سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

((20) دیتوں کے احکام

  • 23742
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 4617

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دیتوں کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دیات،دیت کی جمع ہے۔دیت اس مال کو کہتے ہیں جو جنایت کرنے والا مظلوم کو یا اس کے وارث کو جنایت کے سبب اداکرتا ہے۔دیت کے وجوب کی دلیل کتاب اللہ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور اجماع اُمت ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَـًٔا فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ ... ﴿٩٢﴾... سورة النساء

"جوشخص کسی مسلمان کو بلا قصد مارڈالے،اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچاناہے۔۔۔"[1]

حدیث شریف میں ہے:

"وَمَن قُتِلَ لَهُ قتيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُقْتَلَ، وَإِمَّا أنَّ يُفْدَى"

"جس کا کوئی  آدمی قتل کردیا گیا اسے دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرنے کاحق ہے کہ وہ دیت قبول کرلے یا قاتل سے انتقام لے۔"[2]

(1)۔ہر اس شخص پر دیت واجب ہے جس نے بلاواسطہ کسی انسان کو ختم کردیا،مثلاً: کسی کو مارا پیٹا جس سے وہ مرگیا یا اسے کار کے نیچے کچل دیا یا وہ اس کے قتل کا سبب بنا،جیسا کہ اس نے راستے میں گڑھا کھودا یا وہاں بھاری بھرکم پتھر رکھ دیا جس کے سبب کوئی انسان چلتا بنا،ان تمام صورتوں میں دیت اداکرنا ضروری ہے،خواہ تلف ہونے والامسلمان ہو یاذمی،مستامن یا اس قوم کا فرد ہو جس سے مسلمانوں کاجنگ بندی کامعاہدہ ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ وَإِن كانَ مِن قَومٍ بَينَكُم وَبَينَهُم ميثـٰقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ ...﴿٩٢﴾... سورة النساء

اوراگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد وپیماں ہے تو خون بہا لازم ہے جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے۔"[3]

(2)۔اگر ایک شخص نے کسی کو عمداً قتل کیا تو دیت قاتل کے مال سے فوری طور پر دی جائے گی کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی چیز کو تلف کرنے والے ہی پر اس چیز کا بدل(قیمت وغیرہ) ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔

ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" اہل علم کا اس مسئلے پر اجماع ہے،اصول وضابطہ اس کا متقاضی ہے[4] کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾

 "کوئی بوجھ والا کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادےگا۔"[5]

چونکہ خطائیں اکثر طور پر انسان سےسرزد ہوتی رہتی ہیں جس میں انسان کاارادہ شامل نہیں ہوتا،چنانچہ قتل خطا میں قاتل پردیت کا بوجھ ڈالنا زیادتی ہے،اس لیے حکمت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ادائیگی عاقلہ(عصبہ ورثاء) پر ڈال دی جائے تاکہ قاتل کے ساتھ ہمدردی اور تعاون ہوسکے۔یہ تخفیف اس لیے کی گئی ہے کہ وہ معذور ہے جبکہ عمداً قتل کرنے والا معذور نہیں،اس لیے اس پر تخفیف بھی نہیں،پھر ایسے شخص پر تو قصاص تھا جب اسے معافی مل گئی تو اسے اپنی جان کے عوض میں دیت کی ادائیگی بھی خود برداشت کرنا ہوگی اور یہ دیت فوری ادا کی جائے گی جس طرح دیگر امور میں ہونے والے نقصانات کا تاوان ادا کیا جاتا ہے۔

(3)۔اسی طرح قتل شبہ عمدہ ہو یا قتل خطا دونوں میں دیت قاتل کے عاقلہ(عصبات) کے ذمے ہے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے مروی ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں لڑی پڑیں۔ایک نے دوسری کو پتھر مار کر اسے اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کو قتل کردیا۔

"وَقَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فیصلہ دیا کہ عورت کی دیت قتل کرنے والی عورت کے عصبہ ادا کریں۔[6]

اس روایت سے واضح ہوا کہ قتل ِ شبہ عمد کی دیت قاتل کے عصبہ ورثاء کے ذمے ہے۔الغرض قتل شبہ عمد ہو یا قتل ِخطا ان دونوں صورتوں میں دیت کی ذمے داری قاتل کے عصبہ ورثاء پر ہے۔امام ا بن منذر  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:"اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔"ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ   نے بھی یہی بات نقل کی ہے۔

اسی طرح کوئی سویا ہوا شخص پہلو بدلتے ہوئے کسی انسان پر گر پڑے جس سے دوسرا مرجائے یا کسی نے راستے میں تعدی کرکے گڑھا کھودا جس میں کوئی گر کر مرگیا تو اس میں ضمان اور تاوان نہ ہوگا۔

(4)۔اگر ایک شخص نے کسی کو ایسی سزادی جس کی اسے شرعاً اجازت تھی لیکن سزا کی وجہ سے آدمی ہلاک ہوگیا تو  سزا دینے والا شرعاً ضامن نہ ہوگا،مثلاً:باپ نے بیٹے کو یا شوہر نے  بیوی کو تمیز سکھانے کی خاطر سزا دی یا حاکم نے اپنی رعایا میں سے کسی کو سزا دی جو معمول کے مطابق تھی،یعنی اس میں زیادتی سے کام نہ لیا گیا تھا تو سزا دینے وا لے پر ضمان نہ ہوگا کیونکہ اس نے جو کچھ کیا ہے اسے اس کی شرعاً اجازت تھی،البتہ اگراس نے ادب وتمیز سکھانے کے لیے مناسب حد سے زیادہ سزا دی تو وہ ضامن ہوگا۔

(5)۔اگر کسی عورت کو ایسی سزا دی جس سے اس کا حمل ضائع ہوگیا تو مؤدب شخص پر حمل کا ضمان واجب ہوگا جو ایک غلام لونڈی کی ادائیگی کی صورت میں ہوگا،چنانچہ روایت ہے کہ"آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک ایسے ہی واقعے میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔"[7]اہل علم کی اکثریت کا یہی قول ہے۔

(6)۔اگرکسی نے حاملہ عورت پر خوف اورگھبراہٹ طاری کی جس کے سبب اس کا حمل ضائع ہوگیا تو وہ شخص ضامن ہو گا،مثلاً :کسی حاکم نے حاملہ عورت کو اپنے ہاں طلب کیا۔اس طلبی کے سبب عورت پر اس قدر خوف طاری ہواکہ اس کا حمل ضائع ہوگیا۔ایک روایت میں ہے کہ" ایک عورت کا خاوند پردیس میں تھا۔اس کے پاس کچھ لوگ آتے جاتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے اسے طلب  فرمالیا،اس عورت نے کہا:ہائے افسوس!عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ    کو مجھ سے کیا کام ہے؟وہ عورت اس قدر گھبراگئی کہ خوف میں آکر راستے ہی میں اس نے قبل از وقت بچے کو جنم دیا جس نے دو سانسیں لیں اورفوراً مرگیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نےصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے اس کے بارے میں مشورہ کیا،بعض نے کہا کہ اے امیر المومنین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  !آپ کے ذمے کچھ ضمان نہیں آتا۔سیدنا علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے کہا:امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ! اگر شوریٰ کے بعض اراکین نے آپ کی محبت کے پیش نظر یہ بات کہی ہے تو انھوں نے آپ کی خیر خواہی نہیں کی۔اس بچے کی دیت آپ کے ذمے ہے کیونکہ آپ کے خوف ہی کی وجہ سے بچہ ضائع ہوا ہے۔[8]

(7)۔اگر ایک شخص نے دوسرے(عاقل وبالغ) شخص کو حکم دیا کہ وہ کنویں میں اترے یا درخت پر چڑھے۔اس نے ایسا ہی کیا لیکن وہ اترنے یا چڑھنے کی وجہ سے ہلاک ہوگیاتوحکم دینے والا ضامن نہ ہوگا کیونکہ اس نے جنایت کاارتکاب نہیں کیا اور نہ کوئی زیادتی کوئی ہے،البتہ اگر یہ حکم چھوٹے بچے کو دیا گیا ہوتوحکم دینے والا اس کی ہلاکت کا ذمہ دار ہوگا کیونکہ وہ اس کی موت کا سبب بنا ہے۔

اسی طرح کسی نے ایک شخص سے اجرت مقرر کی،پھر اسے کنویں میں اتار یا درخت پر چڑھایا لیکن وہ اس سبب سے ہلاک ہوگیا تو اجرت پر رکھنے والا شخص ضامن نہ ہوگا کیونکہ اس کا کوئی قصورنہیں۔

(8)۔جس نے کسی شخص سے معاہدہ کیا کہ وہ اس کے گھر میں کنواں تیار کردے۔ اگر اس کام کےدوران میں اس پر مٹی گری یا کنواں بیٹھ گیا جس کی وجہ سے کنواں تیار کرنے والا مرگیا تو اس کی دیت کسی پر واجب نہیں ہوگی۔

ان مسائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے بے  گناہوں کی جان کی حفاظت کاکس قدر اہتمام کیا ہے۔آج کل بہت سے لوگ اس ذمے داری کا بالکل احساس نہیں کرتے،وہ اتنی لا پروائی سے ڈرائیونگ کرتے ہیں کہ اپنی جانوں کوبھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں اور دوسروں کی جانوں کو بھی۔بعض اوقات ایک شخص کی لاپرائی کی وجہ سے پورا خاندان موت کے منہ میں چلاجاتاہے۔اس کی ذمے داری ایسے مہم جو لڑکوں کے والدین پر بھی عائد ہوتی ہے جو عمداً گاڑیاں ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں کہ بےگناہ افراد کی جانیں لیتے پھریں،یعنی انھیں ہلاک کریں۔یہ گاڑیاں ان کے ہاتھوں میں ایسے ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہیں جن کو غیر ذمے دارانہ طور پر استعمال کرکے وہ لوگوں کو ہلاک کرتے اور دہشت پھیلاتے ہیں۔انھیں چاہیے کہ اپنی اولاد اور عام مسلمانوں کے بارے میں اللہ سے ڈریں۔اور حکمرانوں کابھی فرض ہے کہ وہ ایسے افراد کو لگام دیں تاکہ سب لوگوں کی سلامتی یقینی ہوسکے اور امن قائم ہوجائے کیونکہ حکمرانوں کے ذریعے سے ان امور کا سدباب ہوجاتا ہے جن کا سد باب محض وعظ وتلقین کے ذریعے سے نہیں ہوسکتا۔

دیتوں کا مقدار کا بیان

اسلامی قانون میں انسان کے مختلف حالات،یعنی مسلمان،آزاد،غلام،مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے یا مقتول شخص کے بنفسہ زندہ ہونے  یا ماں کے پیٹ میں جنین ہونے کے اعتبار سے الگ الگ دیت مقرر ہے۔جس کی  تفصیل درج ذیل ہے:

1۔آزاد مسلمان شخص کی دیت کی مقدار سب سے زیادہ ہے جو تقریباً ایک ہزار مثقال سونے کی قیمت تک پہنچتی ہے یا بارہ ہزار اسلامی درہم ہیں(واضح رہے دس درہم کا وزن سات مثقال ہے۔)یاپھر سو اونٹ یا دوسوگائیں یا دو ہزار بکریاں بطور دیت ادا کرنا ہوں گی۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت ہے:

"فرض رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم الدية على أهل الإبل مائة من الإبل، وعلى أهل البقر مائتي بقرة، وعلى أهل الشاء ألفي شاة " 

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اونٹوں والوں پر سو اونٹ اور گائیوں کے مالک پر دو سوگائیں بکریوں والوں کے ذمے دو ہزار بکریاں بطوردیت ادا کرنا فرض قراردیں۔"[9]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت ہے:

"أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي عَدِيٍّ قُتِلَ فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا"

"بنو عدی کا ایک آدمی قتل ہوگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی دیت بارہ ہزار(درہم) مقرر فرمائی۔"[10]

عمرو بن حزم کی کتاب(خط) میں ہے:

"وعلى أهل الذّهب ألف دينارٍ"

"سونا ادا کرنے والوں پر ایک ہزار دینار ہے۔"[11]

(9)۔اہل علم اس کے بارےمیں  اختلاف کرتے ہیں کہ کیا یہ مذکورہ اشیاء(سونا،چاندی ،اونٹ،گائیں،بکریاں وغیرہ) سب اصل اشیاء ہیں کہ ان میں سے جو شے بھی ادا کردی جائے تو مقتول کے وارث پر لازم ہے کہ اسے قبول کرے،چنانچہ اہل علم کی ایک رائے یہی ہے کہ مذکورہ اشیاء میں سے کوئی ایک چیز مقرر مقدار کی صورت میں دے دی تو جائز ہے کیونکہ جو اس پر واجب تھا اس نے ادا کردیا ہے۔یہ قول اہل علم کی ایک جماعت کا ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اصل دیت صرف اونٹ ہی ہیں دیگر انواع نہیں۔یہ جمہور علماء کا قول ہے۔دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا ہے:

"وأن في النفس المؤمنة مائة من الإبل "

"مومن جان کی دیت سو اونٹ ہیں۔"[12]

نیز ایک اور روایت میں فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"أَلَا إِنَّ قَتِيلَ الْعَمْدِ الْخَطَإِ بِالسَّوْطِ أَوِ الْعَصَا فِيهِ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ"

"خبردار!قتل شبہ عمد جو کوڑے یا لاٹھی کے ساتھ ہو،اس میں مقتول کی دیت سواونٹ ہے۔"[13]

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:لوگو! اونٹ بہت مہنگے ہوچکے ہیں،لہذا سو اونٹ کی قیمت کے پیش نظر سونے کے مالک ایک ہزار دینار دیت دے گا،چاندی کا مالک بارہ ہزار درہم،گائیوں کا مالک دو سوگائیں،بکریوں کا مالک دو ہزار بکریاں اور کپڑے کا مالک دو سو جوڑے دیت میں ادا کرے گا۔"[14]

یاد رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے"شبہ عمد" میں دیت کے اونٹوں میں ایک مزید کڑی شرط لگائی ہے جو قتل خطا کی دیت میں نہیں(تفصیل آگے آرہی ہے) تو اس سے ثابت ہوا کہ اصل دیت اونٹ ہی ہیں۔تقریباً تمام اہل علم کا اس پر اجماع ہے اور یہی قول راجح ہے کیونکہ اونٹ کے علاوہ دیت میں دی جانے والی تمام اشیاء کی قیمت ہی کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

(10)۔قتل خطا کی نسبت  قتل عمد اور قتل شبہ عمد میں دیت کڑی ہے کہ سو اونٹوں کو چار حصوں میں یوں تقسیم کردیا گیا ہے کہ پچیس اونٹنیاں بنت مخاض ہوں،یعنی ان کی عمر ایک سال کی ہوچکی ہواور پچیس اونٹنیاں بنت لبون ہوں،یعنی ان کی عمر دو سال مکمل ہوچکی ہو  اور پچیس اونٹنیاں حقہ ہوں،یعنی جو تین سال کی ہوچکی ہوں  اور پچیس اونٹنیاں جذعہ ہوں،یعنی چار سال کی ہوچکی ہوں۔سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے اس مقدار کی تائید ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں:

"فى الخطأ ارباعا خمس وعشرون حقـة ، وخمس وعشرون جذعة ، وخمس وعشرون ابنة لبون  وخمس وعشرون ابنة مخاض"

"قتل خطا" کی دیت میں پچیس حقے(جو چوتھے سال میں داخل ہوں) اور پچیس جذعے(جو پانچویں سال میں داخل ہوں ) اور پچیس تیسرے سال میں داخل اور پچیس دوسرے سال میں داخل اونٹنیاں شامل ہوں گی۔"[15]

اگر قاتل مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق دیت ادا کردے تو مقتول کے ورثاء کو چاہیے کہ وہ اسے قبول کریں،البتہ اگر قاتل چاہے تو اونٹوں کی موجودہ قیمت بھی بطور دیت ادا کرسکتا  ہے۔

(11)۔"قتل خطا" کی دیت میں تخفیف ہے کہ سو اونٹوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،یعنی بیس بنت مخاض ،بیس بنت لبون ،بیس حقے ،بیس جذعے اور بیس ابن مخاض۔دیت میں یہ اقسام یا ان کی وہ قیمت ادا کی جائے گی جو رائج الوقت ہو۔

(12)۔آزاد اہل کتاب شخص ،خواہ ذمی ہو یا امن حاصل کرنے والا یا حلیف،اس کی دیت آزاد مسلمان آدمی کی دیت سے نصف دیت ہے کیونکہ سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت ہے:

"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " قضى أن عقلَ أَهْلِ الكِتَابينِ نِصْفُ عَقْلِ المسلمين"

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فیصلہ دیا کہ اہل کتاب(یہودونصاریٰ) کی دیت مسلمانوں کی دیت کا نصف ہے۔[16]

(13)۔مجوسی ذمی ہو،حلیف یا پناہ لینے والا،اسی طرح کوئی بت پرست حلیف ہو یا پناہ لینے والا ان کی دیت آٹھ سو اسلام درہم ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"دية المجوسي ثمان مائة درهم" "مجوسی کی دیت آٹھ سو درہم ہیں۔"[17]

یہ قول اہل علم کی اکثریت کا ہے۔

(13)۔اہل کتاب ،مجوس اور بت پرستوں کی عورتوں کی دیت ان کے مردوں کی دیت سے نصف ہے جیسا کہ مسلمان عورتوں کی دیت مسلمان مردوں سے نصف ہے۔"

ابن منذر  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" اہل علم کا اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہے۔"[18]

عمرو بن حزم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی کتاب(خط) میں بھی درج ہے کہ"عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔"[19]

علامہ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" یہ بات واضح ہے کہ عورت مرد سے ناقص ہے اور مرد عورت سے زیادہ نفع مند ہے کیونکہ دینی اور سیاسی مناصب ،سرحدوں کی حفاظت ،جہاد زمین کی آبادی اور وہ جملہ احکام جن کے ساتھ عالم انسانی کی  مصلحتیں وابستہ ہیں،اسی طرح دین ودنیا کے دفاع کے جملہ امور جس قدر مرد سرانجام دے سکتا ہے اس قدر عورت نہیں کرسکتی،لہذا عورت کی دیت مرد کے مساوی نہیں ہوسکتی۔اس کی ایک صورت یہ ہے کہ آزاد انسان کی دیت غلام یا کسی دوسری چیز کی قیمت کے قائم مقام ہے،لہذا شارع  علیہ السلام  کی طرف سے حکمت کا تقاضا ہوا کہ عورت کی قیمت مرد کی قیمت سے نصف مقرر کی جائے تاکہ دونوں میں فطری فرق برقرار رہے۔"[20]

(14)۔اگر دیت ایک تہائی سے کم واجب ہوتو مرد اور عورت کی دیت برابر ہوگی،چنانچہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"عَقْلُ الْمَرْأَةِ مِثْلُ عَقْلِ الرَّجُلِ حَتَّى يَبْلُغَ الثُّلُثَ مِنْ دِيَتِهَا"

"عورت اور مرد کی دیت برابر ہے جب وہ تہائی حصہ تک ہو۔"[21]

سیدنا سعید بن مسیب  رحمۃ اللہ علیہ    فرماتے ہیں:" یہی سنت ہے۔"

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" اس مذکورہ مسئلے میں امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  ،شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  ،اور علماء رحمۃ اللہ علیہ   کی ایک جماعت کا اختلاف ہے،انھوں نے کہا ہے :مرد اور عورت کی قلیل اور کثیر دیت میں برابری نصف تک ہے۔تاہم سنت پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے ۔ایک تہائی سے کم اور اس سے زیادہ کا حکم اس لیے الگ الگ ہے کہ ایک تہائی سے کم قلیل مقدار ہے ،لہذا اس میں عورت کی مصیبت کو مرد کے برابر قرار دیا گیا،اسی بناء پر مذکر اور مؤنث جنین میں دیت برابر ہوتی ہے کیونکہ اس کی دیت تھوڑی سی ہے،یعنی ایک غلام یالونڈی ،چنانچہ ایک تہائی سے کم پر جنین والے قانون کا اطلاق کردیاگیا۔"[22]

(15)۔غلام یا لونڈی کی دیت وہی ہے جو اس کی مناسب قیمت ہو،خواہ وہ کتنی ہی ہو۔اگر یہ قیمت آزاد آدمی کی دیت سے کم ہو تو متفقہ طور پر علماء کایہی موقف ہے لیکن اگر غلام کی قیمت آزاد کی دیت کےبرابر یا زیادہ ہوجائے تو امام احمد،مالک،شافعی،اور ابویوسف  رحمۃ اللہ علیہ   کا یہ قول ہے کہ اس کی قیمت ہی ادا کی جائے گی ،خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو۔

(16)۔جنین(پیٹ میں بچہ) لڑکا ہو یالڑکی،جب وہ جنایت کرنے والے کی جنایت کے سبب مرجائے تو اس میں ایک غلام یالونڈی دیت ہے یا اس کی قیمت پانچ اونٹ ادا کرنا ہوں گے،خواہ عمداً ایسا ہو یاخطاً کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے مروی ہے:

"قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنِينِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي لَحْيَانَ سَقَطَ مَيِّتًا بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بنو لحیان کی ایک عورت کے بارے میں فیصلہ دیا جس کے پیٹ میں بچہ قتل کردیا گیا کہ اسے ایک غلام یا لونڈی دی جائے۔"[23]

 وہ غلام یا لونڈی جنین کی طرف سے ترکہ قرار پائے گی۔گویا وہ سقوط کے وقت زندہ تھا،پھر مرگیا کیونکہ یہ جنین کی دیت ہے۔یہ جمہور کا مذہب ہے۔غلام یا لونڈی کی قیمت کا اندازہ پانچ اونٹ ہیں،یعنی اس کی ماں کی دیت کا دسواں حصہ۔

اعضاء اوران کے فوائد کی دیت کا حکم

بعض علماء کا قول ہے کہ انسانی جسم کے اعضاء  پینتالیس ہوتے ہیں۔ ان میں بعض اعضاء ایک ایک ہیں اور بعض دودوکئی دو سے زیادہ ہیں۔جسم کا جو عضو صرف ایک ہی ہے،مثلاً ناک،زبان ،آلہ تناسل اگر کوئی جنایت کرکے اسے کاٹ دے تو اس کی دیت اتنی ہی ہے جتنی اس پورے انسان کی دیت ہے اور اس کی مقدار آدمی کی مختلف حیثیتوں کے اعتبار سے مختلف ہے۔حیثیت سے مراد یہ ہے کہ وہ مرد ہو یا عورت آزاد ہو ہو یا غلام ،لونڈی ہو یا ذمی وغیرہ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عضوانسانی بدن میں اکیلا پیداکیا ہے اس کے ضائع ہونے سے اس کا فائدہ بالکل ختم ہوجاتا ہے تو گویا وہ جان جانے کے مترادف ہے،لہذا اس کی دیت بھی جان کی دیت ہے۔اس مسئلے میں علماء کا اتفاق ہے ۔حضرت عمرو بن حزم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی حدیث میں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"وَفِي الأَنْفِ إِذَا أُوعِبَ جَدْعُهُ الدِّيَةُ ، وَفِي اللِّسَانِ الدِّيَةُ ..... وَفِي الذَّكَرِ الدِّيَةُ"

"اور ناک میں مکمل دیت ہے جب اسے جڑ سے کاٹ دیا جائے اور زبان میں پوری دیت ہے۔۔اور آلہ تناسل کے کاٹنے سے مکمل دیت ہے۔"[24]

جسم کے جو اعضاء جوڑا جوڑا ہیں،مثلاً:آنکھیں ،کان،ہونٹ،جبڑے،عورت کے پستان ،مرد کی چھاتی،ہاتھ،ٹانگیں اور خصیتین،اگرایسے اعضاء دونوں ہی کاٹ دیے جائیں تو پورے انسان کی دیت ادا کرنا پڑے گی اور اگر ایک کاٹ دیا جائے تو اس میں آدھی دیت ہوگی کیونکہ اس قسم کے دونوں اعضاء کی موجودگی میں انسان کی منفعت اور حسن وجمال ہے،نیز بدن میں ویسا عضو مزید تو ہے نہیں۔

ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"ہمارے علم کے مطابق اس مسئلے میں کسی نے مخالفت نہیں کی۔"

سیدنا عمرو بن حزم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے مکتوب میں تحریر ہے کہ دیت کے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لکھ کر بھیجے تھے:

"وَفِي الأَنْفِ إِذَا أُوعِبَ جَدْعُهُ الدِّيَةُ ، وَفِي اللِّسَانِ الدِّيَةُ ، وَفِي الشَّفَتَيْنِ الدِّيَةُ ، وَفِي الْبَيْضَتَيْنِ الدِّيَةُ ، وَفِي الذَّكَرِ الدِّيَةُ ، وَفِي الصُّلْبِ الدِّيَةُ ، وَفِي الْعَيْنَيْنِ الدِّيَةُ  وَفِي الرِّجْلِ الْوَاحِدَةِ نِصْفُ الدِّيَةِ"

"جب ناک جڑ سے کاٹ دی جائے تو اس میں مکمل دیت ہے۔زبان میں پوری دیت ہے،دونوں ہونٹوں میں مکمل دیت ہے،خصیتین میں پوری دیت ہے،پشت میں مکمل دیت ہے،دونوں آنکھوں میں پوری دیت ہے اور ایک ٹانگ کے کاٹ دینے میں نصف دیت ہے۔"[25]

علامہ ابن عبدالبر  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں کہ عمرو بن حزم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی کتاب (خط) اہل علم میں معروف ہے اور جو احکام اس میں درج تھے ان میں سے چند کے سوا باقی پر علماء کا اتفاق ہے۔

(1)۔ایک ہی قسم کے جو اعضاء تین ہیں۔ان تینوں کے کاٹ دینے سے پوری دیت دینا ہوگی اور اگر ایک حصہ کاٹ دیا جائے تو اس کی دیت ایک تہائی ہے ،مثلاً:ناک جو دو نتھنوں اور ان کی درمیانی ہڈی پر مشتمل ہے۔

(2)۔انسان کے وجود میں جو اعضاء چار ہیں۔ان چاروں کے کاٹ دینے سے پوری دیت ہے اور اگر کم ہوں تو دیت بھی اسی قدر کم ہوگی،مثلاً:چاروں پلکیں جن کا مقصد ظاہری خوبصورتی بھی ہے اور آنکھوں کو سردی وگرمی سے بچانا بھی ہے،ان میں دیت ہے ۔ایک میں چوتھائی حصہ چاروں میں مکمل دیت ہے۔

(3)۔دونوں ہاتھوں کی مکمل انگلیوں میں مکمل دیت ہے ،اسی طرح پاؤں کی انگلیوں میں مکمل دیت ہے،یعنی جب دس کی دس کاٹ دی جائیں گی تو دیت سواونٹ ہے ایک انگلی میں دس اونٹ دیت ہے ۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"دِيَةِ الْأَصَابِعِ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ سَوَاءٌ عَشْرٌ مِنْ الْإِبِلِ لِكُلِّ أُصْبُعٍ"

"ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کی دیت برابر ہے،ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے۔"[26]

 صحیح بخاری میں یہ لفظ بھی منقول ہیں:

"هَذِهِ وَهَذِهِ سَوَاءٌ يَعْنِي الْخِنْصَرَ وَالْإِبْهَامَ "

"یہ انگلی اور یہ انگلی برابر ہیں،یعنی چھنگلی اور انگوٹھا۔"[27]

ان دونوں حدیثوں سے واضح ہواکہ ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں دیت ہے اور ہر انگلی کی دیت دس اونٹ بنتی ہے۔

(4)۔ہر انگلی میں تین جوڑ ہیں،لہذا ایک جوڑ تک انگلی کاٹ دینے سے انگلی کاتیسرا حصہ دیت ہے انگوٹھے میں دو جوڑ ہوتے ہیں،اس لیے اس کے ایک جوڑ کی دیت ایک انگلی کا نصف،یعنی پانچ اونٹ ہیں۔

(5)۔ہردانت کی دیت پانچ اونٹ ہے کیونکہ حضرت عمرو بن حزم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"وَفِي السِّنِّ خَمْسٌ مِنَ الإِبِلِ"

"ہر دانت میں  پانچ اونٹ دیت ہے۔"[28]

امام ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:" ہر ہر دانت کی دیت پانچ پانچ اونٹ ہے اور ہمیں اس میں کسی کا اختلاف معلوم نہیں۔"[29]

(6)۔منافع سے مراد وہ فوائد ہیں جو اعضائے جسمانی سے حاصل ہوتے ہیں،مثلاً:سننا،دیکھنا،سونگھنا،گفتگو کرنا اور چلنا وغیرہ جو ہر عضو کاایک مخصوص مقصد اورفائدہ ہے۔

(7)۔انھی منافع میں سے حواس اربعہ،مثلاً:سننا،دیکھنا،سونگھنا اور چکھنا ہیں،چنانچہ مذکورہ چاروں حواس میں سے کوئی  ایک حس جنایت کے سبب ختم کردی جائے تو اس میں کامل دیت ہے۔

ابن منذر  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:"عام اہل علم کا ا جماع ہے کہ سماعت(کان) کے ضائع ہوجانے سے دیت ادا کی جائے گی۔"[30]

امام ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ   نے اس پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔[31]سیدنا عمرو بن حزم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے مکتوب میں ہے:

 "وَفِي الْمَشَامِّ الدِّيَةُ "

"سونگھنے کی قوت ضائع کردینے کی صورت میں دیت ہے۔"[32]

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے عہدخلافت میں ایک شخص نے ایک آدمی کو اس  قدر مارا پیٹا کہ اس کے سننے،دیکھنے اور جماع کرنے کی تینوں قوتیں،نیز عقل جاتی رہی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے اس کی چار دیتوں کی ادائیگی کا فیصلہ صادر فرمایا،حالانکہ وہ مضروب شخص زندہ رہا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی نے اس فیصلے کی مخالفت نہ کی۔

(8)۔کسی کے بولنے ،سمجھنے،چلنے،کھانے یا نکاح(جماع) کرنے اور بول وبراز کو کنٹرول کرنے کی قوت ختم کردی گئی تو اس میں ہر ایک کی مکمل دیت ہے کیونکہ ہر ایک کا بہت اہم اور بڑا فائدہ ہے،نیز بدن میں  مذکورہ قوتوں میں سے ہر ایک قوت ایک ہی ہوتی ہےدو نہیں۔

(9)۔جسم میں بال اگنے کے چار مقامات میں سے اگر کسی ایک مقام کو اس قدر متاثر کیا گیا کہ اس میں بال اگنے کی استعداد نہ رہی تو اس میں بھی مکمل دیت  ہے،یعنی سر کے بال،ڈاڑھی کے بال،ابرو کے بال اور پلکوں کے بال۔اگر ایک ابرو ہوتو اس میں نصف دیت ہے ۔ایک پلک میں چوتھائی حصہ دیت ہے کیونکہ پلکیں چار ہیں۔

ان احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ڈاڑھی کا کس قدر احترام اور قیمت ہے کہ اس کے تلف کرنے میں مکمل دیت مقرر کی ہے کیونکہ اس کا بہت فائدہ ہے اور اس میں مرد کےلیے حسن اوروقار ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے بڑھانے اور اس کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔اسے مونڈنے،کاٹنے اور اس پر زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے۔

ستیاناس ہو ان لوگوں کا جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرکے اور کافروں اور منافقوں کی نقالی کرتے ہوئے ڈاڑھی سے برسر پیکار ہیں،وہ مردانہ شان کو چھوڑ کر زنانہ نزاکت اختیار کرتے ہیں۔شاعر نےسچ کہا ہے:

يُقْضَى عَلَى المَرْءِ فِي أَيَّامِ مِحْنَتِهِ
حَتَّى يَرَى حَسَناً مَا لَيْسَ بِالحَسَنِ

"آدمی پر مصیبت کے ایام میں ایسی کیفیت بھی آجاتی ہے کہ وہ بُری چیز کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔"

علامہ اقبال کا شعر ہے:

جو ناخوب تھا بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتاہے قوموں کا ضمیر

لہذا ایسے لوگوں کو چاہیے کہ عقل سے کام لیں،دانش مندی کی روش اختیار کریں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی فرماں برداری کرتے ہوئے  پوری ڈاڑھی رکھیں جسے اللہ تعالیٰ نے اس کی مردانگی کی علامت اور حسن وجمال کا مظہر بنایا ہے۔


[1]۔النساء:4/92۔

[2]۔صحیح البخاری اللقطۃ باب کیف تعرف لقطۃ اھل مکۃ؟حدیث 2434،وصحیح مسلم،الحج،باب تحریم مکۃ وتحریم صیدھا۔۔۔حدیث 1355،واللفظ لہ۔

[3]۔النساء:4/92۔

[4]۔المغنی والشرح الکبیر:9/482۔

[5]۔الانعام 6/164۔

[6]۔صحیح البخاری الدیات باب جنین المراۃ وان العقل علی الولد حدیث 6910۔وصحیح مسلم القسامہ باب دیۃ الجنین حدیث1681۔

[7]۔صحیح البخاری الدیات باب جنین المراۃ حدیث 6905۔

[8]۔المصنف لعبدالرزاق باب من افزعہ السلطان 9/458 حدیث 18010۔

[9]۔(ضعیف) سنن ابی داود الدیات باب الدیۃ کم ھی؟حدیث:4543،4544۔

[10]۔(ضعیف) سنن ابی داود الدیات باب الدیۃ کم ھی؟حدیث 4546۔

[11]۔(ضعیف) سنن ابی داود الدیات باب الدیۃ کم ھی؟حدیث 4542،وسنن نسائی  القسامۃ والدیات باب ذکر حدیث عمرو بن حزم فی العقول۔۔۔حدیث 4857 واللفظ لہ۔

[12]۔السنن الکبریٰ للبیہقی 8/100۔

[13]۔سنن النسائی القسامۃ باب کم دیۃ شبہ العمد۔۔۔؟وذکر الاختلاف علی خالد الحذاء حدیث :4803۔

[14]۔سنن ابی داود الدیات باب الدیۃ کم ھی؟حدیث:4542۔

[15]۔(ضعیف) سنن ابی داود الدیات باب فی دیۃ الخطا شبہ العمد حدیث 4552۔

[16]۔سنن ابی داودالدیات باب الدیۃ کم ھی؟حدیث 4542،وسنن النسائی حدیث 4810،4811۔وسنن ابن ماجہ،حدیث 2644 واللفظ لہ ومسند احمد 2/183،224۔

[17]۔(ضعیف) الکامل لابن عدی 5/347۔فی ترجمۃ عبداللہ بن صالح والسنن الکبریٰ للبیہقی 8/101۔

[18]۔المغنی والشرح الکبیر 9/532۔

[19]۔المغنی والشرح الکبیر 9/533۔

[20]۔اعلام الموقعین 2/148۔

[21]۔(ضعیف)سنن النسائی القسامۃ عقل المراۃ حدیث 4809۔

[22]۔اعلام الموقعین 2/148،149۔

[23]۔صحیح البخاری الدیات باب جنین المراۃ وان العقل علی الوالد۔۔۔حدیث 6909و صحیح مسلم القسامۃ باب دیۃ الجنین۔۔۔حدیث (35)۔1681 واللفظ لہ۔

[24]۔(ضعیف) سنن النسائی القسامہ ذکر حدیث  عمرو بن حزم فی العقول۔۔۔حدیث 4857۔

[25]۔(ضعیف) سنن النسائی القسامۃ ذکر حدیث عمرو بن حزم فی العقول۔حدیث 4857۔

[26]۔جامع الترمذی الدیات باب ماجاء فی دیۃ الاصابع،حدیث 1391۔

[27]۔صحیح البخاری الدیات باب دیۃ الاصابع حدیث 6895۔

[28]۔(ضعیف) سنن النسائی القسامۃ ذکر حدیث عمرو بن حزم فی العقول۔۔۔حدیث 4857۔

[29]۔المغنی والشرح الکبیر 9/612۔

[30]۔المغنی والشرح الکبیر 2/596۔

[31]۔المغنی والشرح الکبیر 2/596۔

[32]۔ المغنی والشرح الکبیر 9/600۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

قصاص اور جرائم کا بیان:جلد 02: صفحہ392

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ