سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(247) عورت طلاق دینے کا حق رکھتی ہے؟

  • 23617
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1503

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مغربی معاشرے میں عورتیں اپنے خاوندوں کو طلاق دے دیتی ہیں۔ کیا عورت اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید میں جہاں جہاں طلاق کا تذکرہ ہوا ہے وہاں طلاق دینے کی نسبت مرد یعنی شوہر کی طرف کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ...﴿٢٣١﴾... سورة البقرة... الطلاق 65/1)

﴿إِن طَلَّقتُمُ النِّساءَ...﴿٢٣٦﴾... سورة البقرة

﴿طَلَّقتُموهُنَّ...﴿٢٣٧﴾... سورة البقرة.... الاحزاب 33/49)

﴿فَإِن طَلَّقَها...﴿٢٣٠﴾... سورة البقرة

﴿طَلَّقَكُنَّ...﴿٥﴾... سورة التحريم

﴿وَإِن عَزَمُوا الطَّلـٰقَ...﴿٢٢٧﴾... سورة البقرة

قرآن کریم میں ﴿الْمُطَلَّقَاتُ﴾(طلاق یافتہ عورتیں)  کا لفظ تو آیا ہے مگر المطلقون (طلاق یافتہ مرد) یا اس معنی کا کوئی بھی لفظ استعمال نہیں ہوا۔ فرمان الہٰی ہے:

﴿وَالمُطَلَّقـٰتُ يَتَرَبَّصنَ بِأَنفُسِهِنَّ... ﴿٢٢٨﴾... سورةالبقرة

’’طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو روک کر رکھیں ۔۔‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلِلمُطَلَّقـٰتِ مَتـٰعٌ بِالمَعروفِ حَقًّا عَلَى المُتَّقينَ ﴿٢٤١﴾... سورة البقرة

’’طلاق شدہ عورتوں کو اچھی طرح فائدہ دینا پرہیزگاروں پر لازم ہے۔‘‘

قرآن اور احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کی گرہ خاوند کے ہاتھ میں ہے۔ بیواؤں کی عدت کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلا جُناحَ عَلَيكُم فيما عَرَّضتُم بِهِ مِن خِطبَةِ النِّساءِ أَو أَكنَنتُم فى أَنفُسِكُم عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُم سَتَذكُرونَهُنَّ وَلـٰكِن لا تُواعِدوهُنَّ سِرًّا إِلّا أَن تَقولوا قَولًا مَعروفًا وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فى أَنفُسِكُم فَاحذَروهُ وَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ غَفورٌ حَليمٌ ﴿٢٣٥﴾... سورة البقرة

’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم اشارتا کنایتا ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو یا اپنے دل میں پوشیدہ ارادہ کرو، اللہ کو علم ہے کہ تم ضرور انہیں یاد کرو گے لیکن تم ان سے پوشیدہ وعدے نہ کر لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ تم بھلی بات کہو، جب تک عدت ختم نہ ہو جائے عقدہ نکاح پختہ نہ کر لای کرو۔‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَإِن طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ وَقَد فَرَضتُم لَهُنَّ فَريضَةً فَنِصفُ ما فَرَضتُم إِلّا أَن يَعفونَ أَو يَعفُوَا۟ الَّذى بِيَدِهِ عُقدَةُ النِّكاحِ وَأَن تَعفوا أَقرَبُ لِلتَّقوىٰ وَلا تَنسَوُا الفَضلَ بَينَكُم إِنَّ اللَّهَ بِما تَعمَلونَ بَصيرٌ ﴿٢٣٧﴾... سورة البقرة

’’اور اگر تم عورتوں کو اِس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا ہو تو مقررہ مہر کا آدھا دے دو، یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔ تمہارا معاف کر دینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کے فضل و احسان کو فراموش نہ کرو، یقینا اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘

﴿بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ﴾ کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

ایک حدیث میں ہے:

(ولى عقدة النكاح الزوج)(دارقطنی 279/3، ح: 3676، سند میں ابن لہیعہ ضعیف راوی ہے۔)

’’نکاح کی گرہ کا مالک خاوند ہے۔‘‘

علی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ اس سے مراد کیا عورت کے اولیاء ہیں؟ فرمایا:

(لابل هو زوج) (ایضا، 3671)

’’نہیں بلکہ اس سے مراد خاوند ہے۔‘‘

اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے، امام شافعی کا جدید قول بھی یہی ہے، امام ابوحنیفہ اور دیگر کا بھی یہی مذہب ہے اس لیے کہ حقیقتا نکاح کو باقی رکھنا توڑ دینا وغیرہ یہ سب خاوند کے ہی اختیار میں ہے اور جس طرح ولی کو اُس کی طرف سے جس کا وہ ولی ہے اس کے مال کا دے دینا جائز نہیں، اسی طرح اس کا مہر معاف کر دینے کا بھی اختیار نہیں۔ (ابن کثیر)

﴿بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ﴾ سے بعض مفسرین نے عورت کے سرپرست بھی مراد لیے ہیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: دوسرا قول اس بارے میں یہ ہے کہ اس سے مراد عورت کے باپ بھائی اور وہ لوگ ہیں جن کی اجازت کے بغیر عورت نکاح نہیں کر سکتی، ابن عباس رضی اللہ عنہ، علقمہ، حسن، عطاء، طاؤس، زہری، ربیعہ، زید بن اسلم، ابراہیم نخعی، عکرمہ، محمد بن سیرین سے بھی یہی مروی ہے کہ ان دونوں بزرگوں کا بھی ایک قول یہی ہے، امام مالک کا اور امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ولی نے ہی اس حق کا ھقدار اسے کیا تھا تو اس میں تصرف کرنے کا بھی اسے اختیار ہے گو اور مال میں ہیر پھیر کرنے کا اختیار نہ ہو، عکرمہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے معاف کر دینے کی رخصت عورت کو دی اور اگر وہ بخیلی اور تنگ دلی کرے تو اس کا ولی بھی معاف کر سکتا ہے گو وہ عورت سمجھدار، شریح بھی یہی فرماتے ہیں لیکن جب شعبی نے انکار کیا تو آپ نے اس سے رجوع کر لیا اور فرمانے لگے کہ اس سے مراد خاوند ہی ہے بلکہ وہ اس بات پر مباہلہ کرنے کو تیار رہتے تھے۔ (ایضا)

اگر دوسرا قول بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی طلاق دینے کا حق عورت کو منتقل نہیں ہوتاا۔ پھر یہ دوسرا قول مرجوح ہے، قابل ترجیح وہی قول ہے جس میں ﴿بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ﴾ سے مراد شوہر لیا گیا ہے۔ کیونکہ مذکورہ بالا آیت میں حق مہر معاف کرنے کی بات کی گئی ہے اور مہر عورت کا حق اور اس کا مال ہے، اسے معاف کرنے کا حق عورت کے ولی (سرپرست) کو نہیں ہوتا، اسی کو امام شوکانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ (دیکھیے فتح القدیر)

﴿يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ﴾کے بارے میں مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد خاوند ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ...﴿٢٣٥﴾... سورة البقرة

’’جب تک عدت ختم نہ ہو نکاح کی گرہ کو پختہ نہ کرو۔‘‘ (تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن)

یہاں مخاطب نکاح کرنے والے ہیں۔ لہذا طلاق دینے کا حق صرف اور صرف خاوند کو حاصل ہے بیوی اپنے شوہر کو یا خود اپنے آپ کو طلاق نہیں دے سکتی، البتہ عورت خلع کا حق رکھتی ہے جس کی وجہ سے مرد طلاق دے دیتا ہے یا عدالت نکاح فسخ کر دیتی ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

طلاق کے احکام و مسائل،صفحہ:538

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ