سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(313) حمل نہ ٹھہرنے کی وجہ سے طلاق دینا

  • 23078
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 738

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے اپنی بی بی ہندہ کو اتہام حمل حرام لگایا اور اپنے گھر لے جا کر خوب بندوبست کیا اور دائیوں کے ذریعہ حمل کی خوب تحقیق کی۔جب کسی طرح سے حمل ثابت نہ ہوا تو ہندہ کو یہ کہہ کر تو میرے کام کی نہیں،اپنے گھر سے نکال دیا۔اب وہ اپنے میکے میں ہے۔والدہ ہندہ نے اپنے داماد کو نوٹس بھی دیا کہ اپنی بیوی کو لے جاؤ اور اپنے گھر رکھو،ورنہ طلاق دو۔بجواب نوٹس شوہر ہندہ نے صاف لفظوں میں لکھ دیا کہ میری بی بی میرے کام کی نہیں ہے،اس کو اختیار ہے،جو چاہے کرے۔اس کو بھی عرصہ بہت ہوگیا،اس صورت میں ہندہ کو کیا کرنا چاہیے؟آیا اپنا نکاح کسی دوسرے شخص سے کرے یا نہیں؟اس کا شوہر تو بجواب نوٹس صاف لکھ چکاکہ ہندہ میرے کام کی  نہیں ہے ،وہ جو چاہے سو کرے،اسے اختیار ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں ہندہ پر طلاق واقع ہوگئی۔اس لیے کہ گو زید(شوہر ہندہ) کے یہ الفاظ کہ"میری بی بی میرے کام کی نہیں ہے،اس کو اختیار ہے ،جو چاہے وہ کرے"صریح طلاق نہیں،بلکہ کنایہ طلاق ہیں،لیکن کنایات طلاق سے بھی اسی طرح طلاق  پڑ جاتی ہے،جس طرح صریح طلاق سے،جب کہ کنایات کے ساتھ شوہر کی نیت طلاق دینے کی ہو یا دلالت حال(قرینہ حالیہ) موجود ہو۔ صورت مسئولہ میں گوزید کی نیت کا حال معلوم نہیں،ممکن ہے کہ اس کی نیت بھی ہو،لیکن دلالت حال(والد ہندہ کا سوال طلاق) ضرور موجود ہے،پس اس صورت میں ہندہ پر ضرور طلاق پڑ گئی۔اب اگر اس طلاق کی عدت گزر چکی ہے یا ہندہ ہنوز زید کی مدخولہ ہی بعد نکاح کے نہیں ہوئی ہے،تو ہندہ ان دونوں صورتوں میں اپنا نکاح دوسرے شخص سے کرسکتی ہے۔یا اگر زید وہندہ پھر باہم نکاح پر راضی ہوجائیں تو دونوں پھر باہم نکاح کرسکتے ہیں۔اگر اس طلاق کی عدت نہ گزرچکی ہو  اور ہندہ زید کی مدخولہ بعد نکاح کے ہوچکی ہوتوزید اس صورت میں رجعت کرسکتا ہے۔اگر زید کی نیت  اس رجعت سے ہندہ کو اچھی طرح رکھنے کی ہو،ستانے اور تنگ کرنے کی نہیں۔

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ... ﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة

"اور جب تم عورتوں کو طلاق دو،پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں توا نھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کرلیں،جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہوجائیں"

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِنـٰتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها فَمَتِّعوهُنَّ وَسَرِّحوهُنَّ سَراحًا جَميلًا ﴿٤٩﴾... سورة الاحزاب

"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو،پھرانھیں طلاق دے دو،اس سے پہلے کہ انھیں ہاتھ لگاؤ تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں،جسے تم شمار کرو،سو انھیں سامان دو اور انھیں چھوڑ دو،اچھے طریقے سے چھوڑنا۔"

﴿وَبُعولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فى ذ‌ٰلِكَ...﴿٢٢٨﴾... سورة البقرة

"اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں"

﴿ وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا...﴿٢٣١﴾... سورة البقرة

"اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو،تاکہ ان پر زیادتی کرو"

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:513

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ