سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) قصد و ارادہ سے آیاتِ سجدہ کی سماعت اور سجدہ تلاوت؟

  • 23436
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1658

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سجدہ تلاوت کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا سجدہ تلاوت فرض و واجب ہے؟ اگر کوئی شخص یہ سجدہ نہ کرے تو کیا وہ گناہ گار ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سجدہ تلاوت کی مشروعیت پر ائمہ دین کا اجماع اور تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے۔ قرآن میں بھی تلاوت سننے پر سجدہ کرنے کا اشارہ موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا قُرِئَ عَلَيهِمُ القُرءانُ لا يَسجُدونَ ﴿٢١﴾... سورة الإنشقاق

’’اور جب ان (کفار) کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے۔‘‘

اس آیت میں ان لوگوں کو مذمت کی گئی ہے جو سجدہ کی عظمت کا انکار کرتے ہوئے سجدہ نہیں کرتے اور نہ اس کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ (دیکھیے المغنی 178/2)

احادیث میں سجدہ تلاوت کی اہمیت و فضیلت بھی بیان ہوئی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

’’جب ابن آدم سجدہ کی آیت پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان ایک طرف ہو کر رونے لگتا ہے: ہائے افسوس! انسان کو سجدہ کا حکم دیا گیا، اس نے سجدہ کر لیا، اس کے لیے تو جنت ہے۔ جبکہ مجھے سجدے کا حکم ہوا تو میں نے (سجدہ کرنے سے) انکار کر دیا، لہذا میرے لیے جہنم ہے۔‘‘(مسلم، الایمان، بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰة، ح: 81، ابن ماجه، اقامة الصلوات والسنة فیھا، ح: 1052)

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سجدہ تلاوت کتنے ذوق و شوق سے کرتے تھے، اس بات کا اندازہ درج ذیل حدیث سے لگایا جا سکتا ہے:

’’ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی ہماری موجودگی میں سجدہ والی سورت تلاوت کرتے (آیت سجدہ پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے اور ہم بھی سجدہ کرتے حتی کہ (ہجوم کی وجہ سے) پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی تھی جس پر ہم سجدہ کرتے۔‘‘(بخاري، سجود القرآن، من سجد بسجود القاري، ح: 1075، مسلم، 575، ابوداؤد، 1412)

اس حدیث اور دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ تلاوت سنت ہے۔ ’’ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر قرآن پڑھتے۔ جب سجدے کی آیت تلاوت کرتے تو اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرتے۔‘‘(ابوداؤد، سجود القرآن، فی الرجل یسمع السجدة وھو راکب او فی غیر صلوٰة، ح: 1413)

آیات سجدہ پڑھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ تلاوت کرتے تھے، جس سے اس سجدے کا سنت ہونا ثابت ہوتا ہے۔ جمہور ائمہ کے نزدیک سجدہ تلاوت پڑھنے اور سننے والے دونوں افرادکے لیے سنت ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ سجدہ تلاوت کے واجب ہونے، جبکہ ائمہ ثلاثہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ الل علیہم سنت ہونے کے قائل ہیں۔ امام اوزاعی، امام بخاری، حافظ ابن حجر عسقلانی، امام نووی، امام شوکانی اور عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہم سجدہ تلاوت کو سنت کہتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری، سجود القرآن میں ما جاء فی سجود القرآن و سنتہا کا باب قائم کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے سجدہ تلاوت کے عدم وجوب پر درج ذیل حدیث کو قوی ترین دلیل قرار دیا ہے:

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل پڑھی، جب سجدہ کے مقام ﴿وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ (النحل:16/49) پر پہنچے تو منبر سے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعے کو پھر یہی سورت پڑھی۔ جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو فرمانے لگے:

’’لوگو! ہم آیت سجدہ تلاوت کرتے ہیں تو جو شخص سجدہ کر لے اس نے درست اور اچھا عمل کیا اور جس نے سجدہ تلاوت نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں۔ نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اللہ نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا بلکہ ہماری خوشی پر رکھا۔‘‘(بخاري، سجود القرآن، من رای ان اللہ عزوجل لم یوجب السجود، ح: 1077)

ایک اور روایت میں ہے کہ عمر بن خطاب نے جمعہ کے دن برسرِ منبر آیت سجدہ تلاوت کی، آپ نے منبر سے اتر کر سجدہ کیا، لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ آئندہ جمعے میں بھی آپ نے آیت سجدہ تلاوت کی، لوگ سجدہ کرنے کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے فرمایا:

(ان الله لم يكتبها)

’’اللہ نے ہم پر سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا، البتہ اگر ہم چاہیں تو کر لیں۔‘‘

(اس دن) آپ نے سجدہ نہ کیا اور لوگوں کو بھی سجدہ کرنے سے روک دیا۔‘‘(مؤطا، القرآن، ما جاءفی سجود القرآن، ح: 482)

یہ واقعہ بہت بڑے مجمع کے سامنے پیش آیا اور کسی نے بھی اس پر تعجب کا اظہار نہیں کیا اور نہ کسی سے اس کے خلاف منقول ہے۔ (المغنی 178/2)

امام ابن قدامہ نے اس واقعہ کی بنا پر سجدہ کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ (ایضا)

لہذا اگر کوئی قرآن پڑھنے یا سننے والا کبھی سجدہ نہ کرے تو وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔ تاہم شیطان کو ذلیل و رُسوا کرنے اور اسے رلانے کے لیے سجدہ کرنا ہی افضل ہے۔

بعض علماء نے ایک اور حدیث سے بھی سجدہ تلاوت کے عدمِ وجوب پر استدلال کیا ہے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’میں نے اللہ کے رسول کے سامنے سورۃ النجم کی تلاوت کی، مگر آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔‘‘(بخاري، سجود القرآن، من قرا السجدة ولم یسجد، ح: 1072، مسلم: 573، ابوداؤد: 1404، ترمذي: 576)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر سجدہ تلاوت واجب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سجدہ کرواتے اور خود بھی کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ترک سجدہ بھی جائز ہے۔ بعض نے یہ کہا کہ اگر پڑھنے والا سجدہ نہ کرے تو سامع پر بھی واجب نہیں۔ (ترمذی: 228/1)

مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

آپ کے اس وقت سجدہ نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں: علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آپ نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ اس کا ترک بھی جائز ہے۔ اسی تاویل کو ترجیح حاصل ہے۔ امام شافعی کا یہی خیال ہے۔ (شرح بخاری 208/2)

مولانا موصوف یہ بھی لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ آپ نے بعد میں سجدہ کر لیا ہو۔ (ایضا)

لہذا سستی اور غفلت کو سجدہ تلاوت نہ کرنے میں عادت نہیں بنا لینا چاہئے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:204

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ