سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) بیوی کے مجبور کرنے پر بار بار طلاق دینا اور تیسری مرتبہ بھی مجبوراً بولے بغیر تحریری طلاق دی تو اس کا حکم

  • 23353
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 668

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت اور اس کےخاوند میں خوب جھگڑا ہوا۔ عورت نےبار بار طلاق دینے کا مطالبہ کیا لیکن مرد نے اس کی بات نہیں مانی تواس نےاس بات کی دھمکی دی کہ طلاق نہ دی تووہ گھر سےباہر چلی  جائےگی، چنانچہ اس نےایک طلاق دے دی اورعدت کےختم ہونے سےقبل رجوع کرلیا،دوسری مرتبہ پھر یہی واقعہ پیش آیااور اس نےطلاق دینے کےبعد عدت ختم ہونے سے قبل رجوعم کرلیا۔اب تیسری دفعہ اس نے پھر طلاق کامطالبہ کیا ہےاور اس پراصرار بھی کررہی ہے۔ مرد انکار کررہاہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر تیسری مرتبہ دے دی تورجوع کرنے کاحق دار نہیں رہےگا۔اس کی بیوی نےدھمکی دی کہ اگرطلاق نہ دی تووہ اپنے آپ کوقتل کرڈالے گی اور پھر یہاں تک کیا کہ چھری لاکرپیٹ کررکھ دی۔مرد نےمجبور ہوکر ایک کاغذ پر طلاق لکھ دی لیکن زبان سےلفظ طلاق ادا نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہےکہ آیا یہ طلاق جبر کی بناپر واقع نہ ہوگی یاجبر کااعتبار نہیں کیاجائےگااور طلاق واقع ہوجائےگی ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہاں تک پہلی اوردوسری طلاق کاسوال ہےتووہ دونوں بلااشکال واقع ہوگئیں لیکن تیسری طلاق کےبارےمیں دوامور بحث طلب ہیں:

اولاً : تحریری طلاق: فقہاء کااتقاق ہےکہ طلاق واقع ہوجاتی ہے،چاہے مرد نےزبان سےطلاق کےالفاظ کہےہوں یانہ، چاہے طلاق کی نیت کی ہویانہ، صحت طلاق کےلیے انہوں صر ف یہ شرط رکھی ہےکہ تحریربالکل واضح ہو،پڑھی جاسکتی ہواوربیوی کوپہنچادی گئی ہو۔

دوم: جبری طلاق: جمہور فقہاء کےنزدیک جبری طلاق واقع نہیں ہوتی جبکہ جبرانتہائی شدید ہو، جیسےقتل کرنےیاشدت کےساتھ مارنےپیٹنے یاجسم کےکسی عضوکوکاٹنے کی دھمکی دی گئی ہواور اس کی دلیل یہ مشہور حدیث ہے:’’ اللہ تعالیٰ نےاس امت پرتین چیزوں کومعاف کردیاہے:غلطی سےکوئی کام کرنا،بھول جانا یاایسا کام جس کےکرنے پرمجبور کیاگیاہو۔،،(سنن ابن ماجہ،الطلاق ، حدیث2045، والمستدرک للحاکم:2؍216)

سوال سےظاہر ہوتاہےکہ عورت اپنی دھمکی میں سنجیدہ تھی،اس لیے اس نے چھری کواپنے پیٹ پربھی رکھ لیا، ایسی صورت میں مرد کا طلاق تحریر کرناجبر کےنتیجے میں تھا، اس لیے طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ اس کااپنے آپ کوقتل کرنےکی دھمکی دینا ایسا ہی ہےجیسےاس نےخاوند کوقتل کرنےکی دھمکی دی ہوکیونکہ دونوں حالتوں میں ایک معصوم جان کاضیاع ہوتاہے۔اس پرمستزاد یہ کہ  اگرعورت نےاپنے آپ کومارلیا توخاوند بہت ساری مشکلات کاشکار ہوسکتاہے۔

نوٹ: کونسل کےاجلاس میں مذکورہ بالا رائے سےمیں نےاختلاف کااظہار کیاتھا اور کہا تھا کہ سائل کےسوال سےمعلوم ہوتاہےکہ میاں بیوی میں ناچاقی اس حدتک پہنچ چکی ہےکہ بیوی کسی صورت خاوند کےساتھ رہنا نہیں چاہتی۔اب اگر اس طلاق کوجبری طلاق کہہ کرنہ بھی مانا جائے توکیا عورت کواس کےحال پرچھوڑ دیاجائے کہ وہ طلاق نہ ملنے پرکوئی غلط اقدام اٹھالے،اس لیے بہتر ہےکہ اس طلاق کومانا جائے تاکہ عورت کی گلوخلاصی ہوسکے۔ ایسی عورت کوخلع کاحق بھی حاصل ہے۔ وہ اگر خلع طلب کرے گی تب بھی یاتوشوہر کوخلع دینا پڑےگا یاقاضی اپنی صوابدید پراس نکاح کوفسخ کردے گا۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

نکاح و طلاق کےمسائل،صفحہ:386

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ