سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(217) ذبح اسماعیل،حکم یا اشارہ؟

  • 23587
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 855

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’منکرِ حدیث مسٹر پرویز اور اس کی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو ذبحِ اسماعیل کا حکم نہ تھا، یہ صرف اشارہ تھا جسے غلطی سے ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ بیٹھے۔ مسٹر پرویز کہتے ہیں کہ یہ مجاز تھا حقیقت نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے آیت ﴿افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾ کا مفہوم جس بات کا اشارہ آپ کو ملا ہے، اسے بلا تامل کر گزرئیے‘‘ بیان کیا ہے۔ یہ مؤقف کہاں تک درست ہے؟ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مینڈھا ذبح کرنے کا واقعہ قرآن میں نہیں ہے!


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

منکرینِ حدیث قرآن کے بہانے حدیث سے بالکل ’’آزاد‘‘ ہو گئے ہیں۔ اور الفاظِ قرآنی کو تلعب و تصریف (ہیرا پھیری) کے ذریعے اپنی مرضی کے معانی پہنانے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں۔ الفاظ اور آیات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر معانی پہنانا نیز حقیقت کو مجاز اور مجاز کو حقیقت بنانا ان کا مرغوب مشغلہ ہے۔

قرآن سے پوری صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو یہی حکم تھا کہ وہ اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کریں۔ ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اسے حکمِ الہٰی سمجھتے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے اگر انہیں منشا الہٰی سمجھنے میں اجتہادی غلطی لگی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی تصحیح کر دیتے۔ نہ کہ ’’غلط فہمی‘‘ کے نتیجے میں کیے جانے والے عمل کی تحسین کی جاتی اور نہ اسے (أَسْلَمَا) کہہ کر فرمانبرداری قرار دیا جاتا۔ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی تحسین (مَا تُؤْمَرُ) (جس کا تجھے حکم دیا گیا) پر عمل کرنے پر ہی کی تھی۔ (مَا تُؤْمَرُ) سے اشارہ مراد لینا مسٹر پرویز کی جہالت ہے۔ امر کا معنی لغتِ عرب میں ’’حکم‘‘ ہوتا ہے۔ نہ کہ ’’اشارہ۔‘‘ اور مجازی معنی اسی صورت میں مراد لیا جاتا ہے جب حقیقی معنی متعذر (محال) ہو۔

مسٹر پرویز کبھی (مَا تُؤْمَرُ) کا مفہوم ’’اگر‘‘ سے بدل دیتے ہیں، لکھتے ہیں:

آپ نے سمجھا کہ یہ اشارہ غیبی ہے۔ اس لیے اس کی تعمیل ضروری ہے۔ بیٹے سے ذکر کیا تو اس نے بھی کہا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو اس کی تعمیل میں قطعا تامل نہ کیجیے، میں ذبح ہونے کو تیار ہوں۔ (قرآنی فیصلے، ص: 4)

’’اگر یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے‘‘ قرآن کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ کرنے کے پرویزی قائل ہی نہیں ہیں۔ ’’اگر‘‘ کس لفظ کا ’’مفہوم‘‘ ہے۔ کیا یہ کھلی تحریف قرآن نہیں؟ یہ ’’اگر‘‘ صریحا قرآنی فیصلے کے خلاف ہے۔ مسٹر پرویز کی یہ بھی دیدہ دلیری اور سینہ زوری ہے کہ اپنی من پسند تحریفات کو ’’قرآنی فیصلے‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ مذکورہ بالا ’’اگر‘‘ اس کی ایک دلیل ہے۔

مسٹر پرویز جو یہ کہتے ہیں کہ مینڈھا ذبح کرنے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے یہ بھی ان کی ایک جہالت ہے۔ ان کی باقیات سے دریافت کیا جائے کہ ارشاد بای تعالیٰ ﴿وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴿١٠٧﴾ (الصافات 107/37) سے کیا مراد ہے؟ عربی لغت اور سیاق و سباق کو ملحوظِ خاطر رکھ کر جواب دیا جائے۔

اس یادگار واقعے کی پوری تفصیل قرآن مجید نے بیان کی ہے۔ سیاق و سباق کو مدنظر رکھ کر اگر اس پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو مسٹر پرویز کے تمام جھوٹ آشکارا ہو جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿رَبِّ هَب لى مِنَ الصّـٰلِحينَ ﴿١٠٠ فَبَشَّرنـٰهُ بِغُلـٰمٍ حَليمٍ ﴿١٠١ فَلَمّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعىَ قالَ يـٰبُنَىَّ إِنّى أَرىٰ فِى المَنامِ أَنّى أَذبَحُكَ فَانظُر ماذا تَرىٰ قالَ يـٰأَبَتِ افعَل ما تُؤمَرُ سَتَجِدُنى إِن شاءَ اللَّهُ مِنَ الصّـٰبِرينَ ﴿١٠٢فَلَمّا أَسلَما وَتَلَّهُ لِلجَبينِ ﴿١٠٣ وَنـٰدَينـٰهُ أَن يـٰإِبر‌ٰهيمُ ﴿١٠٤ قَد صَدَّقتَ الرُّءيا إِنّا كَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ ﴿١٠٥ إِنَّ هـٰذا لَهُوَ البَلـٰؤُا۟ المُبينُ ﴿١٠٦ وَفَدَينـٰهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ ﴿١٠٧ وَتَرَكنا عَلَيهِ فِى الءاخِرينَ ﴿١٠٨ سَلـٰمٌ عَلىٰ إِبر‌ٰهيمَ ﴿١٠٩ كَذ‌ٰلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ ﴿١١٠ إِنَّهُ مِن عِبادِنَا المُؤمِنينَ ﴿١١١﴾... سورة الصافات

’’میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا کر۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اُس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا: میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تُو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابوجی! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے، ان شاءاللہ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ تو جب دونوں مطیع ہو گئے اور اُس (باپ) نے اُس (بیٹے) کو پیشانی کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بےشک ہم نیکی کرنے والوں کو اِسی طرح جزا دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔ اور ہم نے ان کا ذکرِ خیر پچھلوں میں باقی رکھا۔ ابراہیم پر سلام ہو۔ ہم نیکوکاروں کو اِسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ بےشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھے۔‘‘

ان آیات میں آنے والے الفاظ﴿ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾، ﴿أَسْلَمَا﴾،﴿وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ﴾، ﴿صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا﴾، ﴿نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٠٥﴾،﴿الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ﴿١٠٦﴾،﴿فَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴿١٠٧﴾، اور﴿وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿١٠٨﴾ مسٹر پرویز کے غلط دعاوی اور جھوٹ کا پول کھول دیتے ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قربانی کے احکام و مسائل،صفحہ:496

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ