سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) بوقت فجر تثویب کا شرعی حکم؟

  • 23497
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1162

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماہنامہ دعوۃ التوحید کے بعض شماروں میں تثویب کی ممانعت کے بارے میں لکھا گیا، جبکہ ہم نے ایک مولوی صاحب سے سنا تھا کہ فجر کے وقت تثویب کہی جا سکتی ہے؟ کیا یہ درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اذان فجر کے علاوہ کسی بھی موقع پر تثویب کہنا بدعت ہے۔ امام ابن قدامہ ایک فصل کا عنوان یوں قائم کرتے ہیں:

(ويكره التثويب فى غير الفجر) (اور فجر کے علاوہ تثویب کہنا مکروہ ہے۔)

آگے لکھتے ہیں: تثویب اذان میں کہی جائے یا اذان کے بعد ایک ہی بات ہے۔ اس کی دلیل بلال رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث نبوی ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

امرنى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان اثوب فى الفجر و نهانى ان الثوب فى العشاء(ابن ماجه، الاذان والسنة فیھا، السنة فی الاذان، ح: 715، و فی سندہ ضعف)

’’مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں (اذان) فجر میں تثویب کہوں، جبکہ آپ نے مجھے عشاء کے وقت تثویب سے منع کر دیا۔‘‘

ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے داخل ہوئے، آپ نے ایک آدمی کو ظہر کی اذان میں تثویب کہتے سنا تو مسجد سے باہر نکل آئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا:

(اخرجتنى البدعة)

’’مجھے بدعت نے نکال دیا ہے۔‘‘

اذان فجر میں تثویب کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ اس وقت اکثر لوگ سو رہے ہوتے ہیں اور نیند سے بیدار ہو کر نماز کے لیے اٹھتے ہیں، تو اس کے لیے تثویب کو حسب حاجت مختص کیا گیا۔ (المغنی مع الشرح الکبیر 513/2، 1425ھ/2004ء دارالحدیث، القاہرہ)

ملحوظہ: صلاۃ الفجر کے وقت جو تثویب کہی جاتی ہے، یہ اذان کا جز ہے اذان سے علیحدہ نہیں ہے، کیونکہ وقت فجر کی تثویب (الصلٰوة خير من النوم) کی تعلیم خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مؤذن بلال رضی اللہ عنہ کو دی تھی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اذان و نماز،صفحہ:350

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ