سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(363) بیوی سے 12 سال تک کلام نہ کرنا

  • 23128
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 585

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کو نکاح کیے ہوئے تقریباً بارہ برس ہوئے،اس نے اپنی بیوی سے اب تک کچھ کلام وغیرہ نہیں کیا اور اس کے نان ونفقہ کی بھی خبر گیری نہیں کرتا،اس سے لوگوں نے بارہا کہا کہ تو اپنی بیوی سے کلام وغیرہ نہیں کرتا اور اس کے نان ونفقہ کی خبر نہیں لیتا تو اس کی طلاق ہی دےدے،اس پر بھی اس نے کچھ توجہ نہیں دی۔اب اس کی بیوی کے والدین چاہتے ہیں کہ یا تو زید اپنی بیوی سے معاملہ دنیوی رکھے اور نان ونفقہ دے یاطلاق دےدےتو اس پر موافق شرع شریف کے کس طرح عمل کیاجائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں زید کی بیوی حاکم کے یہاں اس مضمون کا استغاثہ دائر کرے کہ میرے خاوند(زید) کو حکم دیا جائے کہ یا تو میرے حقوق ادا کرے یامجھے طلاق دےدے،تاکہ میں دوسراعقد کرکے اپنی زندگی بسر کروں اوراگر زید مفت طلاق نہ دے اور معاوضہ طلب کرے اور اس کی بیوی طلاق کا معاوضہ دے سکتی ہوتو حاکم  بمعاوضہ طلاق دلوادے۔اگر زید اس پر بھی راضی نہ ہوتو اگر ممکن ہو کہ حاکم فریقین کے لوگوں میں سے  ثالث مقرر کرکے اس مقدمہ کو ان ثالثوں کے سپردکرے تو کرے،پھر وہ ثالثین نیک نیتی سے دونوں کےحق میں جوفیصلہ بہتر جانیں کردیں اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہ ہوتو حاکم ان دونوں میں تفریق کرادے اور بعد تفریق اگر عورت چاہے  تو اس کا  دوسرا نکاح کرادیا  جائے۔

﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعروفِ ...﴿٢٢٨﴾... سورة البقرة

’’عورتوں کے مردوں پر اتنے ہی حقوق ہیں،جتنے مردوں کے عورتوں پر ہے۔‘‘

﴿وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ...﴿١٩﴾... سورة النساء

’’اور ان سے بھلے طریقے سے زندگی گزاردو۔‘‘

"عن حكيم بن معاوية القشيري عن أبيه قال : ( قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ ؟ قَالَ : أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ"[1]الحدیث

"میں نے عرض کی:اے اللہ کےرسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’جب  خود کھاؤ تو ان کو بھی کھلاؤ اور جب خود  پہنو توا ن کو بھی پہناؤ‘‘

"قال في سبل السلام(٧٨/٢)دل الحديث علي وجوب نفقة الزوج وكسوتها "

’’سبل السلام(125/2) میں ہے کہ یہ دلیل ہے کہ عورت کا روٹی کپڑا مرد کے ذمے واجب ہے‘‘

عن جابر رضي الله عنه في حديث الحج بطوله قال في ذكر النساء:((ولهن عليكم ر زقهن وكسوتهن بالمعروف))[2](اخرجہ مسلم)

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:" اور تمھارے ذمے ان(عورتوں) کو اچھے طریقے سے کھلانا اور پہنانا ہے‘‘

"قال في سبل السلام(١٢٥/٢) وهو دليل علي وجوب النفقة والكسوة للزوجة كما دلت له الآية"

یہ (حدیث) بیوی کے لیے نفقے اور لباس کے وجوب کی دلیل ہے،جس طرح آیت بھی اس پر دلالت کر تی ہے۔

"حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ) تَقُولُ المَرْأَةُ : إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِي ، وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِي"[3] رواه الدارقطني واسناده حسن"[4]

’’اوپر والا ہاتھ(خرچ کرنے والا) نیچے والاہاتھ(مانگنے والے) سے بہتر ہے،تم میں سے کوئی(خرچ کی) ابتدا اس سے کرے جس کی کفالت کاوہ ذمہ دار ہے۔اس کی بیوی کہتی ہے:مجھے کھانے پینے کو دو،وگرنہ مجھے طلاق دے دو‘‘دار  قطنی نے اسے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔‘‘

"قال في سبل السلام(١٢٦/٢) واستدل علي ان لزوجة اذا اعسر زوجها بنفقتها طلب الفراق"

اس میں دلیل ہے کہ جب خاوند خرچ نہ دے سکے تو وہ اس سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے‘‘

"عن عمر عند الشافعي عبدالرزاق وابن المنذر انه كتب الي امرا الاجناد في رجال  غابوا عن نسائهم اما ان ينفقوا واما ان يطلقوا ويبعثوا نفقة ما حبسوا[5]اخرجه الشافعي ثم البيهقي باسناد حسن قال في سبل السلام (١٢٨/٢) فيه دليل علي انها عند عمر رضي الله عنه لا يسقط النفقة بالمطل في حق الزوجة وعلي انه يجب اهد الامرين علي الازواج الانفاق اوالطلاق"

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ عبدالرزاق اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے لشکروں کے امرا کو ان مردوں کے بارے میں خط لکھا،جواپنے پیچھے بیویاں چھوڑ کر گئے ہوئے ہیں کہ یا تو وہ ان کو نفقہ دیں یا پھر ان کو طلاق دےدیں اور ساتھ اس مدت کا بھی نفقہ دیں،جتنی مدت انھوں نے اپنی بیویوں کو روک کررکھا ہے‘‘ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ   نے اسے روایت کیا ہے،اس میں دلیل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نزدیک دیر ہوجانے کی وجہ سے بیوی کا خرچ ساقط نہیں ہوجاتا اور خاوند پر فرض ہے کہ یا توعورت کو خرچ دے یا اسے طلاق دے۔

﴿وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا...﴿٢٣١﴾... سورة البقرة

’’اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو اور  زیادتی نہ کرو‘‘

"عن ابن عباس ، أن امرأة ثابت بن قيس بن شماس أتت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله ، ثابت بن قيس ما أعتب عليه في خلق ولا دين ، ولكني أكره الكفر في الإسلام . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أتردين عليه حديقته ؟ قالت : نعم ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اقبل الحديقة وطلقها تطليقة ". [6]رواہ البخاری)

’’عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی۔ یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   ! میں اس (اپنے خاوند ) کے دین اور اخلاق (کی کسی خرابی) کی وجہ سے ناراض نہیں لیکن مجھے مسلمان ہوتے ہوئے (خاوند کی) ناشکری کرنا اچھا نہیں لگتا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : کیا تم اسے اس کا باغ واپس دے دو گی؟‘‘اس نے کہا جی ہاں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے(ثابت کو) حکم دیا کہ اس (اپنی بیوی) سے باغ واپس لے لیں اور اسے طلاق دے دیں۔‘‘ اس کو بخاری نے روایت کیا ۔

"قال في سبل السلام(ص:٩٣) فيه دليل علي شرعية الخلع وصحته وانه يحل اخذ العوض من المراة"

سبل السلام(ص:93) میں ہے،اس میں دلیل ہے کہ خلع مشروع اور صحیح ہے اور عورت سے عوضانہ  میں مال واپس لےلینا جائز ہے"

﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها إِن يُريدا إِصلـٰحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَينَهُما ...﴿٣٥... سورة النساء

’’اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کےگھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو،اگروہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت  پیدا کردے گا۔‘‘

"وقد ثبت في الفسخ بعدم النفقة ما أخرجه الدارقطني والبيهقي من حديث أبي هريرة مرفوعا قال : [ قال رسول الله صلى الله عليه و سلم في الرجل لا يجد ما ينفق علي امراته ((يفرق بينهما))[7]اخرجه الشافعي وعبدالرزاق عن سعيد بن المسيب وقد ساله عن ذلك فقال يفرق بينهما فقيل له:سنة؟فقال نعم‘سنة"

(عدم نفقہ کی وجہ سے نکاح کے فسخ کیے جانے کا ثبوت اس حدیث سے ملتا ہے جسے امام دارقطنی اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے ابو ہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس آدمی کے متعلق فرمایا جس کے پا س اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے لیے مال  نہیں ہے ان دونوں کے درمیان جدائی کردی جائے"اس حدیث کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور عبد الرزاق  رحمۃ اللہ علیہ  نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے کسی آدمی نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ سنت ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں یہ سنت ہے)

"قال في سبل السلام(١٢٧/٢) ومراسيل سعيد معمول بها لما عرف من انه لا يرسل الا عن ثقة قال الشافعي والذي يشبه ان يكون قول سعيد سنة رسول الله صلي الله عليه وسلم"

’’سبل السلام(127/2) میں ہے کہ سعید کی تمام مرسل حدیثیں مقبول ہیں ،کیوں کہ وہ صرف ثقہ لوگوں ہی سے روایت کرتے ہیں۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا:سعید جب ’’سنت‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مراد رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہوتی ہے‘‘

" وفيه ايضاً(١٢٧/٢)وقد اخرج الدارقطني والبيهقي من حديث ابي هريرة مرفوعاً بلفظ قال رسول الله صلي الله عليه وسلم في الرجل لا يجد ما ينفق علي امراته قال:(يفرق بينهما")

’’امام دارقطنی اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرفوعاً ان الفاظ میں روایت کی  ہے:رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس شخص کے متعلق فرمایا،جسے اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے لیے مال میسر نہ ہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ ان کے درمیان جدائی کرادی جائے۔"اسے دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ   اور بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ   نے روایت کیا ہے‘‘


[1] ۔اخرجہ احمد(446/4) والنسائي وابوداؤد وابن ماجہ وعلق البخاري بعضہ وصححہ ابن حبان(سبل السلام:78/2) ابو سعید محمد شرف الدین۔

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1218)

[3] ۔سنن دار قطنی(295/3)

[4] ۔سنن دارقطنی(295/3)

[5] ۔بلوغ المرام رقم الحدیث(1159)

[6] صحیح البخاري رقم الحدیث(4971)

[7] ۔مسند الشافعی(1273)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:571

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ