سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(327) ایک اور ایک جگہ تین طلاقیں

  • 23092
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 554

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو ایک وقت اور ایک جلسہ میں تین طلاق دیں۔ بعدہ زید نے یہ سمجھ کر کہ گو میں نے تین طلاق آنِ واحد میں سنت کے خلاف دی ہیں، لیکن اصل مسئلہ میں ایک طلاق واقع ہوئی ہے، لہٰذا اس نے پھر رجوع کر لیا، اس صورت میں بعض اشخاص زید پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زوجہ تیری طالق ہوگئی ہے ، بغیر حلالہ کے رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا تحریر فرمائیے کہ ازروئے شرع شریف کے رجوع کرنا زید کا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زید نے جس طریق سے طلاقیں دیں ہیں، یہ ناجائز طریق ہے۔ ایک وقت میں دو یا تین طلاقیں دینا سخت ممنوع ہے، لیکن صورتِ مسؤل عنہا میں ایک ہی طلاق واقع ہوئی، جس میں رجوع کرنا زید کا جائز ہے۔ ہاں جب تین طلاقیں اس طرح دی جائیں کہ اولاً صرف ایک طلاق دے اور عدت کے اندر رجوع کر لیا یا عدت کے اندر رجوع نہیں کیا، لیکن بعد انقضاے عدت کے بتراضی طرفین پھر سے نکاح کر لیا۔ پھر کبھی کسی ضرورت سے دوسری طلاق دے دی اور اس سے بھی عدت کے اندر رجوع کر لیا یا بعد انقضاے عدت بتراضی طرفین پھر سے نکاح کر لیا۔ پھر کبھی ضرورت پیش آئی تو تیسری طلاق دے دی تو اب اس تیسری طلاق کے بعد وہ عورت اس طلاق دینے والے شوہر کے لیے بغیر باضابطہ حلالہ (حقیقی دوسرا نکاح) کے کسی طرح حلال نہیں ہوسکتی۔

﴿الطَّلـٰقُ مَرَّتانِ فَإِمساكٌ بِمَعروفٍ أَو تَسريحٌ بِإِحسـٰنٍ...﴿٢٢٩﴾... سورة البقرة

(یہ طلاق (رجعی) دوبار ہے پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے)

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمسِكوهُنَّ بِمَعروفٍ أَو سَرِّحوهُنَّ بِمَعروفٍ وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ...﴿٢٣١﴾... سورة البقرة

"اور جب تم  عور توں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو،یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو ،تاکہ ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے،سو بلا شبہ اس نے اپنی جان پر ظلم کیا"

’’حدثنا عبد  الله حدثني أبي حدثنا سعد بن إبراھیم حدثنا أبي عن محمد بن إسحاق حدثني داود بن الحصین عن عکرمة مولیٰ ابن عباس عن ابن عباس قال: طلق رکانة بن عبد یزید أخو بني مطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا قال: فسألہ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( کیف طلقتھا؟ )) قال: طلقتھا ثلاثا۔ قال: فقال: (( في مجلس واحد؟ )) قال: نعم، قال: (( فإنما تلک واحدة، فارجعھا إن شئت )) قال: فرجعھا‘‘ الحدیث و  الله تعالیٰ أعلم

[مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  میں ہے، ہمیں عبد  الله نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے داود بن حصین نے بیان کیا، وہ عکرمہ مولی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، وہ عبد   الله بن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ بنو مطلب کے ایک فرد رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، پھر وہ اس پر سخت غمگین ہوئے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے دریافت کیا کہ ’’تم نے اس (اپنی بیوی) کو کیسے طلاق دی؟‘‘ رکانہ رضی اللہ عنہ  نے بتایا کہ میں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: ’’کیا ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’یہ صرف ایک طلاق ہی ہے، اگر تم چاہو تو اس سے رجوع کر لو۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رجوع کر لیا]   

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:527

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ