سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) تمیمہ کا بیان

  • 2335
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2901

سوال

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں پر سال یعنی عیسوی سال کے ابتدا میں ہماری فیکٹری کے مالک ایک فروٹ کیک لاتے ہیں اور اس میں یہاں کی کرنسی کا ایک سکہ ہوتا ہے اور اسے اتنے حصوں میں کاٹتے ہیں جتنے ملازم کام کرتے ہیں اور اس پر سب سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کا نام ، پھر مریم علیہا السلام کا نام یا سلام اللہ علیہ ، پھر مالک اپنے دو بھائیوں کے نام ، پھر بالترتیب سینئر سے جونیئر ملازمین کے نام ایک صفحہ پر لکھ لیتے ہیں۔ پھر اس فروٹ کیک جو کہ اچھا سال گزرنے کے لیے کاٹتے ہیں اس کو گھماتے ہیں۔ اصل مقصد کیک کاٹنے کا یہ ہوتا ہے کہ جو سال شروع ہوا ہے وہ اچھا گزرے، پھر ٹوٹل جو نام ہوتے ہیں اتنے ہی کیک کے حصے کرلیتے  ہیں ، پھر بالترتیب کاٹنا شروع کردیتے ہیں اور جس کے نام سے کیک کے حصے سے سکہ نکلتا ہے اسے خوشی سے پاکستانی کرنسی میں 16000، سولہ ہزار روپیہ ملتا ہے ، اس کام میں ملازمین کا کچھ خرچ نہیں ہوتا ہے۔ کیا یہ رقم لینا جائز ہے؟  

____________________________________________________________________________

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو طریقہ آپ نے تفصیل سے لکھا وہ از قسم تمیمہ ہے۔ (۱) جو شرعاً ناجائز ہے۔ البتہ اس فروٹ کیک والی رسم کے بغیر بذریعہ قرعہ اندازی فیکٹری والے ملازمین کو پیسے دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں خلاف شرع کوئی چیز شامل نہ ہو۔

۱:…رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیْمَة فَلاَ اَتَمَّ اللّٰہُ لَه وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَة فَلاَ وَدَعَ اللّٰہُ لَه » 

’’ جس نے کوئی تمیمہ لٹکایا اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جس نے سیپ باندھی اللہ تعالیٰ اسے بھی آرام اور سکون نہ دے۔‘‘ [مسند احمد:۴؍۱۵۴]

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:

«مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیْمَة فَقَدْ أَشْرك»

’’ جس نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔‘‘ [مسند احمد:۴؍۱۵۶]

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ اے محمدﷺ! آپ ان سے کہہ دیجئے تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ کے علاوہ تم جن کو پکارتے ہو کیا وہ اس نقصان کو ہٹاسکتے ہیں؟ یا مجھ پر اللہ مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکتے ہیں؟ آپ کہہ دیجیے مجھے تو اللہ ہی کافی ہے، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 09 ص 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ