سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(374) غیر اللہ کے نام پر وقف کی شرعی حیثیت

  • 23139
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1406

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک زمیندار (بھیلو خندکار ) نے مثلاً اٹھارہ بیگہ زمین کو ایک پیر صاحب کی درگاہ  کے لیے وقف کیا اس میں پیر صاحب کی نقلی قبر ہے اور ایک شخص کو(یعنی ملتان شاہ کو) اس کا متولی بنایا اور اس سے کہا کہ اس زمین سے جو کچھ خزانہ آمدنی ہوگی اس درگاہ میں خرچ کرنا یعنی چراغ روشن کرنا درگاہ کی مرمت کرنا اور شیرینی اور فاتحہ وغیرہ ادا کرنا ان سب کاموں کے ادا کرنے کے بعد جو کچھ روپیہ وغیرہ بچ رہے سال پورا ہونے پر فقراء اور مسکینوں کو کھلادینا ملتان شاہ ان سب شرائط کو قبول کر کے درگاہ کی خدمت کرنے چلے آئے لیکن ملتان شاہ نے لاوارث ہونے کے سبب سے ایک لڑکا پالا تھا بنام اوجل فقیر لہٰذا ملتان شاہ نے مرتے وقت اپنے لے پالک بیٹا اوجل فقیر کو درگاہ مذکور کا متولی بنایا بشرائط مذکورہ اوجل فقیر کے پوتا گلاب فقیر نے اسی زمین پر ایک کچی مسجد بنوائی اور وہ مسجد ستر یا اسی برس سے اس زمین پر ہے۔

اب گلاب فقیر کے دونوں پوتوں نے اس مسجد کو پختہ بنوایا اوردس کٹھہ زمین کو ان دونوں بھائیوں نے اس مسجد پر وقف کیا۔ بعد اس کے دونوں بھائیوں نے باقی زمین کو آپس میں بانٹ لیا۔ ایک نے مثلاً آٹھ بیگہ اور دوسرے نے مثلاً دس بیگہ اب دونوں بھائیوں کویہ بات معلوم ہو گئی کہ جو چیز غیر اللہ کے نام پر پکاری جائے وہ چیز مطلق حرام ہے اس سبب سے ایک بھائی نے جس کا حصہ مثلاً دس بیگہ ہے اس نے اپنے حصہ کی دس بیگہ زمین کو پیر کے نام کی نیت کو بدل کر کے اللہ تعالیٰ کے نام پر دے دیا یعنی مسجد مذکورکے لیے وقف کردیا اور کہا کہ یہ دیں بیگہ زمین غیر کو اجارہ پر دینے سے جو خزانہ سالانہ وصول ہوگا اتنا روپیہ ہر سال ہم مسجد مذکور میں خرچ کریں گے اور درگاہ کی خدمت اور نیاز اور فاتحہ وغیرہ سے باز رہا اور ایک بھائی نے جس کا حصہ مثلاً آٹھ بیگہ ہے اس نے کل زمین کو اپنے قبضہ میں رکھا اور اس کی آمدنی سے اپنی اوقات بسری کرتا ہے اور درگاہ کی مرمت اور تیل بتی وغیرہ دیتا اور جو خدمت ضروری ہے سب ادا کرتا ہے اور جو جانداریا بے جان پیر کے نام سے درگاہ میں دی جاتی ہے وہ سب چیز وہ کھاتا ہے پس اس صورت میں بموجب پٹہ اور قبولیت کے زمین کی آدمی اپنے کام میں صرف کر سکتا ہے یا نہیں اور جو چیز پیر کے نام میں مشہور کی جائے یعنی پیر کے نام سے پکار کر درگاہ میں دے تو وہ چیز حرام ہے یا نہیں اور پیر کے نام کی زمین میں جو مسجد ہے اس پیر کے نام کی نیت کو بدل کر زمین کو اللہ تعالیٰ کے نام پر دیا یعنی مسجد مذکور میں وقف کیا تو اس مسجد میں نماز جائز ہوگی یا نہیں؟موافق کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اقوال صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  وآئمہ مجتہدین و فقہا راسخین کے جواب بالصواب عنائت فرمائیں۔

خلاصہ اس کا یہ ہے کہ متولی کے پوتے کے دونوں بیٹوں نے پیر صاحب کے نام پر جو زمین تھی اس کی نیت بدل کر کے اللہ تعالیٰ کے نام پر دیا اور یہ نیت کا بدلنا طبقہ سادس میں واقع ہوا تو ان لوگوں کا نیت کو بدلنا صحیح ہے یا نہیں اور وہ زمین پاک ہوسکتی ہے یا نہیں اور اس مسجد میں نماز جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ وقف شرعاً صحیح نہیں ہے نہ ازروئے فقہ نہ ازروئے حدیث یہ وقف ازروئے فقہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ شرائط صحت وقف میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ وقف قربت فی ذاتہ ہو یعنی ایسا وقف ہو جس کو شرع شریف نے قربت قرار دیا ہو۔ درمختار میں ہے۔

"وشرطه(اي شرط الوقف) شرط سائر  التبرعات كحرية وتكليف وان يكون قربة في ذاته"[1]

(اور اس کی یعنی وقف کی شرط تمام تبرعات کی شرط کی طرح ہے جیسے حریت اور تکلیف یزیہ کہ وہ فی ذاتہ قربت ہو)

"رد المختار "(26/3) میں ہے۔

"قوله:وان يكون قربة في ذاته اي بان يكون من حيث النظر الي ذاته وصورته قربة والمراد ان يحكم الشرع بانه لو صدر من المسلم يكون قربة حملا علي انه قصد القربة"

(ان کے اس قول وان يكون قربة في ذاته کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات اور صورت کے اعتبار سے قربت ہو اس سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے یہ حکم لگایا ہو کہ اگر وہ(وقف ) کسی مسلمان کی طرف سے ہوا ہے تو وہ قربت ہو اس بات پر محمول کرتے ہوئے کہ اس (واقف) نے قربت کی نیت وارادہ کیا ہے)

یہ وقف جس کو بھلو خندکار نے پیر صاحب کی درگاہ کے لیے کیا ہے اس میں پیر صاحب کی نقلی (جھوٹی) قبر ہے جس پر جہلا روشنی کرتے اور شیرینی وغیرہ چڑھاتے اور فاتحہ کرتے ہیں بھیلو خندکار نے اس وقف کے مصارف یہی ناجائز امور قرارد یے ہیں اور اگر اس درگاہ میں بجائے نقلی قبر کے پیر صاحب کی اصلی قبر ہوتی تو بھی وہاں ان افعال کا کرنا جائز نہ ہو تا چہ جائیکہ اس درگاہ میں جھوٹی قبر پیر صاحب کی ہے۔

"ردالمختا"337/2)میں ہے۔

"اما لو نذر زيتا لا يقاد قنديل  فوق ضريح الشيخ او في المنازة كما يفعل النساء من نذر الزيت لسيدي عبدالقادر ويوقد في المنارة جهة المشرق فهو باطل"

(اگر اس نے شیخ کے مزار یا منار پر چراغ جلانے کے لیے تیل کی نذرمانی جیسے عورتیں سیدی عبد القادر  رحمۃ اللہ علیہ   کے لیے تیل کی نذر مانتی ہیں اور اسے مشرق کی جانب والے منار میں روشن کیا جا تا ہے تو یہ باطل اور مردودہے)

اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اگر اصلی قبر پر بھی یا اس کے منارہ پر چراغاں کریں تو باطل اور ناجائز ہے پس جب یہ افعال ناجائز اور معصیت ہیں تو یہ وقف جو درگاہ مذکورہ کے لیے واسطے افعال ناجائز اور معصیت مذکورہ کے کیا گیا ہے قربت نہیں ہے اور جب وقف مذکور قربت نہیں تو شرعاً صحیح بھی نہیں ہے۔

"لفوات شرط صحته وهو كونه قربة كما  تقدم"

اگر ذرا بنظر غور دیکھیں تو یہ درگاہ اور یہ نقلی قبر جس پر جہال مذکورہ بالا افعال بجالائے ہیں بیعہ اور کنیسہ یا  بیت النار کے حکم میں ہے جس پر وقف محض باطل اور ناجائز ہے فتاوی عالمگیری(299/3) میں ہے۔

"ومنها ان يكون قربة في ذاته وعند التصرف ف لا يصح وقف المسلم اوالذمي علي البيعة والكنيسة او علي فقراء اهل الحرب كذا في النهر الفائق ولو وقف الذمي داره علي بيعة او كنيسة او بيت نار فهو باطل كذا في الميحيط وكذا علي اصلاحها ودهن سراجها"

(ان (شرائط ) میں سے ایک یہ ہے کہ وہ (وقف) فی ذاتہ اور عند التصرف قربت ہو۔ پس مسلمان یا ذمی کا بیعہ کنیسہ یا اہل حرب کے فقراپر وقف کرنا درست نہیں ہے النہر الفائق میں یوں ہی ہے۔ اگر کوئی ذمی اپنا گھر بیعہ کنیسہ یا آتش خانے کے لیے وقف کرے تو یہ باطل ہے المحیط میں بھی ایسے ہی ہے۔ایسے ہی ان کی تعمیر و ترقی اور چراغ کے لیے تیل پر (مال وغیرہ وقف کرنا)

وقف مذکور ازروئے حدیث اس لیے صحیح نہیں ہے کہ بیان مذکور بالا سے معلوم ہوا کہ وقف مذکور قربت نہیں ہے بلکہ معصیت ہے پس وقف مذکور خلاف قانون شرع شریف ہے اور جو امر کہ خلاف قانون شرع شریف ہو وہ امر مردود اور باطل ہے پس وقف مذکور مردود باطل ہے صحیح مسلم میں مرفوعاًمروی ہے :

مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا هذا فهو رَدٌّ [2]

یعنی جو شخص کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے حکم (قانون ) کے خلاف ہو تو وہ کام مردود اور باطل ہے۔

فتح الباری (580/2)میں ہے۔

"فيحتج به(اي بهذا  الحديث) في ابطال جميع العقود المنهية وعدم وجود ثمر اتها المترتبة عليها وفيه رد المحدثات وان النهي يقتضي الفساد لان المنهيات كلها ليست من امر الدين فيجب ردها"

تمام ممنوع معاہدات کو باطل قراردینے اور ان پر مرتب ہونے والے ثمرات کے عدم و جود کے لیے اس حدیث سے حجت لی جاتی ہے اس میں محدثات کے رد کی بھی دلیل موجود ہے اور وہ اس طرح کہ کسی چیز سے نہی اس کے غلط اور فاسد ہونے کا تقاضا کرتی ہے کیوں کہ جتنی منہیات ہیں وہ امر دین نہیں ہیں لہٰذا ان کا رد کرنا واجب ہے)

نیز جب وقف مذکور قربت نہیں ہے تو لوجہ اللہ بھی نہیں ہے اور جب لوجہ اللہ نہیں ہے تو یہ مثل اس عتاق کے ہوا جو لوجہ اللہ نہ ہو اور عتاق جو لوجہ اللہ نہ ہو باطل اور مردود ہے پس اسی طرح وقف مذکوربھی کہ لوجہ اللہ نہیں ہے مردوداور باطل ہے صحیح بخاری میں ہے

"لاعتاقة الا لوجه الله"[3]

(لوجہ اللہ ہی آزاد کرنا جائز ہے)

فتح الباری(جز501/2)میں ہے۔

"وفي الطبراني من حديث ابن عباس رضي الله عنه مرفوعاً:لا عتاق الا لوجه الله"[4]

(طبرانی میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرفوعاً مروی ہے کہ صرف لوجہ اللہ ہی آزاد کرنا جائز ہے)

جب ثابت ہوا کہ وقف مذکور شرعاً صحیح نہیں نہ ازروئے فقہ ونہ ازروئے حدیث تو یہ زمین جس کو بھیلو خندکار نے ناجائز و قف کیا تھا خود خند کار کی ہی ملک رہی پھر اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کی ملک ہوگئی پس متولی وقف مذکور بلا اجازت مالک زمین کے نہ اس زمین کی آمدنی اپنے کام میں صرف کر سکتا ہے اورنہ اس زمین میں مسجد بنا سکتا ہے ہاں اگر مالک زمین از سر نو متولی کو اس زمین کا مالک بنائے تو متولی اس صورت میں مسجد بھی بنا سکتا ہے اور دیگر جائز تصرفات بھی کر سکتا ہے۔


[1]الدر المختار مع ردالمختار (341/4)

[2] صحیح البخاری معلقاً قبل الحدیث (6918)صحیح مسلم رقم الحدیث (1718)

[3] یہ الفاظ صحیح بخاری کے ایک ترجمہ باب سے ماخوذ ہیں۔

[4] المعجم الکبیر للطبراني(30/11)حافظ نورالدین ہیثمی فرماتے ہیں "رواہ الطبراني وفیه احمد بن سعید بن فرقد وھوضعیف"(مجمع الزوائد)نیز دیکھیں السلسلہ الضعیفة رقم الحدیث (4807)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الوقف،صفحہ:586

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ