سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(307) طلاق کے الفاظ اور زنا کے بعد نکاح کا حکم

  • 23072
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 610

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص دو بھائی ہیں۔بڑے بھائی نے اپنی عورت کو عرصہ تین چار برس سے چھوڑدیا ہے اور نان ونفقہ اس کا بند کردیا اور باہر میں جا کر ایک عورت کرلیا۔عورت اس کی آوارہ ہوگئی۔ ایک معتبر آدمی نے کہا کہ ہم نے دو آ دمی کے سامنے اس سے کہا کہ عورت کو رکھو ۔وہ جواب دیا کہ ہم اس کو ہرگز نہیں رکھیں گے اور نہ ہم سے کچھ واسطہ ہے،جہاں چاہے چلی جائے۔چونکہ یہاں طلاق کا کہنا نہیں جانتے،یہ کہنا اس کا بجائے طلاق کے ہوسکتا ہے یا نہیں؟چونکہ وہ عورت اس کے بھائی چھوٹے سے آشنا ہوگئی اور ایک لڑکا بھی جنا۔وہ عورت اور اس کے شوہر کا بھائی دونوں راضی ہیں کہ نکاح ہوجائے۔نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟اگر ہوسکتا ہے تو کس صورت سے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولاً اس بات کی تحقیق کر لی جائے کہ عورت مذکورہ کے شوہر نے الفاظ مذکورہ"ہم اس کو ہرگز نہیں رکھیں گے اور نہ ہم سے کچھ واسطہ ہے جہاں چاہے چلی جائے۔"فی الواقع  عورت مذکورہ کے حق میں کہے تھے یا نہیں۔اگر کہے تھے تو یہ دریافت کیا جائے کہ کیا وہاں کے لوگ ان الفاظ کے بولنے سے طلاق دینا ہی مراد لیتے ہیں یا شوہر عورت مذکورہ نے ان الفاظ کے بولنے سے طلاق دینا ہی مراد لیا ہے؟تو ان دونوں صورتوں میں عورت مذکورہ پر طلاق پڑ گئی۔پھر اگر عورت مذکورہ اپنے شوہر مذکور کی مدخولہ  نہیں ہوچکی ہے یا ہوچکی ہے ،مگر عدت طلاق مذکور کی گزر چکی ہے تو ان دونوں صورتوں میں عورت مذکورہ اور اس کے شوہر کے بھائی میں نکاح ہوسکتا ہے اور اگر عدت نہیں گزر چکی ہے تو بعد عدت گزر جانے کے نکاح ہوسکتا ہے۔مگر ان سب صورتوں میں یہ شرط ہے کہ عورت مذکورہ اور اس کے شوہر کا بھائی دونوں بدکاری سے سچی توبہ کرلیں۔واللہ تعالیٰ اعلم۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:508

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ