سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) شادی کے موقع پر دولہا کو سونے کی انگوٹھی پہنانا؟

  • 23609
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 2041

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل یہ رواج بن گیا ہے کہ شادی کے موقع پر دولہا کو سونے کی انگوٹھی پہنائی جاتی ہے۔ کیا دولہا کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تحفہ ہوتا ہے لہذا اسے قبول کر لینا چاہئے۔ تحفہ مسترد کرنا درست نہیں!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

’’خواتین کو سونا پہننا جائز ہے۔‘‘

(ترمذي، اللباس، ما جاء فی الحریر والذھب، ح: 1720)

جبکہ مَردوں کے لیے سونا پہننا منع ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں سے روکا تھا۔ آپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھی سے یا راوی نے کہا کہ سونے کے چھلے سے، ریشم سے، استبرق سے، دیباج سے، سرخ میثرہ سے، قسی سے اور چاندی کے برتنوں سے منع کیا تھا، اور ہمیں آپ نے سات چیزوں یعنی بیمار کی مزاج پرسی کرنے، جنازہ کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کا جواب دینے، سلام کا جواب دینے، دعوت کرنے والے کی دعوت قبول کرنے، (کسی بات پر) قسم کھا لینے والے کی قسم پوری کرانے اور مظلوم کی مدد کرنے کا حکم دیا تھا۔ (بخاري، اللباس، خواتیم الذھب، ح؛ 5863)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیا۔‘‘

(انه نهى عن خاتم الذهب) (ایضا، ح: 5863)

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن لبس و المعصفر و عن تختم الذهب و عن قراءة القراٰن فى الركوع(مسلم، اللباس والزینة، النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر، ح: 2078)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قسی (ایک ریشمی کپڑا) پہننے، کسم میں رنگا ہوا کپڑا پہننے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع کیا۔‘‘

مَردوں کے لیے سونے کے زیور (انگوٹھی وغیرہ) پہننے کی ممانعت درج ذیل حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا:

(يعمد احدكم الى جمرة من نار فيجعلها فى يده)

’’تم میں سے ایک شخص آگ کے انگارے کا ارادہ کرتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں رکھ لیتا ہے۔‘‘

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد اس آدمی سے کہا گیا: اپنی انگوٹھی پکڑ لو اور اس (کو بیچ کر اس) سے فائدہ اٹھا لو، اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں اس چیز کو کبھی نہیں لوں گا جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینک دیا ہے۔

(ایضا، تحریم خاتم الذھب علی الرجال و نسخ ما کان من اباحته فی اول الاسلام، ح: 2090)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں۔ جہاں تک کسی کا تحفہ قبول کرنے کا مسئلہ ہے تو اگر شرعی عذر نہ ہو تو قبول کیا جا سکتا ہے۔ مرد سونے کی انگوٹھی تحفے کے طور پر قبول کر سکتے ہیں مگر ان کے لیے اس کا پہننا جائز نہیں۔ اسے کسی جائز مصرف میں استعمال کیا جائے۔ انگوٹھی فروخت بھی کی جا سکتی ہے یا خواتین کو پہننے کے لیے دی جا سکتی ہے۔ جس طرح ریشم پہننا مردوں کے لیے عام طور پر جائز نہیں مگر اس کا کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ حسبِ ضرورت ریشم پہننا جائز ہے، مثلا اگر کسی کو خارش ہو تو بطورِ علاج ریشم پہن سکتا ہے۔ خواتین کے ریشم پہننے کی کوئی ممانعت نہیں۔ لہذا مرد ریشم کا تحفہ قبول کر سکتا ہے حالانکہ ریشم پہننا اس کے لیے جائز نہیں۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز دیبا کی قبا پہنی جو آپ کے پاس تحفہ میں آئی تھی۔ پھر آپ نے اسی وقت نکال ڈالی اور عمر بن خطاب کو بھیج دی۔ لوگوں نے عرض کیا:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے تو نکال ڈالی ہے؟

آپ نے فرمایا:

(نهانى عنه جبريل عليه الصلاة والسلام)

’’جبریل علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے مجھے منع کر دیا ہے۔‘‘

عمر رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آپ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جس چیز کو آپ نے ناپسند کیا ہے وہ مجھے دے دی تو میرا کیا حال ہو گا! آپ نے فرمایا:

(انى لم اعطكه لتلبسه انما اعطيتك تبيعه)

’’میں نے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دی، میں نے تمہیں اس لیے دی تھی کہ تم اسے فروخت کر دو۔‘‘

اس پر انہوں نے اسے دو ہزار درہم میں فروخت کر دیا۔

(ایضا، تحریم لبس الحریر و غیر ذلک للرجال، ح: 2070)

علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحفہ میں حریر (ریشم) کی ایک قبا آئی، آپ نے اسے پہنا اور اس میں نماز پڑھی۔ پھر آپ واپس ہوئے تو اسے زور سے اتار پھینکا جیسے اسے برا جانتے ہوں۔ پھر فرمایا:

(لا ينبغي هذا للمتقين) (ایضا، ح: 2075)

’’یہ پرہیزگاروں کے لائق نہیں ہے۔‘‘

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جو چیزیں صرف مَردوں کے لیے ممنوع ہیں ان کی خریدوفروخت جائز ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نکاح کے مسائل،صفحہ:520

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ