سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(240) شادی کے دوسرے دن کا لازمی سفر؟

  • 23610
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 628

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل یہ رواج بن گیا ہے کہ لڑکی کی شادی کے دوسرے دن لڑکی کے والدین آ جاتے ہیں اور لڑکی کو اُس کے سسرال سے میکے لے جاتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا سنت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک مسلمان کے لیے زندگی گزارنے کا نمونہ اور اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ کی سیرت ہمارے لیے ہر مسئلے میں راہنمائی کا کام دیتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی شادیاں بھی کیں اور اپنی بیٹیوں کی بھی۔ یہ جو مکلاوے کا رواج ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے، قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں، لڑکی اور لڑکا شادی کے بعد اپنی مرضی سے جب چاہیں اپنے سسرال یا عزیز و اقارب کو ملنے جائیں، دنوں کی کوئی قید اور پابندی شرع میں وارد نہیں۔ اس پابندی کو توڑنا چاہئے، شادی بیان کی بہت سی رسوم ایسی ہیں جن کا سلف صالحین کے ہاں کوئی تصور نہ تھا، بارات، جہیز، مکلاوہ، سہرے وغیرہ سب ہندوانہ رواج ہیں، جو برصغیر پاک و ہند میں مسلم ہندو اختلاط کی وجہ سے پھیل چکے ہیں۔ ہمیں ہر قسم کی بدعات و خرافات سے اپنے ماحول کو پاک و صاف کرنا چاہئے۔ (از ابوالحسن مبشر احمد ربانی)

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"من السنة اذا تزوج الرجل البكر على الثيب اقام عندها سبعا و قسم واذا تزوج الثيب على البكر اقام عندها ثلاثا ثم قسم"(بخاري، ح: 2070)

لہذا مناسب یہی ہے کہ دلہن اگر کنواری ہو تو سات دن بعد اوراگر ثیبہ (مطلقہ، بیوہ) ہو تو تین دن بعد والدین لینے کے لیے آئیں، دوسرے دن ہی مکلاوہ لے جانا خلافِ سنت معلوم ہوتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نکاح کے مسائل،صفحہ:522

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ