سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(87) اوپر مت دیکھیں بلکہ نیچے دیکھیں

  • 23457
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2223

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث نبوی کی روشنی میں اپنے سے اوپر والے (دنیوی لحاظ سے) کی طرف نظر نہیں رکھنی چاہئے بلکہ اپنے سے کمتر (دنیوی اعتبار سے) کی طرف دیکھنا چاہئے۔ اس حدیث کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟ اگر چند طلبہ مثلا شعبہ کیمیکل میں چھے نمبر حاصل کرتے ہیں تو باقی طلبہ اپنے سے زیادہ نمبر لینے والے طلباء کی طرف نظر رکھیں یا اپنے سے کم نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کی طرف؟ مذکورہ حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث میں صبر، شکر اور قناعت کی زندگی بسر کرنے کا ایک سنہری اصول بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا مکمل متن یہ ہے:

(انظروا إلى من هو أسفل منكم ، ولا تنظروا إلى من هو فوقكم ، فهو أجدر ألا تزدروا نعمة الله عليكم)مسلم، الزھد، الدنیا سجن الممون ۔۔ح: 2963)

’’اس آدمی کی طرف دیکھو جو تم سے کمتر ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اونچا ہے۔ یہ اس لحاظ سے زیادہ مناسب ہے کہ تم پر جو اللہ کی نعمت ہے، اسے حقیر نہ جانو۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے:

(إذا نظر أحدكم إلى من فضل عليه في المال والخلق فلينظر إلى من هو أسفل منه ممن فضل عليه)(مسلم، الزھد، الدنیا سجن المومن۔۔ح: 2963)

’’جب تم میں سے کسی آدمی کی اپنے سے زیادہ صاحب مال اور اولاد (یا جسم میں بہتر) پر نظر پڑے تو اسے چاہئے کہ اپنے سے کم تر مقام و مرتبے والے کو بھی دیکھے۔‘‘

اگر ایک شخص للچائی ہوئی نظر سے ان لوگوں کی طرف دیکھے جنہیں دنیوی نعمتیں (مال و دولت، باغات و جائیداد کی فراوانی، محلات، اعلیٰ درجے کی گاڑیاں وغیرہ) زیادہ دی گئی ہیں تو اس بات کا قول امکان ہے کہ اس کے دل میں منعم حقیقی کا شکوہ اور احساسِ محرومی پیدا ہو جائے یا اصحاب دولت و ثروت کے خلاف حسد جنم لے یا پھر اللہ کی عبادت سے غافل ہو جائے اور دن رات انہی سہولیات، بلند تر رتبوں کی خواہش اور تلاش کی تگ و دو میں لگ کر دنیا ہی کا بند بن کر رہ جائے۔ خالق و مالک کا شکوہ، احساسِ محرومی، لوگوں پر حسد اور دولت دنیا کا غلام بن کر رہ جانا نیکیوں کو تباہ اور دلی آرام و سکون کا ستیاناس کر دیتا ہے۔ مال و دولت کی کثرت بسا اوقات انسان کے لیے عذاب کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے وہ خالق کی نافرمانی اور بغاوت پر اتر آتا ہے۔

مگر جب انسان اپنے سے کم تر حیثیت کے لوگوں پر نظر دوڑائے گا تو اسے شکر، صبر اور قناعت کی دولت حاصل ہو گی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو حقیر نہیں جانے گا۔ حقیقت یہ ہے ایک غریب سے غریب انسان پر بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے انعامات ہوتے ہیں۔ کیا ایمان کی نعمت کوئی معمولی نعمت ہے!

اسی طرح صحت و تندرستی اور قرض سے محفوظ ہونا اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نعمتیں ہیں۔ اگر ایک شخص کسی ہسپتال بالخصوص اس کے سرجیکل وارڈکا مشاہدہ و معائنہ کرے تو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے گا:

تنگدستی گرچہ ہو غالب              تندرستی ہزار نعمت ہے

البتہ اچھائی اور نیکی کے کاموں میں جو لوگ ہم سے بڑھ کر ہیں ان کی طرف دیکھ کر امورِ خیر میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿خِتـٰمُهُ مِسكٌ وَفى ذ‌ٰلِكَ فَليَتَنافَسِ المُتَنـٰفِسونَ ﴿٢٦﴾... سورة المطففين

’’اور اسی (جنت) میں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت کریں وہ لوگ جو ایک دوسرے کے مقابلے میں کسی چیز میں رغبت کرتے ہیں۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ﴾(البقرة 2/148، المائدة 5/48))

’’نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اچھے کاموں میں سبقت کرنے والوں کی تعریف کی ہے، اُن پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے:

﴿وَمِنهُم مُقتَصِدٌ وَمِنهُم سابِقٌ بِالخَير‌ٰتِ بِإِذنِ اللَّهِ ذ‌ٰلِكَ هُوَ الفَضلُ الكَبيرُ ﴿٣٢﴾... سورة الفاطر

علم حاصل کرنا دین اسلام کا مطالبہ ہے۔ جو آدمی حصولِ علم کے راستے پر چل پڑتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ جنت کا راستہ آسان کر دیتے ہیں۔ علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہیں کیا جا سکتا، مثلا کفار کے مقابلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قوت تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ اس جدید دور میں جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کافروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار تیار نہیں کیے جا سکتے۔ لہذا جدید علوم (سائنسی علوم) ضروریاتِ دین میں سے ہیں۔ ان کا حاصل نہ کرنا نہ صرف کارِ خیر بلکہ فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان مبادی کو سامنے رکھتے ہوئے (حسنِ نیت کے ساتھ) جو لوگ ان علوم میں زیادہ ماہر ہوں انہیں دیکھ کر آگے بڑھنا چاہئے۔ جن طلبہ نے خوب محنت کر کے اچھے نمبر حاصل کیے ہوں انہیں دیکھ کر اچھے نمبر (Marks) لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اسلام کی خدمت کا پہلو ضرور مدِنظر ہونا چاہئے، تب ان علوم کو سیکھنا بھی باعث ثواب ہو گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:232

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ