سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(171) مسجد کے نیچے دوکانیں بنانا جائز ہے یا نہیں

  • 2365
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3844

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 مسجد کی زمین وقف میں نیچے کے درجہ میں دوکانیں برائے کرایہ اور پائخانہ و غسل خانہ بنانا اور ان کے اوپر مسجد بنانا درست ہے یا نہیں؟ اور زمانہ خیر القرون میں جو مسجدیں تھیں ان میں غسل خانے و پائخانے ہوتے تھے یا نہیں؟ موجودہ زمانہ میں جو مسجد حرام بیت اللہ یا مسجد نبوی ہے ان میں غسل خانہ و پائخانہ خارج مسجد ہیں۔ بعض علماء اس کو منع کرتے ہیں کہ جو زمین مسجد کے لیے خریدی گئی اس میں دکانیں برائے کرایہ و پائخانہ و غسل خانہ نہ بنانا چاہیے، بلکہ یہ چیزیں خارج مسجد ہونی چاہئیں۔ آیا ان مولوی صاحب کا یہ کہنا ٹھیک ہے یا نہیں اور مسجد کے نیچے کا درجہ مسجد کے حکم میں ہے یا نہیں؟

_______________________________________________________________________________

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مسجد کے لیے خریدی ہوئی زمین میں اس کے مصالح کے لیے تہہ خانہ بنانا کہ اس میں مسجد کا سامان رکھا جائے یا مسجد کے نیچے دکانیں بنوا کر مسجد پر وقف کر دینا کہ ان کی آمدنی سے مسجد کے اخراجات پورے ہوتے رہیں اور تہہ خانہ دوکانیں موقوفہ کے اوپر مسجد تعمیر کرانا جائز ہے، دونوں صورتوں میں مسجد کے نیچے کا یہ حصہ (تہہ خانہ دوکانیں) مسجد کے خارج لیکن مسجد پر وقف ہیں۔ اس لیے ایسا کرنے سے مسجد کی مسجدیت میں خلل نہیں واقع ہو گا، جس طرح مسجد کے لیے خریدی ہوئی کشادہ زمین میں نماز پڑھنے کے لیے مخصوص و متعین بقعہ سے الگ لیکن مسجد کی موقوفہ زمین کے اندر کنواں، جائے وضو، پیشاب خانہ، غسل خانہ، مسجد کا سامان رکھنے کا حجرہ بنا دیا جاتا ہے۔ اور اس سے مسجد کی مسجدیت میں کوئی خلل ہیں ہوتا اور اس کے جواز میں کسی کو شبہ نہیں ہوتا کیوں کہ یہ چیزیں مصالح مسجد سے ہیں اور دستور کے مطابق زمین خریدنے ہی کے وقت بانی مسجد کے ذہن میں یہ تمام ضروریات ہوتی ہیں۔
مسجد کا زیریں حصہ جس میں تہہ خانہ یا دوکانیں وغیرہ ہوں نہ مسجد ہے نہ فناء بلکہ مسجد سے خارج اور اس پر وقف ہے اور مسجد وفناء مسجد اور چیز ہے اور شی خارج من المسجد لیکن موقوف علی المسجد دوسری چیز ہے۔ زمانہ خیر القرون میں مساجد کے ساتھ غسل خانے اور دوکانیں ہوتی تھیں یا نہیں اس بارے میں کوئی روایت نظر سے نہیں گزری، جواز پر حسب ذیل واقعوں سے استدلال کیا جا سکتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے عین مسجد نبوی میں دو حبشی عورتوں کے خیمے نصب تھے ایک ان کا جو مسجد میں جھاڑو دیتی تھیں دوسرا ان کا جن… پر کفر کی حالت میں کافروں نے ہار کے سرقہ کی جھوٹی تہمت لگائی تھی ونیز ایک غفاری عورت کا خیمہ بھی تھا، جو مریضوں کا علاج اور مجروحین کی مرہم پٹی کرتی تھیں، یہ خیمے اگرچہ ہمیشہ کے لیے نہ تھے ان عورتوں کی وفات کے بعد ہٹا لیے گئے ہوں گے، لیکن مسجد کے اندر ان کے فی الجملہ وجود سے یہ ثابت ہوتا ہے، کہ ان کے نصب و بقا سے مسجد کی مسجدیت میں خلل نہیں واقع ہوا۔
(مولانا) عبید اللہ رحمانی ، شیخ الحدیث و مفتی مدرسہ    محدث جلد نمبر۲ شمارہ نمبر ۶)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 09 ص 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ