سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) مرد و زن کی نماز میں فرق

  • 23305
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1652

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترمہ عطیہ اسلم نے مولانا محمد عبدالمعبود کی کتاب کےچنداوراق ارسال کیے ہیں جس میں وہ مرد و عورت کی نماز میں ستائس (27) فرق کا ذکر کررہےہیں۔

انہوں نے استفسار کیا ہے کہ یہ بات کہاں تک درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواباً عرض ہےکہ فقہاء کی کتابیں دیکھی جائیں توآپ کوحنفی اورشافعی طریقہ نماز میں بھی فرق نظرآئے گا لیکن ظاہر ہےکہ ان دونوں طریقوں میں سے جوبھی سنت کےمطابق ہوگا وہی ہرمسلمان کےلیے قابل حجت ہوگا۔اسی طرح مردو عورت کی نماز میں جوفرق بیان کیاگیا ہے،اس کےبارےمیں بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کہاں تک سنت کےمطابق ہے، چونکہ اس ضمن میں ہمارے پاس بطور دلیل یاتواحادیث رسول ﷺ ہیں یا اقوال صحابہ اور تابعین ، اس لیے چندابتدائی اصول ملحوظ رہیں:

  •  اس مسئلہ میں اصل تورسول اللہﷺ کافرمان ہے:
« صلّوا كما رأيتمونى أصلى »

 ’’ نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔،،

ظاہر ہے اس حکم میں مرد وعورت کی تخصیص نہیں ہے لیکن اگرنبی اکرمﷺ نماز کےکسی خاص جز کےبارےمیں ارشاد فرمادیں کہ عورتیں اسے دوسرے طریق سے کریں توہم اس  کےپابندہوں گے، جیسے نماز کی حالت میں عورت کاباپردہ ہونا یا حالتِ حیض میں نماز کانہ پڑھنا۔

*اقوال صحابہ کہاں تک حجت ہیں؟ اس کےبارے میں مندرجہ ذیل تفصیل ملاحظہ ہو:

1۔ وہ اقول جنہیں خود رسول اللہﷺ  نےدرست قرار دیا۔

2۔ رسول اللہﷺ  کی رحلت کےبعد کسی صحابی نےکوئی فتویٰ دیا جس کی تائید حدیث سےمل گئی ۔

3۔ صحابی کسی فعل کےبارے میں یہ کہے کہ ہم رسول اللہﷺ  کےزمانے میں ایسے کیا کرتےتھے۔

4۔ ایسے اقوال جن میں کسی ایسے شرعی حکم کاتذکرہ ہو جسے معلوم کرنے میں عقل کادخل نہیں ہے۔

5۔ ایسے اقوال جن پرتمام صحابہ کااتفاق پایا جائے، انہیں اجماع کادرجہ حاصل ہوگا۔

6۔ ایسے اقوال جوقرآن کی تفسیر یا اسبابِ نزول سےمتعلق ہیں۔

مندرجہ بالا تمام اقوال حجت ہیں۔

7۔ ایساقول جوکسی صحابی کی ذاتی رائے اوراجتہاد پرمبنی ہو۔

فقہاء میں ایسے قول کوقبول کرنے یانہ کرنے میں اختلاف ہےاوراگر کسی مسئلے میں خود صحابہ میں اختلاف ہوتو جوقول قرآن وسنت سےزیادہ قریب ہواسے قبول کرلیا جائے گا۔

8۔ وہ قول جس سے صحابی نےخود رجوع کرلیا ہویا یہ قول رسول اللہﷺ کی وفات کےبعد صحابی سےصادر ہوا ہواورقرآن وسنت کےخلاف ہوتو وہ قابل حجت نہیں۔

*جہاں تک تابعین کی آراء اورفتوؤں کا تعلق ہےتووہ اقوال صحابہ کی طرح حجت نہیں ہیں لیکن اگرکسی مسئلے میں کوئی قول نہ مل رہاہوتوتابعین کےاقول سےاس مسئلے کوحل کرنے میں مدد لی جاسکتی ہے۔

اس تمہید کےبعد ان ستائیس فروق کی طرف آئیے جن کا شروع میں حوالہ دیا گیا ہےاور پھردیکھیں کہ مندرجہ بالا معیار کےمطابق وہ کہاں تک قابل قبول ہیں۔

(1)   ’’ عورت تکبیر تحریمہ کےلیے مندرجہ بالا معیار تک ہاتھ اٹھائے۔،،

رسول اللہﷺ سےاکثر توکندھوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے،لیکن بعض احادیث میں کانوں تک ہاتھ اٹھانے کاذکر بھی ہے۔ صحابیات میں سے ام درداء الکبری(خیرہ بنت ابی حدردالاسلیمہ ؓ ) کےتذکرہ میں ملتاہے کہ وہ کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتی تھیں۔ تابعیات میں سے حفصہ بنت  سیرین کابھی یہی عمل تھا۔

امام شوکانی ﷫ لکھتے ہیں: اس بارےمیں  کہ ہاتھ کتنے اٹھائے جائیں، احادیث میں ایسی کوئی بات وارد نہیں ہوئی جس سےرفع الیدین کےمسئلے میں مرد و عورت میں فرق کاپتہ چلے۔

تابعین میں سے عطاء اورحماد نےعورتوں کےلیے اپنی چھاتیوں تک ہاتھ اٹھانے کاذکر کیاہے۔

اب یہا ملاحظہ فرمائیے کہ خود حنفی مذہب میں بھی عطاء  اورحماد کےقول کون نہیں لیا کیا کیونکہ حدیث میں آثارصحابہ میں کندھوں تک ہاتھ اٹھانا مروی ہے۔

2۔ ’’ عورت اپنے ہاتھ آستینوں یا دوپٹے سےباہر نہ نکالے۔،،

اس فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

3۔ ’’ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ پررکھے۔،،

چونکہ نماز کی عمومی احادیث میں دائیں ہاتھ کا بائیں ہاتھ پررکھنا وارد ہے،اس لیے اس کیفیت کوعورتیں سےخاص کرنے کاکوئی سبب نہیں ہے۔

4۔ ’ ’ ہاتھ سینے پرباندھے۔،،

جوحدیث ہاتھوں کےسینے پرباندھنے سےمتعلق ہےوہی صحیح حدیث ہے، جس کےراوی وائل بن حجر﷜ کی روایت جس میں ہاتھ ناف سےنیچے باندھنے کاتذکرہ ہے۔ وہ ایک راوی عبدالرحمٰن بن اسحاق کی وجہ سے انتہائی ضعیف حدیث ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ جب آپ نےوائل بن حجر﷜ کی حدیث کوعورتوں کےلیے تسلیم کرلیا تومردوں کےلیے اسےتسلیم کرنے میں کیا امرمانع ہےجبکہ حدیث میں مرد اورعورت کی تخصیص نہیں ہے۔

5۔10 یہ چھ امور رکوع سےمتعلق ہیں، یعنی: ’’ عورت رکوع میں تھوڑا جھکے،ہاتھوں پرسہارا نہ لے، رکوع میں ہاتھ کی انگلیاں سمیٹ کررکھے،پھیلانا منع ہے، رکوع میں صرف گھٹنوں پرہاتھ رکھے، گھٹنے پکڑنامنع ہے،رکوع میں گھٹنوں کوتھوڑا سا جھکائے، رکوع میں سمٹی رہے۔،،

ان تمام جزئیات پرسرے سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ محدث عبدالرزاق نےتابعی عطاء کا یہ قول نقل کیا ہےجب عورت رکوع کرےتوسمٹی رہے(ان تجتمع ) اپنے ہاتھ پیٹ تک اٹھائے رکھے اورجتنا ہوسکےسمٹے۔

11۔ 12 اورنمبر 26 یہ تینوں امور سجدے سےمتعلق ہیں:

’’ سجدہ سمٹ کرکرے، بازوؤں کوپہلو سےجدانہ کرے، (عربی میں اسے تجافی کہا جاتا ہے) سجدوں میں دونوں ہاتھ زمین پر بچھادے، سجدے کی حالت میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ رکھے۔،،

سجدے کےبارےمیں میں چند آثار وارد ہیں جن کی تفصیل  یوں ہے: حضرت علی ﷜ اورحضرت عبداللہ بن عباس﷜ سےمنقول ہےکہ عورت سجدے میں سمٹی رہےاور اپنی رانوں کوملا کررکھے۔

تابعین  میں سے ابراہیم نخعی کہتےہیں کہ اپنی رانوں کوملا کررکھے اوراپنا پیٹ ان کےساتھ ملا لے اورمرد کی طرح اونچا سجدہ نہ کرے۔

تابعین میں سے مجاہد کہتےہیں کہ یہ بات مرد کےلیے مکروہ ہےکہ وہ عورت کے مانتد اپنے پیٹ کورانوں سےملاکر رکھے۔

تابعین میں سے حسن بصری کہتےہیں کہ عورت سجدہ میں سمٹی رہے۔

یہ سارے آثار مصنف ابن ابی شیبہ سےلیے گئے ہیں، اس سے ملتے جلتے قول قتادہ ، اورعطاء سےمنقول  ہیں جن کومصنف عبدالرزاق میں دیکھا جاسکتاہے۔ امام بیہقی نےالسنن الکبری میں پہلے دو آثار ذکر کرنے کےبعد لکھا ہےکہ اس باب میں دو ضعیف احادیث وارد ہیں جن سےاستدلال نہیں کیا جاسکتا،اس کےبعد وعطاء بن العجلان کی سند سےحضرت ابوسعید خدری کی یہ حدیث نقل کرتےہیں جوتین فقروں پرمشتمل ہے:

رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:

(الف) مردوں کی پہلی صفیں بہتریں ہیں اورعورتوں کی آخری صفیں بہتریں ہیں۔

(ب) آپ مردوں کوحکم دیا کرتے تھےکہ سجدے کی حالت میں اپنےہاتھوں کوپہلو سے پھیلا کررکھیں(عربی میں لفظ تجافی مراد ہے)  اورعورتوں کوحکم دیتے تھےکہ اپنے سجدوں میں نیچی رہیں۔ اورمردوں کوحکم دیتے تھےکہ تشہد میں بایاں پاؤں سرین پرپھیلائیں اوردائیاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کوحکم دیتے تھےکہ وہ چار زانو(أن يتربعن)  ہوکؤ بیٹھیں ۔

(ج) اورپھر کہا: اےعورتو! نماز میں اپنی نظریں اوپرنہ اٹھاؤ تاکہ مردوں کےعورت (پوشیدہ اعضاء) پرنظر نہ پڑے۔

امام بیہقی لکھتےہیں کہ اس حدیث کاپہلا اورآخری فقرہ تومشہورہےلیکن بیچ والافقرہ منکر ہے،(یعنی ایسی حدیث جس کاراوی ضعیف ہواور پھر کسی ثقہ راوی کی روایت کےخلاف بیان کرے یا وہ حدیث جس کےراوی میں فاش اغلاط یاانتہائی غفلت یا فسق پایا جائے۔)

اس کےبعد امام بیہقی ابومطیع الحکم بن عبداللہ بلغی کی اسناد سےحضرت ابن عمر﷜  کی یہ حدیث بیان کرتےہیں کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: ’’ جب عورت نماز میں بیٹھے تواپنی ایک ران کودوسری ران پررکھے اورجب سجدہ کرےتو اپنےپیٹ کودونوں رانوں سےچپکا لے کہ اس سے زیادہ سےزیادہ ستر(پردہ) ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھ کرفرماتےہیں: اے فرشتو! میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے اس کی مغفرت کردی۔،،

پھر اس حدیث پرتبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’ ابومطیع اپنی حدیثوں میں ا نتہائی کمزور واقع ہوئے ہیں، ان کی بیان کی ہوئی روایت پردوسرا کوئی شاہد بھی نہیں ملتا۔یحییٰ بن معین نےانہیں ضعیف قرار دیا ہے،اس طرح عطاء بن عجلان بھی ضعیف ہے۔،،

پھر لکھتےہیں : ’ ’ اس بارےمیں ایک منقطع حدیث بھی وارد ہے،(یعنی اس کی سند میں ایک یازائد راوی غائب ہیں )  اوروہ ہےسالم بن غیلان کی روایت بروایت یزید تھیں۔ آپ نےکہا:’’ جب تم سجدہ کروتوزمین کےساتھ اپنےجسم کوچمٹا لیا کرو کیونکہ اس با میں عورت مرد کی مانند نہیں۔،،

اس روایت کےبارےمیں شیخ البانی ﷫ لکھتےہیں:

بیہقی کےکلام سےبظاہر معلوم ہوتاہے کہ اس حدیث میں صرف انقطاع پایا جاتا ہے لیکن اس کا ایک راوی سالم متروک ہےجیسا کہ صاحب میزان نے سنن دارقطنی کےحوالے سے نقل کیا ہے۔( یہ کلام شیخ البانی ﷫ کانہیں ہےبلکہ ابن الترکمانی کا ہے اورشیخ البانی﷫  نےابن الترکمان کاذکر کرکے اس کی تردید کی ہےاورثابت کیا ہےکہ سالم نامی راوی متروک نہیں ہے بلکہ’’ليس به بأس ،،  ہےاور حدیث میں صرف ایک علت ارسال ہی ہےاورپھر  انہوں نےبھی اس حدیث کوضعیف قرار دیا ہے۔دیکھیے :(الضعیفہ :6؍ 163، 164 ،حدیث 2652 ) خلاصہ کلام یہ ہواکہ اول اول تورسول اللہﷺ سےکوئی صحیح حدیث اس باب میں منقول نہیں ہے،دوسرے یہ کہ صحابہ وتابعین کےآثار بھی ضعیف ہیں،اس لیے مرد وعورت کےرکوع اورسجدہ میں تفریق کرنا بلا دلیل ہے۔

’’ عورت تشہد میں دونوں پاؤں داہنی طرف نکال کرسرین پربیٹھے اورہاتھوں کی انگلیاں ملاکر رکھے۔،،

حدیث کی اصطلاح میں دورکعت کےبعد بیٹھنے کی ہیئت کوافتراش کہاجا تا ہے،یعنی دایاں پاؤں کھڑا رکھنا اوربایاں پاؤں موڑ کراس پربیٹھنا۔چاررکعت والی نماز کےآخری تشہد میں احناف کےنزدیک توافتراش کی حالت میں بیٹھا جاتاہے لیکن شافعیہ  کےنزدیک تورک کرنا چاہیے( یعنی بائیں ٹانگ بچھی رہےاور دائیں ٹانگ کےنیچے سےبایاں پیر نکالا جائے اورآدمی اپنے کولھے پربیٹھے۔) تورک کرنے کےبارےمیں دو واضح احادیث حضرت ابوحمید الساعدی صحیح البخاری ، صفۃ الصلاۃ ،حدیث:828،وسنن ابی داؤد، الصلاۃ ، حدیث 730)

  اور عبداللہ بن زبیر ؓ سےمروی ہیں، اس لیے  تورک سنت ہے۔

جہاں تک عورتوں کاتعلق ہےتومندرجہ ذیل آثار ملاحظہ ہوں:

(1)   ابن عمرؓ سےروایت ہےکہ وہ اپنی عورتوں کونماز میں چارزانوں ہوکر بیٹھنےکی ہدایت کرتےتھے۔ لیکن شیخ البانی ﷫ کےبقول یہ روایت عبداللہ بن عمرالعمری کی وجہ سے ضعیف ہے۔

(2)   تابعی مکحول صحابیہ ام ورداء کےبارےمیں روایت کرتےہیں کہ وہ اپنی نماز میں مردوں کی مانند بیٹھتی تھیں اور وہ فقہیہ عورت تھیں۔

(3)  تابعی ابراہیم نخعی کہتےہیں:عورت نماز میں مرد کی مانند بیٹھے۔

(4)  تابعین میں سے قتادہ ، حماد اورعامر شعبی کہتےہیں:ایسے بیٹھےجیسے آسان لگتا ہو۔

(5)   عطاء کہتےہیں:’’ مرد جیسے دورکعت والی نماز میں بیٹھنا ہےعورت ویسے بیٹھے یا اپنی بائیں ٹانگ اپنے کولھے کےنیچے سےنکال کربیٹھے۔یہ بھی کہا: جیسے چاہے بیٹھے مگر سمٹ کربیٹھے۔،،

(6)  صفیہ بنت ابی عبیدہ دور کعت یاچار رکعت والی نماز میں چار زانوں ہوکر بیٹھی تھیں۔

خلاصہ  کلام یہ ہوا کہ چارزانوں ہوکر بیٹھنے والی روایت ضعیف ہے۔

ایک صحابیہ اوراایک تابعی کاقول اصل کےمطابق ہے(یعنی مرد اورعورت کےبیٹھنے میں فرق نہیں ہے) اورچند تابعین اس بات کےقائل ہیں کہ جیسا آسان ہوویسے بیٹھے۔

زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اصل میں تومرد اورعورت کےبیٹھنے میں فرق روا نہیں رکھا گیا(یعنی دورکعت کےبعد حالتِ افتراش اور چاررکعت کےبعد حالت تورک) لیکن اگر  کوئی عورت آسانی کی خاطر دوسری طرح بیٹھے تواس پرنکیر نہیں کرنی چاہیے۔ باقی رہا دائیں ہاتھ کی انگلیاں ملاکر رکھنا توبروایت مصنف  عبدالرزاق ،نبی ﷺ اپنی بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پررکھتے تھےاور اپنی دائیں ہتھیلی کی تمام انگلیاں مٹھی کی شکل میں موڑ کررکھتے تھےاور اپنی شہادت کی انگلی سےاشارہ کیاکرتےتھے۔

اس حدیث سے دائیں اوربائیں ہاتھ کی ہیئت کافرق معلوم ہوتاہے،یعنی دائیں ہاتھ کومٹھی بنا کر اوربائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کررکھتےتھے، انگلیوں کوجوڑ کر رکھے یا کھلارکھے، اس کی تصریح نہیں ہے، نہ مردوں کےلیے نہ عورتوں کےلیے، اس لیے اس ہیئت کوعورتوں کےساتھ مخصوص کرنا بلادلیل ہے۔

15) ’’ نماز میں کوئی واقعہ پیش آجائے تومردوں کی طرح سبحان اللہ نہ  کہے بلکہ تالی بجائے،یعنی دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پرمارے۔،،

ایسا کرنا سہل بن سعد الساعدی سےمروی حدیث سےثابت ہےگواس کاتعلق ہئیت صلاۃ سےنہیں ہے بلکہ یہ ان چیزوں میں داخل ہےجوامام کی غلطی کوٹوکنے کےلیے بطور حادثہ نماز کےدوران میں کی جاتی ہیں۔

(16) مردوں کی امامت نہ کرے۔،،

اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہےکہ لیکن اگرمردوں میں کوئی قاری نہ ہو،جبکہ عورتوں میں قاریہ ہوتو کیا کرئے؟

اس بارےمیں کوئی حدیث یااثر صحابی موجود نہیں لیکن تابعین میں سے قتادہ کہتے ہیں:’’ اگر مرد قاری نہ ہو اور عورتیں اس کےساتھ ہوں تو وہ آگے بڑھ کرامامت کرائے،عورت اس کی پیچھے قراءت کرے، جب وہ تکبیر کہے توعورتیں اس کی تکبیر کےساتھ رکوع اورسجدہ کریں۔

17- 20 ’’ عورتوں کی جماعت مکروہ ہے،جماعت کےساتھ نماز پڑھنا مکروہ ہے، عورتیں کی جماعت ہوتو وسط میں کھڑی ہو، مردوں کی جماعت میں عورتیں پیچھے کھڑی ہوں۔،،

پھلا اوردوسرا جز بلا دلیل ہےجبکہ تیسرا اورچوتھا صحیح ہے۔

احادیث وآثار ملاحظہ ہوں:

(1)   بروایت ریطہ : حضرت عائشہ ؓ عورتوں کی امامت کرتی تھیں اورصف میں ان کےساتھ کھڑی ہوتی تھیں ۔( الطبقات الکبریٰ الابن سعد:8؍ 483، ومصنف عبدالرزاق:3؍141، مصنف ابن ابی شیبہ:2؍89، وسنن الدارقطنی :1؍404، وسنن البیہقی:3؍131،)

(2)  ام سلمہ ؓ کی بابت بھی ایسا ہی منقول ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ 2؍88 )

(3)   رسول اللہ ﷺ نےام ورقہ کےلیے ایک مؤذن  مقرر کردیا تھا جوان کےلیے اذان دیتا تھا اورانہیں حکم دیا تھا کہ وہ اپنےگھر والوں کوفرض نماز پڑھائیں۔ ( سنن ابی داؤد، باب اقامۃ النساء، حدیث:592 ، ومسند احمد:6؍405)

امام کاسانی لکھتےہیں:

’’ فی الجملہ عورت کا نماز کی امامت کرنادرست ہے۔ اگرعورتوں کی امامت کرائے توجائز ہےلیکن ان کےدرمیان کھڑی ہو، چونکہ حضرت عائشہؓ سےمروی ہےکہ انہوں نے عورتوں کوعصر کی نماز پڑھائی(حضرت عائشہ ؓ کانماز عصر پڑھانے کاتذکرہ مجھے نہیں ملا۔ہاں مطلقاً ان کا امات کروانا ثابت ہےجیسا کہ چند روایات قبل اس کی تخریج گزرچکی ہے۔اسی طرح مذکورہ ام سلمہؓ کی آنےوالی روایت کی بھی ابھی تخریج گزری ہے۔) اوران کےدرمیان کھڑی ہوئیں اورام سلمہ نےبھی عورتوں کی امامت کرائی اوران کےدرمیان کھڑی ہوئیں۔ اور یہ اس لیے کہ ا ن کےلیے ستر مطلوب ہےاور اس طرح کرناان کےلیے زیادہ ساتر ہےلیکن ہمارے نزدیک ان کی جماعت مکروہ ہےلیکن امام شافعی کےنزدیک ان کی جماعت مردوں کی جماعت کی طرح مستحب ہےاور اس بارےمیں احادیث بھی مروی ہیں لیکن یہ سب اسلام کےابتدائی زمانے میں تھا۔ عورتوں میں بھی جوان عورتوں کوجماعت کےلیے جانا جائز نہیں،وہ اس لیے کہ حضرت عمر﷜ سےمروی ہےکہ وہ جوان عورتوں کےنکلنے سےروکتے تھے(حضرت عمر﷜ کےخواتین کومسجد جانے سےروکنے کےمتعلق مجھے کوئی روایت نہیں ملی بلکہ آپ کا یہ روکنا ثابت نہیں ہے جیسا کہ عنقریب روایت آرہی ہے) اوراس لیے بھی کہ ان کاجماعت کےلیے نکلناباعث فتنہ ہےاور فتنہ خود حرام ہےاورجو چیز حرام کاباعث ہو وہ بھی حرام ہےلیکن بوڑھی عورتوں کاجماعت کےلیے نکلنا جائز ہے۔،،( بدائع الصنائع:1؍157 )

اس ساری عبارت سےحنفیہ اورشافعیہ کااختلاف ظاہر ہوا۔ ایک کےنزدیک عورتوں کی جماعت مکروہ ہے اوردوسرےکےنزدیک مستحب لیکن درج شدہ احادیث کی روسےعورتوں کی نماز کاجواز ثابت ہوتاہے۔اس بات پرکوئی دلیل نہیں کہ یہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا، پھر منسوخ ہوگیا۔خود عبداللہ بن عمرؓ اس حدیث کےراوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’ اللہ کی بندیوں کواللہ کےگھروں سےنہ روکو، وہ مسجد جائیں لیکن بغیر خوشبوکے۔،، ان کےایک بیٹے بلال نےکہا: ہم تو انہیں ضرور منع کریں گے۔توانہوں نے اسے خوب برابھلا کہااور پھر کہا:میں تمہیں بنیﷺ کی باب بیان کرتا ہوں اورتم کہتےہو کہ ہم انہیں منع کریں گے۔( صحیح البخاری ، صفۃ الصلاۃ ، حدیث:865، مختصراً وصحیح مسلم،الصلاۃ، حدیث: 442 )

ایک آدمی نےانس بن مالک﷜  سےپوچھا: کیا عورتیں رسول اللہﷺ کےساتھ نماز میں حاضر ہوتی تھیں؟ انہوں نےکہا:کیوں نہیں! اوراسی لیے تو رسول اللہﷺ نےارشاد فرمایا: ’’ عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہےاوربدترین صف پہلی صف ہے۔مردو کی بہترین صف اگلی صف ہےاور بدترین صف آخری صف ہے۔،، ( مصنف عبدالرزاق.3؍148 )

جہاں تک حضرت عمر﷜ کےفعل کاتعلق ہےتوامام زہری بیان کرتے ہیں کہ عاتکہ سےکہا کرتےتھے: اللہ کی قسم ! تم جانتی ہوکہ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے۔ انہوں نےکہا:میں اس وقت رکوں گی جب تم مجھے منع کروگے۔حضرت عمر﷜ نےکہا: میں منع نہیں کرتا۔

راوی کہتےہیں: حضرت عمر﷜ کوجس دن شہید کیا گیا وہ مسجد میں تھیں۔(مصنف عبدالرزاق :3؍ 148 . یہ سند منقظع ہےکیونکہ زہری کاعاتکہ یاعمرؓ سےسماع ثابت نہیں ہےلیکن حضرت عمرؓ کاباوجود کراہت کےنہ روکنا ثابت ہے۔ اس کےمتعلق ایک روایت صحیح بخاری(کتاب الجمعہ ، حدیث 900) میں ہےلیکن اس میں حضرت عمرؓ کی بیوی کانام نہیں ہے۔)

البتہ حضرت عائشہ ؓ سےیہ بھی مروی ہےکہ اگر رسول اللہﷺ آج عورتوں کی حالت دیکھتے تو انہیں باہر نکلنے سےمنع کردیتے۔،،(مسند احمد:6؍ 232،ومصنف ابن ابی شیبہ:2؍383، ومصنف عبدالرزاق:3؍149، ومسنداسحاق بن راھویہ : 2؍109)

اس قول سے حضرت عائشہ ؓ کی خواہش کااظہار ہورہاہےاوراس میں کوئی شک نہیں کہ اگرعورتیں بن سنور کرآئیں تویقیناً ان کا نہ صرف مسجدوں میں آنا بلکہ بازاروں میں جانا بھی صحیح نہیں ہوکا، البتہ اگرڈھیلے ڈھالے لباس میں،باحجاب ہوکر، بغیر خوشبولگائے آئیں توانہیں روکنا بھی صحیح نہیں ہے۔

لیکن کیا یہ عجب تماشا ہےکہ ایک طرفت توعورتوں کوبربنائے فتنہ مطلق مسجد میں آنے سےروکا جائےلیکن وہی عورت دوکان کےاندر، بلا حجاب سیلزمین کی حیثیت سےکھڑی نظر آئے توپیشانی پرشکن تک نہ آئے!!

21۔ ’’ جمعہ عورت پرفرض نہیں لیکن پڑھ لے توصحیح ہوگا۔،،

یہ بات صحیح ہےکہ عورتوں پرجمعہ فرض نہیں ہے لیکن اگرپڑھ لےتوبقول عبداللہ بن مسعود، حسن بصری ابراہیم نخعی اورقتادہ وغیرھم جائز ہوگا۔

22۔ ’’عید کی نماز واجب نہیں ۔،،

بہتر تھاکہ یہ بھی بتادیا جاتاکہ عیدین میں ان کاآنا مستحب ہے۔

بخاری ومسلم دونوں ام عطیہ ؓ کی یہ روایت نقل کرتےہیں:’’ رسو ل اللہﷺ نےہمیں حکم دیا تھاکہ ہم عیدین میں لڑکیوں اورحائضہ عورتوں کوبھی لائیں تاکہ وہ خیر کےاس کام میں حاضر رہیں اورمسلمانوں کی دعا میں شریک رہیں لیکن حائضہ عورتیں مصلے سےدور رہیں۔،،

اس روایت کوامام ابوحنیفہ سےمنسوب مسنداحمد امام اعظم(بترتیب صدرالدین موسیٰ بن زکریا حصکفی) میں بھی جگہ ملی ہے۔

ابن عباس﷜ سےروایت ہےکہ رسول اللہﷺ اپنی بیویوں اوربیٹیوں کوعید میں لایاکرتے تھے۔

ابن عباس ؓ کی دوسری روایت ہےکہ میں عیدالفطر یاعیدالاضحیٰ کےموقع پررسول کےساتھ نکلا ۔آپ نےنماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا، پھر عورتوں کےپاس آئے،انہیں وعظ ونصیحت کی اور انہیں صدقہ دینے کا حکم دیا۔،،

23۔ ’’ عورت ایام تشریق میں تکبیربلند آواز سےنہیں پڑھ سکتی۔،،

اس جز کاتعلق نماز سےنہیں ہے۔ ایام تشریق (11- 12- 13 ذوالحجہ )( میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اورنمازوں کےبعد تکبیرات پڑھی جاتی ہیں۔ عورتیں جیسے عمرہ وحج کےاحرام کےدوران تلبیہ دھیمی آواز میں پڑھتی ہیں ویسے ہی انہیں تکبیرات بھی اتنی آواز سے کہنی چاہئیں کہ ایک عورت کہے تودوسری اسےسن سکے۔

24۔ ’’عورت کونماز فجر اجالےمیں پڑھنا مستحب نہیں۔،،

فجر کی نماز کااول وقت میں پڑھنا مردو عورت دونوں کےلیے یکساں ہے۔افضل ہےکہ نماز اول وقت میں پڑھی جائے۔ سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ہم مومن عورتیں نبی ﷺ کےساٹھ صبح کی نماز میں اپنی اوڑھنیوں میں لپٹی ہوئیں، حاضر ہوا کرتی تھیں۔

نماز کےختم ہونے کےبعد اسی حالت میں اپنے گھر لوٹتی تھیں کہ اندھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔گویا مسجد میں فجر منہ اندھیرے پڑھی جاتی تھی  جس میں مردو عورت دونوں شامل ہوتے تھے۔

25۔ ’’ عورت کوجہری نماز میں بلند آواز سےقراءت جائز نہیں، بعض کےنزدیک اس سےنماز فاسد ہوجاتی ہے۔،،

یہ بات بھی بلا دلیل لکھی گئی ہے۔ عورت یاتو انفرادی  نماز پڑھے گی اوریامردوں کی جماعت کےساتھ اورپھر عورتوں کی جماعت کےساتھ۔

مردوں کی جماعت میں تومرد ہی قاری ہوگااور اگر عورتوں کی نماز علیحدہ سے ہورہی ہوتوجہری نماز میں بہرصورت عورتوں کی امام  عورت قراءت کرے گی اوریہ قراءت صرف عورتوں کےلیے ہوگی، اس لیے اس میں اونچی اورنیچی قراءت کی تفریق بےمعنی ہےاوراگر انفرادی نماز پڑھ رہی ہے تومردوں کی انفرادی نماز کی طرح اسے اختیار ہے، چاہے تو جہری قراءت کرے یاسری۔

26۔ پہلے بیان ہوچکاہے۔

27۔ عورت اذان نہ دے اورنہ مسجد میں اعتکاف کرے ۔،،

اس ضمن میں دونوں طرح کےآثار ملتےہیں۔

صحابہ میں سے حضرت علی﷜ اورتابعین میں سے عطاء، حسن بصری، سلیمان، زہری ،مجاہد اورضحا ک کہتےہیں کہ عورتوں کےلیے، اذان اوراقامت دونون مشروع نہیں ہیں۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ :1؍ 222- 223 ، مصنف عبدالرزاق (3؍127 ) اس میں جہاں تک سلیمان کےقول کاتعلق ہےتو اس کےبیان میں ڈاکٹر صاحب سےخطا ہوئی ہے۔ یہ سلیمان کاقول  نہیں ہےبلکہ سلیمان حضرت انس﷜ کاقول نقل کرتےہیں کہ ہم ان سے پوچھتے تھے کہ کیا عورتوں  پربھی اذان واقامت ہے تووہ فرماتے: نہیں ! اور اگروہ اذان واقامت کہہ لیں تویہ ذکر ہوگا۔(مصنف ابن ابی شیبہ :1؍ 223)

دوسری طرف صحابہ میں سے جابر، ابن عمراورعائشہ ﷢ عورتوں کےلیے اذان اوراقامت کےقائل ہیں،تابعین میں سے طاؤس، کیسان، حفصہ بنت سیرین اورسالم بھی ان کےہمنواہیں، اس لیے اس امر میں وسعت ہے۔

جہاں تک اعتکاف کاتعلق ہےتواعتکاف اصلاً مسجد ہی میں کیاجاتاہے﴿ وانتم عٰكفون فى المساجد﴾

حضرت عائشہ ؓ سےمروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ کےساتھ ان کی بعض بیویوں نےاعتکاف کیا، اوراستحاضہ کی حالت میں تھیں اوربعض اوقات اپنےنیچے بڑا سابرتن رکھتی تھیں۔

امام شوکانی ﷫ اس حدیث کی شرح میں لکھتےہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہےکہ مستحاضہ عورت مسجد میں ٹھہرسکتی ہے،اس کا اعتکاف اورنماز دونوں درست  ہیں اوراگر مسجد کےملوث ہونے کااندیشہ نہ ہوتو ایسی عورت کااپنی ناپاکی کےساتھ مسجد میں رہنا جائز ہےاوریہی حکم ہےاس شخص کاجس کاناپاکی دائم ہویا جس کےزخم سےخون بہہ رہاہو۔

الحمد للہ اس موضوع کی تمام جزئیات کااحاطہ ہوگیا اور یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ مذکورہ 27 باتوں میں سے کون سی بربنائے دلیل جائز ہیں اور کون سی بلادلیل ہیں۔ واللہ الموفق ۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ