سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) نماز کے مستحبات اور مباحات

  • 23698
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 971

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کے مستحبات اور مباحات


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)۔نماز کے دوران میں آگے قریب سے گزرنے والے شخص کو روک دینا مسنون ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي فَلَا يَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلْيَدْرَأْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ"

"جب کوئی شخص نماز ادا کرہاہوتو وہ کسی کو اپنے آگے سےگزرنے نہ دے،اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ اس کے ساتھ اس کا ساتھی(شیطان) ہے۔"[1]

جب نمازی کے آگے سترہ ہو تو تب سترے کے پیچھے سے گزر جانے میں کوئی حرج نہیں۔اگر نمازی کے آگے جگہ تنگ ہو اور آگے گزرنے کی شدید ضرورت ہوتو تب نماز ادا کرنے والا اسے پیچھے نہ ہٹائے کیونکہ اس  صورت میں آگے گزرنے  والا مجبور ہے۔اسی طرح اگرکوئی شخص حرم میں نماز پڑھ رہا ہوتو وہ بھی آگے سے گزرنے والے شخص کو نہ روکے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ مکرمہ میں نماز ادا کرتے تھے تو لوگ آگے سے گزرجاتے تھے حالانکہ آپ کے آگے سترہ نہ ہوتاتھا۔[2]

جب نماز ادا کرنے والا اکیلا ہویاامام ہوتو سب سترے کا استعمال مسنون ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ ، فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ وَلْيَدْنُ مِنْهَا"

"جب کوئی شخص نماز ادا کرے تو وہ سترہ سامنے رکھے اور اس کے قریب ہو۔"[3]

واضح رہے مقتدی کے لیے اس کے امام کا سترہ ہی کافی ہے۔

سترے کا استعمال واجب نہیں ہے کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في فضاء وليس بين يديه شيء"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک کھلے میدان میں نماز پڑھائی اور آپ کے آگے کوئی شے(بطور سترہ) نہ تھی۔"[4]

سترہ باریک ہو یا موٹا یا چوڑا،اسےکھڑا کرکے رکھنا چاہیے،سترہ کجاوے کی پچھلی لکڑی کی طرح(ڈیڑھ فٹ کے قریب) ہونا چاہیے۔سترہ کے استعمال میں یہ حکمت ہے کہ وہ نمازی کےآگے سے گزرنے والے کو روک دے گا اور سترہ کے پیچھے جو کچھ ہوگا نمازی اس میں(نظر وفکر کرکے) مشغول نہ ہوگا۔اوراگر کوئی شخص صحراء میں نماز اداکرنا چاہے تو وہ کسی ایسی چیز کوسترہ بنالے جو گزرنے والے کو بآسانی نظر آجائے،مثلاً:درخت،پتھر اور لاٹھی وغیرہ۔اگر زمین میں لاٹھی کوگاڑنا ممکن نہ ہوتو اسے چوڑائی کی صورت ہی میں اپنے سامنے رکھ لے۔

(2)۔اگر امام قراءت کرنے وقت کلمات میں کمی بیشی کرجائے تو مقتدی لقمہ دے کر اس کی اصلاح کردے۔

(3)۔نماز کے دوران کپڑا اوڑھنا،اتارنا،کسی چیز کو اٹھانا،رکھنا،دروازہ کھولنا وغیرہ مباح کام ہیں۔نماز میں سانپ اور بچھو مارنا درست ہے کیونکہ:

"أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ .....الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ )"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز کی حالت میں دوسیاہ موذی جانوروں سانپ اور بچھو کومارنے کا حکم دیا ہے۔"[5]

کسی مباح کام کوبکثرت سے نہیں کرنا چاہیے الا یہ کہ اس کی شدید ضرورت ہو۔اگر کسی نے کوئی مباح کام بلا ضرورت،کثرت سے اور لگاتارکیاتو اس کی نماز باطل ہوجائےگی کیونکہ یہ چیز نماز کے منافی ہے اور خشوع وخضوع کو ختم کردینے والی ہے۔

(4)۔جب نمازی کو نماز کے دوران کوئی اہم معاملہ پیش آجائے،مثلاً:کوئی شخص اندر آنے کی اجازت طلب کرے یا امام بھول جائے یا کسی انسان کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہوتو وہ اسے متنبہ کرسکتا ہے،جس کا طریقہ یہ ہے کہ مرد تسبیح(سبحان اللہ) کہے اور عورت(ایک ہاتھ کی پشت دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارکر) تالی بجادے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد ہے:

‏"‏يا أيها الناس ما لكم حين نابكم شىء في الصلاة أخذتم بالتصفيح إنما التصفيح للنساء، من نابه شىء في صلاته فليقل سبحان الله‏"‏‏.

"اے لوگو!تمھیں کیا ہوگیا ہے جب تمھیں نماز میں کوئی شے درپیش ہوتی ہے تو تم تالیاں بجاناشروع کردیتے ہو؟تالی عورتوں کے لیے ہے۔جس کو نماز میں کوئی شے پیش آجائے تو وہ سبحان اللہ کہے۔"[6]

(5)۔جب کوئی شخص حالت نماز میں  سلام کا جواب دینے کا طریقہ جانتا ہو تو اسے سلام کہنا درست ہے۔تب نمازی کو چاہیے کہ دوران نمازاشارے کے ساتھ سلام کاجواب دے،البتہ زبان کے ساتھ وعلیکم السلام نہ کہے،ورنہ اس کی نماز باطل ہوجائےگی کیونکہ وہ نمازمیں آدمی سے مخاطب ہوا ہے۔اسے چاہیے کہ وہ سلام پھیرنے کے بعد زبان سے جواب دے۔

(6)۔نمازی حالت قیام میں ایک رکعت میں متعدد سورتیں پڑھ سکتا ہے،چنانچہ حدیث میں ہے:

"أن النبي صلى الله عليه وسلم قرأ البقرة والنساء وآل عمران، والنساء في ركعة"

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک رکعت میں سورہ بقرہ،سورہ آل عمران اور سورہ نساء کی قراءت فرمائی۔"[7]

اسی طرح نمازی دو رکعتوں یں ایک ہی سورت تکرار سے پڑھ سکتا ہے۔یاایک سورت کو تقسیم کرکے دو رکعتوں میں قراءت کرسکتا ہے۔علاوہ ازیں  کسی سورت کے آخری حصہ کو پڑھنا یا درمیان سے پڑھنا جائزہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  (کبھی کبھار) فجر کی سنتوں کی پہلی رکعت میں:

﴿قولوا ءامَنّا بِاللَّهِ وَما أُنزِلَ إِلَينا وَما أُنزِلَ إِلىٰ إِبر‌ٰهـۧمَ وَإِسمـٰعيلَ وَإِسحـٰقَ وَيَعقوبَ وَالأَسباطِ وَما أوتِىَ موسىٰ وَعيسىٰ وَما أوتِىَ النَّبِيّونَ مِن رَبِّهِم لا نُفَرِّقُ بَينَ أَحَدٍ مِنهُم وَنَحنُ لَهُ مُسلِمونَ ﴿١٣٦﴾... سورة البقرة

"اے مسلمانو! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز ابراہیم اسماعیل اسحاق یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور دوسرے انبیا (علیہم السلام) دیئے گئے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں"[8]

پڑھتے جب کہ دوسری رکعت میں سورہ آل عمران کی آیت:

﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ تَعالَوا إِلىٰ كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وَبَينَكُم أَلّا نَعبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلا نُشرِكَ بِهِ شَيـًٔا وَلا يَتَّخِذَ بَعضُنا بَعضًا أَربابًا مِن دونِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوا فَقولُوا اشهَدوا بِأَنّا مُسلِمونَ ﴿٦٤﴾... سورة آل عمران[9]

پڑھتے تھے۔"[10]

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد:

"فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ ۚ "

"سو تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو۔"[11]

میں عموم ہے ،یعنی قرآن مجید کےکسی بھی مقام سے نمازمیں قراءت ہوسکتی ہے۔

(7)۔دوران قراءت  اگر ایسی آیت کی تلاوت ہوجس میں عذاب کا ذکر ہو تو نماز اداکرنے والا اللہ کی  پناہ طلب کرے اور اگررحمت کے ذکر پرمشتمل آیت آئے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرے۔اگر قراءت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا نام آئے تو درودشریف( صلی اللہ علیہ وسلم ) پڑھے کیونکہ اس کی بہت تاکید آئی ہے۔

یہ چند امور ہیں جو حالت نماز کےلیے مستحب اور مباح ہیں۔ہم نے ان کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ آپ بوقت ضرورت ان سے مستفید ہوسکیں۔نیز آپ کو ان مسائل سے واقفیت اور بصیرت حاصل ہو۔

نماز ایک عظیم عبادت ہے اس میں وہی کام اور بات درست ہے جو ان شرعی حدود کے اندر ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے وارد ہیں،لہذا آپ ان حدود کا خیال رکھیں اور جن اُمور سے نماز مکمل ہوتی ہو یا اس میں نقص آتا ہو ان سے واقفیت حاصل کریں تاکہ آپ اپنی نماز کامل طور پر ادا کرسکیں۔


[1]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب منع الماربین یدی المصلی حدیث 506۔

[2]۔(ضعیف) سنن ابی داود المناسک باب فی مکۃ حدیث 2016 وسنن النسائی القبلۃ باب الرخصۃ فی ذلک حدیث 759 وسنن ابی ماجہ المناسک باب الرکعتین بعد الطواف حدیث 2958 ومسند احمد 6/399 لہذا حرم میں بھی نمازی کے آگے سے گزرنے سے اجتناب کرنا چاہیے الا یہ کہ شدید مجبوری ہو۔

[3]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب ما یؤمر المصلی ان یدرا۔حدیث 698۔

[4]۔مسند احمد 1/224۔327 اوپر والی روایت میں سترہ کے استعمال کے بارے میں امر کا صیغہ"فَلْيُصَلِّ إِلَى سُتْرَةٍ"آیا ہے جو وجوب کا متقاضی ہے۔لہذا سترہ رکھنا واجب ہے۔مصنف نے آگے چل کر صحراءکے بارے میں جو لکھا ہے وہ عبارت بھی سترہ کے وجوب کی تائید میں ہے۔باقی رہی ابن عباس والی روایت تو اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے آپ کے پاس کوئی شے نہ ہو جسے سترہ بنالیتے۔(صارم)

[5]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب العمل فی الصلاۃ حدیث 921 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی قتل الاسود فی الصلاۃ حدیث 390 واللفظ لہ۔

[6]۔صحیح البخاری العمل فی الصلاۃ باب رفع الایدی فی الصلاۃ لامرینزل بہ حدیث 1218 وصحیح مسلم الصلاۃ باب  تسبیح الرجل وتصفیق المراۃ۔۔۔حدیث 422۔

[7]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب تطویل القراءۃ فی صلاۃ اللیل حدیث 772 وسنن النسائی الافتتاح باب مسالۃ القاری اذا مر بآیۃ رحمۃ حدیث 1010 واللفظ لہ۔

[8]۔البقرہ۔136۔

[9]۔آل عمران/64۔

[10]۔ صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب رکعتی سنۃالفجر۔حدیث 727۔

[11]۔المزمل 73/20۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 127

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ