سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) 3333 ہاتھ لمبا انسان؟

  • 23430
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 3055

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عالم دین قرآن کی تفسیر کے حوالے سے بتا رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص کا قد اتنا لمبا تھا کہ اس کا ہاتھ سورج تک پہنچ جاتا تھا نیز وہ سمنندر کے پیندے سے مچھلیاں پکڑ لیا کرتا تھا۔ کیا یہ درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر میں عوج الاعنق کا نام ذکر کیا ہے۔ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ان جبارین سے تھا جن کے خلاف موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو جنگ کرنے کا حکم دیا تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰقَومِ ادخُلُوا الأَرضَ المُقَدَّسَةَ الَّتى كَتَبَ اللَّهُ لَكُم وَلا تَرتَدّوا عَلىٰ أَدبارِكُم فَتَنقَلِبوا خـٰسِرينَ ﴿٢١ قالوا يـٰموسىٰ إِنَّ فيها قَومًا جَبّارينَ وَإِنّا لَن نَدخُلَها حَتّىٰ يَخرُجوا مِنها فَإِن يَخرُجوا مِنها فَإِنّا د‌ٰخِلونَ ﴿٢٢﴾... سورة المائدة

’’میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے نام لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو کہ پھر نقصان میں جا پڑو، انہوں نے جواب دیا: موسیٰ! وہاں تو زور آور سرکش لوگ ہیں اور جب تک وہ وہاں سے نہ نکل جائیں ہم تو ہرگز وہاں نہ جائیں گے، ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں پھر تو ہم (بخوشی) چلے جائیں گے۔‘‘

بعض اسرائیلی روایات میں جبارين کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں، علامہ قرطبی مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ان سب لوگوں کے قد 0اوسطا) ساڑھے چھ ہاتھ تھے جیسے کہ مقاتل نے کہا ہے۔ کلبہ کہتے ہیں:

پر آدمی اسی ہاتھ لمبا تھا۔ یہ لوگ کون تھے؟ ان کے بارے میں آگے چل کر علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ قوم عاد کے باقی ماندہ لوگ تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عیصو بن اسحاق کی قوم سے تھے اور وہ روم سے تھے اور ان میں عوج الاعنق بھی تھا جو کہ 3333 ہاتھ لمبا تھا۔ یہ ابن عمر نے کہا ہے، وہ بادلوں کو اپنی لاٹھی سے ہانکتا اور بادلوں سے ہی پانی پیتا تھا۔ وہ سمندر کے پیندے سے مچھلی پکڑتا اور اسے سورج کے قریب کر کے بھون کر کھا لیتا۔ جب طوفانِ نوح آیا وہ اس کے گھٹنوں سے اوپر نہ گیا تھا اور اس کی عمر 3600 سال تھی۔ اس نے موسیٰ علیہ السلام کے لشکر کو کچلنے کے لیے ایک بڑا پتھر اٹھا رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک پرندہ بھیجا جس نے پتھر کو چونچ ماری تو پتھر اس کی گردن پر آ گرا لہذا وہ (عوج) گر پڑا۔ موسیٰ علیہ السلام اس پر حملہ آور ہوئے۔ آپ کا قد دس ہاتھ تھا۔ آپ کی لاٹھی بھی دس ہاتھ تھی اور آپ دس ہاتھ اوپر چڑھے مگر اس کے ٹخنے تک ہی پہنچ سکے تھے، وہ گرا ہوا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اسے قتل کر دیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے ٹخنے کے نیچے والی رگ پر مار کر گرا دیا اور وہ مر گیا اور دریائے نیل پر گر پڑا تو لوگ اسے ایک سال تک پل کے طور پر استعمال کرتے رہے ۔۔ کلبی کہتے ہیں:

عوج ہاروت و ماروت کی اولاد میں سے ہے کہ ان دونوں کے ایک عورت سے ملاپ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔"

ان روایات میں بہت سے تضادات پائے جاتے ہیں۔ نیز بعض باتیں کتاب و سنت کی تعلیمات کے صریحا منافی ہیں۔چند ایک کی نشاندہی ذیل میں کی جاتی ہے:

1۔ پہلے یہ کہا گیا کہ یہ لوگ قوم عاد کے بچے ہوئے لوگ تھے۔ جب کہ آگے چل کر کہا گیا کہ عوج بن اعنق نوح علیہ السلام کی قوم پر طوفان کے وقت بھی موجود تھا۔

2۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عوج سرکش اور نافرمان شخص تھا جب کہ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نوح علیہ السلام کی قوم میں سے صرف ایمان والے ہی محفوظ رہے تھے اور انہی کے بچانے کا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔ یہ بات قرآن سے معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَكَذَّبوهُ فَأَنجَينـٰهُ وَالَّذينَ مَعَهُ فِى الفُلكِ وَأَغرَقنَا الَّذينَ كَذَّبوا بِـٔايـٰتِنا إِنَّهُم كانوا قَومًا عَمينَ ﴿٦٤﴾... سورة الاعراف

’’وہ لوگ ان کی تکذیب ہی کرتے رہے تو ہم نے ان (نوح علیہ السلام) کو اور انہیں جو اُن کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا انہیں ہم نے غرق کر دیا۔ بےشک وہ لوگ اندھے ہو رہے تھے۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿حَتّىٰ إِذا جاءَ أَمرُنا وَفارَ التَّنّورُ قُلنَا احمِل فيها مِن كُلٍّ زَوجَينِ اثنَينِ وَأَهلَكَ إِلّا مَن سَبَقَ عَلَيهِ القَولُ وَمَن ءامَنَ وَما ءامَنَ مَعَهُ إِلّا قَليلٌ ﴿٤٠﴾... سورة هود

’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور ابلنے لگا، ہم نے کہا اس کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک مادہ) سور کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی، اس کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے۔‘‘

اسی طرح فرمایا:

﴿وَقيلَ يـٰأَرضُ ابلَعى ماءَكِ وَيـٰسَماءُ أَقلِعى وَغيضَ الماءُ وَقُضِىَ الأَمرُ وَاستَوَت عَلَى الجودِىِّ وَقيلَ بُعدًا لِلقَومِ الظّـٰلِمينَ ﴿٤٤﴾... سورة هود

’’اور فرما دیا گیا کہ اے زمین! اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا۔ اسی وقت پانی خشک کر دیا گیا اور کام پورا کر دیا گیا اور کشتی "جُودی" پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ظالم لوگوں پر لعنت نازل ہو۔‘‘

لہذا معلوم ہوا کہ کشتی میں سوار ہونے والے ہی محفوظ رہے تھے۔ ﴿أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ ﴿١٢٠﴾

3۔ 3333 ہاتھ لمبائی کسی بھی صورت میں سورج تک نہیں پہنچتی۔

4۔ پہلے کہا کہ وہ گردن پر پتھر لگنے سے گرا اور بعد میں کہا کہ اسے موسیٰ علیہ السلام نے مار کر گرایا تھا۔

5۔ انسانی جسم پل کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتا اور وہ بھی ایک سال تک کہ اس کے جسم میں کوئی تغیر نہ آیا۔

6۔ عوج کو انسانوں کی اولاد سے بتایا گیا اور بعد ازاں کہا کہ وہ ہاروت و ماروت کی اولاد میں سے تھا، حالانکہ قرآن کے بیان کے مطابق ہاروت اور ماروت فرشتے تھے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيـٰطينُ عَلىٰ مُلكِ سُلَيمـٰنَ وَما كَفَرَ سُلَيمـٰنُ وَلـٰكِنَّ الشَّيـٰطينَ كَفَروا يُعَلِّمونَ النّاسَ السِّحرَ وَما أُنزِلَ عَلَى المَلَكَينِ بِبابِلَ هـٰروتَ وَمـٰروتَ...﴿١٠٢﴾... سورة البقرة

’’اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین سلیمان کی حکومت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان نے تو کفر نہ کیا تھا، بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے، اور وہ جو بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پر اُتارا گیا تھا۔‘‘

اور فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کرتے ہیں، کیونکہ ان کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لا يَسبِقونَهُ بِالقَولِ وَهُم بِأَمرِهِ يَعمَلونَ ﴿٢٧﴾... سورة الأنبياء

’’کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کاربند رہتے ہیں۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَرونَ ﴿٦﴾... سورة التحريم

’’جنہیں جو حکم اللہ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔‘‘

نیز اللہ نے فرشتوں میں جنس خواہش رکھی ہی نہیں۔ اسی لیے جب جبریل علیہ السلام مریم کے پاس آئے تو وہ ڈر گئیں تو جبریل نے فرمایا:

﴿إِنَّما أَنا۠ رَسولُ رَبِّكِ...﴿١٩﴾... سورة مريم

’’میں تو آپ کے رب کا بھیجا ہوا ہوں۔‘‘

7۔ کسی انسان کی ایک ہزار سال سے زیادہ عمر ثابت نہیں۔ نوح علیہ السلام کی عمر بھی ہزار سال کے لگ بھگ تھی، ساڑھے نو سو سال تو انہوں نے تبلیغ اور دعوت دین دی تھی۔ 3600 سال عمر کو باقی تمام انسانوں کی عمروں سے کوئی نسبت تک نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

قرآن اور تفسیر القرآن،صفحہ:180

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ