سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(118) مسئلہ رؤیت الٰہی

  • 2312
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3753

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ کیونکہ یہاں ہر چند لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ اور مندرجہ ذیل حدیث پیش کرتے ہیں:

  ’’نسائی میں عکرمہ کی روایت ہے کہ ابن عباس  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:  " أَتَعْجَبُونَ أَنْ تَکُونَ الخُلَّة لِإِ بْرَاھِیْمَ وَالْکَلاَمُ لِمُوْسٰی وَالرُّؤْیَة لِمُحَمَّدٍ" ’’ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے خلیل بنایا۔ موسیٰ علیہ السلام کو کلام سے سرفراز کیا اور محمد ﷺ کو رؤیت کاشرف بخشا۔‘‘ (مستدرک حاکم ، ج: ۱ ، ص:۱۳۳ ، سنن نسائی الکبریٰ ، ج:۶ ، ص:۴۷۲ ، کتاب التفسیر قولہ تعالیٰ ماکذب الفؤاد ماراٰی)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ رسول اللہ ﷺ کا قول نہیں ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ اور عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ رؤیت بالفؤاد والقلب کے قائل ہیں۔ اس روایت … رَأَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ… کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس رؤیت سے مراد رؤیت قلبی ہے، جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی فرماتے ہیں: ’’ بفؤادہ ‘‘اور ایک روایت میں ہے: ’’ بقلبہ ‘‘ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب تعالیٰ کو فو اد و قلب کے ساتھ دیکھا ہے۔ (مسلم ؍ کتاب الایمان ؍ باب معنی قول اللہ عزوجل ولقد راہ نزلۃ اخری ، ج:۱)

لہٰذا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ والی اس روایت اور آیت کریمہ:

﴿لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ وَهُوَ يُدْرِ‌كُ الْأَبْصَارَ‌ ۖ (١٠٣)﴾ (الأنعام)

(’’ اسے کوئی نگاہ نہیں پاسکتی اور وہ سب نگاہوں کو پالیتا ہے۔‘‘) میں کوئی منافاۃ نہیں۔

حافظ ابن کثیر … رحمہ اللہ العلیم الخبیر … سورۂ نجم کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وفی روایة عنه أنہ أطلق الرؤیة ، وھي محمولة علی المقیدة بالفؤاد، ومن روي عنه بالبصر فقد أغرب ، فإنه لا یصح في ذلك شیء عن الصحابة  رضي الله عنهم  وقول البغوي فی تفسیره: وذہب جماعة إلی أنه رآي بعینه، وھو قول أنس والحسن وعکرمة فیه نظر، واللّٰہ أعلم

(’’ ابن عباس فرماتے ہیں آپﷺنے اپنے دل سے اللہ تعالیٰ کو دو دفعہ دیکھا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھنے کو مطلق رکھا ہے۔ اس مطلق کو بھی مقید پر محمول کیا جائے گا کہ آپﷺ نے اپنے دل سے دیکھا، جن لوگوں نے کہا کہ آپﷺ نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے ایک غریب قول کہا ہے ، اس لیے کہ صحابہ سے  اس بارے میں کوئی چیز صحت کے ساتھ مروی نہیں۔ امام بغوی فرماتے ہیں ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ آپﷺ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، جیسے: انس اور حسن اور عکرمہ ۔ ان کے اس قول میں نظر ہے۔‘‘

مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: (امی) کیا محمدﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: ’’ تیری اس بات پر تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ تین باتیں کیا تو سمجھ نہیں سکتا جو شخص تجھ سے وہ بیان کرے وہ جھوٹا ہے۔ جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ محمد ﷺ نے اپنے پروردگار کو دیکھا تھا۔ اس نے جھوٹ بولا۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: 

﴿لَّا تُدْرِ‌كُهُ الْأَبْصَارُ‌ وَهُوَ يُدْرِ‌كُ الْأَبْصَارَ‌ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ‌ (١٠٣)﴾ [انعام)
﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّـهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ  (٥١)﴾ (الشوریٰ)

اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ آپ ﷺ کل کو ہونے والی بات جانتے تھے اس نے بھی جھوٹ بولا۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی:

﴿وَمَا تَدْرِ‌ي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ (٣٤)﴾  (لقمان)

اور جو شخص تجھ سے یہ کہے کہ نبیﷺ نے وحی سے کچھ چھپا رکھا وہ بھی جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی:

﴿ يَا أَيُّهَا الرَّ‌سُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ

بلکہ آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دوبار دیکھا تھا۔‘‘(    بخاری ؍ کتاب التفسیر ؍ سورۃ النجم ح:۴۸۵۵ ، مسلم ؍ کتاب الایمان ؍ باب معنی قول اللہ (وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً أُخْرٰی ) ح:۱۷۷)

شعبی کہتے ہیں کہ عرفات میں کعب   رضی اللہ عنہ کی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی اور ان سے کوئی بات پوچھی۔ پھر کعب نے اتنے زور سے اللہ اکبر کہا کہ پہاڑ گونج اٹھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم بنو ہاشم ہیں (یعنی ہم پر اتنا غصہ نہ کیجیے) کعب رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار اور کلام کو محمدﷺ اور موسیٰ  علیہ السلام میں تقسیم کیا ہے۔ موسیٰ  علیہ السلام نے اللہ سے دوبار کلام کیا اور محمدﷺ نے دوبار اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔ مسروق کہتے ہیں کہ پھر میں نے سیّدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے پاس جاکر پوچھا کہ: ’’ کیا محمدﷺ نے اپنے رب کو دیکھاتھا؟ ‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ: ’’تم نے ایسی بات کہی، جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔‘‘ میں نے کہا: ذرا سوچ لیجیے۔ پھر میں نے یہ آیت پڑھی:

﴿لَقَدْ رَ‌أَىٰ مِنْ آيَاتِ رَ‌بِّهِ الْكُبْرَ‌ىٰ (١٨)﴾ (النجم)

سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھے کہنے لگیں: ’’ تیری عقل کہاں گئی؟ وہ تو جبریلg تھے، جو شخص تجھے یہ بتائے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا یا کچھ حصہ چھپایا، جس کا انہیں حکم دیاگیا تھا یا وہ باتیں جانتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت :

﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ (٣٤)﴾  (لقمان)

میں بتائیں اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا۔ بلکہ آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو اس کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا۔ ایک دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک دفعہ (مکہ کے محل) جیاد میں۔ اس کے چھ سو (۶۰۰) پر تھے۔ اور اس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا ۔ ‘‘ (ترمذی ؍ابواب التفسیر ؍ باب ومن سورۃ النجم ، ح:۳۲۷۸)

سیّدنا ابن عباسٓرضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی:

﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَ‌أَىٰ (١١)﴾ (النجم)

اور کہا کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل(کی آنکھ) سے دیکھا تھا۔‘‘ [ترمذی ؍ ابواب التفسیر]

سیّدنا ابو ذر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم ﷺ سے پوچھا: ’’ کیا آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ ‘‘ تو آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’ وہ تو نور ہے ، میں اسے کہاں سے دیکھ سکتاہوں؟ ‘‘  (@ مسلم ؍ کتاب الایمان ؍ باب فی قولہ علیہ السلام ؍ نورأنی أراہ ترمذی ؍ ابواب التفسیر ؍ حَ:۱۷۸)

ان آیات و احادیث سے وضاحت ہوگئی کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا اور عالم آخرت میں اہل جنت کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا صراحت کے ساتھ احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 09 ص 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ