکراث 853 وصحیح مسلم الصلاۃ باب نھی من اکل ثوما اوبصلا۔۔۔حدیث 561۔564۔البتہ صحیح بخاری میں(مصلانا) کے بجائے(مَسْجِدَنَا)ہے۔

[26]۔البقرۃ:2/173۔

[27]۔الفتاویٰ الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ الاطعمۃ 5/ 548۔

[28]۔الماعون 7/107۔

[29]۔تفسیر الطبری تفسیر سورۃ الماعون وتفسیر ابن کثیر الماعون 7/107۔

[30]۔صحیح البخاری الادب باب من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلایؤزجارہ حدیث 6019۔وصحیح مسلم اللقطۃ باب الضیافۃ ونحوھا حدیث 48 بعد حدیث 1726 واللفظ لہ۔

[31]۔صحیح البخاری المظالم باب قصاص المظلوم اذا وجد مال ظالمۃ حدیث 2461 وصحیح مسلم القطۃ باب الضیافۃ ونحوھا،حدیث 1727 واللفظ لہ۔

[32]۔النساء 4/36۔

[33]۔الروم 30/38۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

کھانے کے احکام:جلد 02: صفحہ446

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ