سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(309) تکرار کے بعد مہر بیوی کو دینے سے طلاق کا واقع ہونا

  • 23074
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 713

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی شخص کی زن وشو میں با خود ہا کچھ  تکرار ہوئی ،اس پر عورت کے طلب کرنے سے مرد نے مہر دے دیا تو کسی شخص نے پوچھا کہ کیامہر دے دینے سے طلاق ہوجاتی ہے؟اس کے جواب میں اس نے کہا کہ ہاں ہوگئی۔وہاں پر تین شخص اور بھی موجود تھے۔پہلا شخص(عورت کاچچا) بیان  کرتا ہے کہ میں نے چار بار یہی سنا کہ میرے دیا تو طلاق ہوگئی۔دوسرا شخص کہتا ہے:مجھے یاد نہیں کہ دو بار کہا یاتین بار،مگر پوچھنے پر یہی کہا کہ مہر دے دیا تو طلاق ہوگئی۔تیسرے شخص کا بیان ہے کہ اس نے دوبار یہی کہا،مگرعورت سے مخاطب ہوکر ایک بار بھی نہیں۔تو شرع شریف کی رو سے طلاق واقع ہوئی کہ نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شارع نے ہرامر کے  لیے قانون مقرر کردیے ہیں،جن سے کاموں کا جواز عدم جواز سمجھا جاتا ہے،چنانچہ اسی بنا پر طلاق کی صحت وجواز کے واسطے محاورے کے اعتبار سے دو طرح کے الفاظ ٹھہرائے گئے:

1۔صریح،جو طلاق ہی میں مستعمل ہوتے ہیں اور ان کے استعمال سے بلانیت طلاق ہی سمجھی جاتی ہے۔

2۔کنایہ،جن میں طلاق کے سوا اور باتوں کا بھی احتمال رہتا  ہے اور ان کے استعمال سے بلانیت طلاق معتبر نہیں ہوتی۔

ہدایہ(1/339 مصطفائی) میں ہے:

"الطلاق علی ضربين:صريح وکناية"طلاق کی دو قسمیں ہیں :صریح اور کنائی۔

مگر جب تک کہ طلاق عورت کی طرف بالخطاب یا بالاضافہ منسوب نہ ہو،واقع نہیں ہوتی۔

درمختار کے(ص:193) کے"باب الصریح" میں صريحه مالم يستعمل الا فيه كطقتك وانت طالق ومطلقة" کے تحت میں مر قوم ہے:

"لو قال : إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها "[1]

"اگر اس نے کہا: اگر تو نکلی تو طلاق واقع ہوجائے گی یامیری اجازت کے بغیر نہ نکلنا،کیوں کہ میں نے طلاق کی قسم اٹھائی ہے۔پس وہ نکلی تو طلاق واقع نہیں ہوگی،کیوں کہ اس نے اس (عورت) کی طرف طلاق کی نسبت نہیں کی"

کتب احادیث سے بھی طلاق کاعورت کی طرف ہی منسوب ہونا سمجھا جاتاہے۔صحیح بخاری(2/79 مطبوعہ احمدی) میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے سرور کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم   کا بنت الجون سے بخطاب یہ فرمانا مروی ہے:

"لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ ، الْحَقِى بِأَهْلِكِ" [2]

"تو نے بہت عظیم ہستی کے ساتھ پناہ پکڑی ہے ،لہذا تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا"

"مشکوۃ المصابیح " (ص:276 مطبوعہ بمبئی) میں موطا امام مالک رحمۃ  اللہ علیہ  سے منقول ہے ہے ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بالافافۃ یہ کہا:

إنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي مِئَةَ تَطْلِيقَةٍ، [3]

"بلاشبہ میں اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں۔۔۔"

اب میں کہتا ہوں کہ صورت مسئولہ میں کسی طرح طلاق نہیں واقع ہوئی،کیونکہ اس مرد کا یہ کہنا کہ مہر دے دیا تو طلاق ہوگئی،دو حال سے خالی نہیں،یا بہ نیت طلاق ہے یا بلا نیت۔شق اول میں طلاق اس عورت کی طرف منسوب نہ ہونے کی وجہ سے واقع نہیں ہوئی۔شق ثانی میں دو احتمال ہیں ،یا تو قول مذکور سے اس کا صرف یہ خبر دینا مقصو د ہے کہ ادائے مہر کے وقت طلاق کی نیت غیر واقع امر کی خبر دیناہے ،کیونکہ بے زبان سے کچھ کہے مجرد مہر(جو اس پر واجب تھا) دے دینے سے طلاق نہیں ہوتی،اس لیے یہ خبرغیر معتبر ٹھہری۔

دوسری صورت میں خود وہ مسئلہ ہی غلط ہے،ایسی حالت میں تو اگر اس مسئلے کی صحت کے گمان پر زبان سے بھی عورت کی طرف نسبت کرکے طلاق دیتا تو بھی واقع نہیں ہوتی،کیونکہ اگر کوئی شخص صحیح نکاح کو فاسدسمجھ کر توڑ دے،اس کے بعد ظاہر ہو کہ وہ نکاح فاسد نہ تھا توطلاق واقع نہیں ہوگی ف فتاویٰ عالمگیری(1/530 مطبوعہ کلکتہ) میں ہے:

"ظن الزوج أن نكاح امرأته وقع فاسدا فقال تركت هذا النكاح الذي بيني وبين امرأتي فظهر أن نكاحها كان صحيحا لا تطلق امرأته . "

"خاوند نے یہ گمان کیا کہ اس کا بیوی سے نکاح فاسد واقع ہوا ہے تو اس نے کہا کہ میں نے اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ہونے والے اس نکاح کوترک کردیا۔پھر یہ ظاہر ہواکہ اس کا اس(عورت) کے ساتھ نکاح صحیح تھاتو اس کی بیوی کو طلاق نہیں ہوگی"

حررہ العبدالضعيف الراجی رحمة ربه القوی ابو الخير محمد ضمير الحق الآروی تجاوز الله عنه زنبه الجلی والخفی ۔الجواب صحيح ۔

[1] ۔الدر المختار(3/248)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4955)

[3] ۔موطا امام مالک رحمۃ  اللہ علیہ  (؟؟؟)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:509

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ