سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(286) کبائر کی تقسیم کے اصول و مبادی

  • 23655
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1173

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی گناہ کے بارے میں کیسے پتہ چلتا ہے کہ وہ کبیرہ ہے؟ کیا یہ پہچان ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کبائر سے چونکہ بچنا ضروری ہے اس لیے ان کی معرفت حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔ اس سلسلے میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

كان الناس يسئلون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت أساله عن الشر مخافة ان يدركنى(بخاري، الفتن، الامر اذا لم تکن جماعة، ح: 7084)

’’لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے جبکہ میں شر کے بارے میں آپ سے پوچھتا تاکہ کہیں اس کا مرتکب نہ ہو جاؤں۔‘‘

بقول شاعر

عرفت الشر لا لشر لكن لتوقيه

ومن لم يعرف الخير من الشر يقع فيه

’’میں نے شر کو بری نیت سے نہیں پہچانا بلکہ اس سے بچنے کے لیے پہچانا ہے، جو خیروشر کا فرق نہیں کر سکتا وہ شر کا مرتکب ہو جاتا ہے۔‘‘

(مختصر کتاب الکبائر از امام ذھبی، ص:7 (مقدمہ) ط:4، المکتب التعاونی، ریاض)

کبیرہ گناہوں کی درج ذیل تعریفات بیان کی گئی ہیں:

1۔ کبیرہ گناہ وہ ہے جس کی معرفت نص قرآنی سے ثابت ہو اور جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منع کر دیں وہ صغیرہ ہے۔

2۔ جن چیزوں کی حرمت پر تمام آسمانی شریعتوں کا اتفاق ہو وہ کبیرہ ہیں اور جو گناہ کسی شریعت میں حرام اور کسی میں حرام نہ ہوں وہ صغیرہ ہیں۔ (معاشرہ کی مہلک بیماریاں، ص: 33)

3۔ جن کے ارتکاب سے معرفت الہٰی کا دروازہ بند ہو جائے۔

4۔ جن کے ارتکاب سے مال و جان کا تحفظ ختم ہو جائے۔

5۔ کبائر صغائر کے لحاظ سے ہیں۔

6۔ ہمیں ان کا علم نہیں وہ لیلۃ القدر کی طرح مخفی ہیں۔

7۔ جس کے ارتکاب پر حد کا نفاذ ہوتا ہے یا دوزخ کی وعید آئی ہے یا اسے لعنت یا غضب الہٰی کا سبب قرار دیا ہے۔

(شرح عقیدہ طحاویہ از علامہ ابن عبدالعز الحنفی (ترجمہ: مولانا محمد صادق خلیل رحمۃ اللہ علیہ)، ص: 471، ضیاء السنۃ، فیصل آباد)

8۔ اگر غلطی غیر معمولی ہو مثلا کسی کی حق تلفی (حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد)، اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی یا ان تعلقات کو توڑنے یا خراب کرنے کی شکل میں ہوں جن پر انسانی زندگی کا امن اور قرار منحصر ہے تو یہ کبیرہ گناہ ہیں۔ (کبیرہ گناہوں کی حقیقت، ص: 13)

9۔ کبیرہ گناہ وہ ہے کہ جس گناہ پر وعید آئی ہے جیسے قتلِ ناحق، زنا اور چوری کرنا وغیرہ۔ (مواھب الرحمٰن 2/19)

ان تعریفات پر تبصرہ اور صحیح تعریف (Definition)

ان تعریفات میں سے بعض تو کلیۃ غلط ہیں اور بعض جزوی طور پر غیر صحیح ہیں۔ پہلی تعریف اس لیے غلط ہے کہ بہت سی احادیث میں بعض گناہوں کو کبائر کہا گیا ہے اور ان پر کوئی اختلاف نہیں۔ دیگر تعریفات پر تبصرہ کرتے ہوئے شارح عقیدہ طحاویہ لکھتے ہیں:

یہ قول (کہ جس کی حرمت پر تمام شرائع کا اتفاق ہے) اس کا تقاضا یہ ہے کہ شراب نوشی، میدانِ جہاد سے بھاگنا، بعض محرمات سے نکاح کرنا ان سب کو کبائر کی فہرست سے خارج کر دیا جائے اور یتیم کے مال سے ایک دانہ چوری کرنا، ہلکا سا جھوٹ بولنا وغیرہ کبائر کی فہرست میں داخل ہو جائیں حالانکہ یہ درست نہیں اور جس شخص نے کبائر کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس سے معرفت باللہ کا دروازہ بند ہو جائے یا مال اور جان ضائع ہو جائے اس کی بات کا مطلب یہ ہو گا کہ شراب نوشی، خنزیر، مردار اور خون کھانا اور پاکدامن عورتوں کو مہتم کرنا کبائر میں شمار نہ ہوں۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے اور جس شخص نے کہا کہ انہیں اضافی لحاظ سے کبائر کہا ہے یا جس کام سے اللہ نے روکا ہے وہ کبیرہ ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کو صحائر، کبائر میں تقسیم نہ کیا جائے حالانکہ یہ غلط ہے، اس لئے کہ یہ بات ان نصوص کے خلاف ہے جو گناہوں کو صغائر، کبائر دو قسموں میں تقسیم کرتی ہیں اور یہ قول کہ کبائر کا علم ہی نہیں ہے یا کبائر مبہم ہیں، یہ درست نہیں، وہ اپنے عدم علم کی بنا پر حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے۔ (شرح عقیدہ طحاویہ، ص: 472)

حد، جہنم کی وعید اور لعنت و غضب الہٰی کا تذکرہ جس تعریف میں کیا گیا ہے اس کے بارے میں موصوف لکھتے ہیں:

یہ قول مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آگے چل کر اس تعریف کی وجوہِ ترجیح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یہ ایسا قاعدہ ہے جو اُن تمام اعتراضات سے بالکل محفوظ ہے جو اُس کے غیر پر ہو رہے ہیں۔ اس قاعدہ میں ہر وہ گناہ داخل ہے جس کا کبیرہ ہونا نص کے ساتھ ثابت ہے جیسے شرک، قتل، زنا، جادو، پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں کو مہتم کرنا، اس طرح اور گناہ بھی ہیں جیسے میدانِ جنگ سے بھاگنا، یتیم کے مال کو کھانا، سود کھانا، والدین کی نافرمانی کرنا، جھوٹی قسم اٹھانا، جھوٹی گواہی دینا وغیرہ۔ اس قول کے راجح ہونے کے کچھ اسباب ہیں، ایک سبب تو یہ ہے کہ یہ سلف صالحین، ابن عباس، ابن عیینہ، ابن حنبل وغیرھم سے منقول ہے، دوسرا سبب ارشاد خداوندی ہے:

﴿إِن تَجتَنِبوا كَبائِرَ ما تُنهَونَ عَنهُ نُكَفِّر عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَنُدخِلكُم مُدخَلًا كَريمًا ﴿٣١﴾... سورة النساء

’’تم بڑے بڑے گناہوں سے، جن سے تمہیں منع کیا جاتا ہے، اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے۔‘‘

اس کریمہ وعدہ کا وہ انسان حقدار نہیں جسے اللہ کے غضب اور لعنت کی دھمکی دی گئی ہے، اسی طرح جو شخص اس قابل ہے کہ اس پر حدِ شرعی قائم کی جائے۔ صرف کبائر گناہوں سے احتراز کرنا اس کی برائیوں کا کفارہ نہ ہو گا۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ اس قاعدے کا تعلق ان گناہوں کے ساتھ ہے جن کا ذکر کتاب اللہ اور سنت میں ہے ان گناہوں پر حد کا نفاذ شارع سے معلوم ہو رہا ہے۔ چوتھا سبب بیان کردہ قاعدہ سے کبائر اور صغائر میں فرق ممکن ہے دیگر اقوال سے فرق ممکن نہیں۔ (ایضا، ص: 471-472)

علامہ ابن عبدالعز حنفی کے علاوہ بھی بہت سے علماء اور مفسرین نے اسی قاعدہ کو ترجیح دی ہے اور اسی کی تحسین کی ہے۔ نیز اس پر کچھ اضافے بھی کیے ہیں۔ عبدالرحمٰن صالح محمود لکھتے ہیں:

ہر وہ معصیت کبیرہ گناہ ہے جس پر دنیا میں حد اور عذابِ آخرت کی وعید ہو۔ شیخ الاسلام (امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ) نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے:

یا جس پر ایمان کی نفی کی گئی ہو یا جس کے ارتکاب پر لعنت کی گئی ہو یا اس طرح کے گناہ۔ ابن نحاس دمشقی نے اس پر یہ اضافہ کیا:

جس پر عذابِ جہنم کی وعید ہو یا جس کے مرتکب کو قرآن و حدیث میں فاسق کہا گیا ہو۔

(المحرمات والمنھیات، ص: 63، المکتب التعاوني للدعوة والارشاد، حی المنار، ریاض)

جس گناہ کی بابت یہ ذکر ہو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں یا اس سے کلام نہ کرے گا یا اس پر غصے ہو گا وہ بھی کبیرہ گناہ ہے۔ (تیسیر القرآن 374/1)

امام نووی نے جس تعریف کو ترجیح دی ہے وہ یہ ہے:

ہر وہ معصیت کبیرہ گناہ ہے جس پر حد لاگو ہوتی ہو یا جس پر جہنم کی وعید یا لعنت و غضب ہو۔ یہ تعریف ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔

(شرح مسلم للنووی 85/2 المطبةالمصریة)

شیخ احمد بن حجر لکھتے ہیں:

زیادہ جامع اور مستحسن تعریف یہ ہے کہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر کوئی حد، سخت وعید، اللہ کی لعنت یا اس کے غضب کا اظہار ہو۔ (معاشرہ کی مہلک بیماریاں، ص: 33)

شیخ عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی اپنی تفسیر میں (إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ) کے بارے میں لکھتے ہیں: کبائر سے اجتناب میں فرائض کی ادائیگی بھی شامل ہے کیونکہ ان فرائض جیسے نمازِ پنگجابہ، نمازِ جمعہ اور صیامِ رمضان کا تارک کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ آگے لکھتے ہیں: کبیرہ گناہوں کی تعریفات یا اس کے مرتکب سے ایمان کی نفی کی گئی ہو یا اس پر لعنت مترتب ہوتی ہو یا غضب۔

(تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان 27/2، ط: 1398، موسسة مکة، مکه مکرمه)

حد اور وعید والی تعریف کے بارے میں سید امیر علی لکھتے ہیں:

یہ تفسیر کبیرہ کی پسندیدہ تعریف ہے۔ (مواھب الرحمٰن 20/2)

مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:

کبیرہ گناہ کی تعریف قرآن و حدیث اور اقوال سلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے وہ سب گناہ کبیرہ ہیں، اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیرہ میں داخل ہو گا جس کے مفاسد اور نتائجِ بد کسی کبیرہ گناہ کے برابر یا اس سے زائد ہوں، اسی طرح جو گناہ جراءت اور بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ (معارف القرآن 385/2)

ایسی ہی تعریف کو سید مودودی نے ترجیح دی ہے، لکھتے ہیں:

اس معاملہ میں جس بات پر ہمارا اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ ’’ہر وہ فعل گناہ کبیرہ ہے جسے کتاب و سنت کی کسی نص نے حرام قرار دیا ہو یا اس کےلیے اللہ اور اس کے رسول نے دنیا میں کوئی سزا مقرر کی ہو یا اس پر آخرت میں عذاب کی وعید سنائی ہو یا اس کے مرتکب پر لعنت کی ہو یا اس کے مرتکبین پر نزول عذاب کی خبر دی ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن 213/5)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

گناہانِ کبیرہ،صفحہ:592

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ